جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ۔۔۔وہارا امبار

ہبل ٹیلی سکوپ کو خلا سے تصویریں بھیجتے ہوئے انتیس سال ہونے کو ہیں۔ اس کی جانشین جیمز ویب ٹیلی سکوپ ہے۔ سائز میں اس سے پانچ گنا بڑی۔ اس پر کام 1996 میں شروع ہوا تھا اور خیال تھا کہ پندرہ سال میں مکمل ہو جائے گا لیکن پراجیکٹ مسلسل تاخیر کا شکار رہا۔ اگر مزید کوئی مسئلہ نہ ہوا تو مارچ 2021 کو یہ خلا میں ہو گی۔ ایک نظر اس پر۔

اس کا آئینہ اٹھارہ ہیگزاگون سے بنا ہے اور ساڑھے چھ میٹر چوڑا ہے۔ خلا میں ٹیلی سکوپ کو دھول، ہوا یا دوسری چیزوں سے شور کا سامنا نہیں ہوتا۔ اتنے بڑے سائز کا شیشہ کائنات کے بہت سے رازوں کا بتا سکتا ہے۔ یہ انتہائی حساس ٹیلی سکوپ ہے جو انفراریڈ سپیکٹرم کا مشاہدہ کرے گی۔ ہبل صرف الٹرا وائلٹ اور وزیبل سپیکٹرم میں مشاہدہ کرتی ہے۔ انفراریڈ سپیکٹرم میں مشاہدہ زمین پر ٹیلی سکوپ کے لئے مشکل ہے کیونکہ فضا میں اس سپیکٹرم میں “شور” زیادہ ہے۔

خلا میں سورج کی حرارت سے بچانے کے لئے ایک بڑا شیڈ لگایا گیا ہے۔ اس میں سائنسی آلات کو منفی 220 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھا جا سکے گا۔ اس سے کائنات کی ابتدائی عمر کی حالت کی اچھی معلومات ملنے کی توقع ہے۔ کہکشاوں اور ستاروں کی پیدائش کے علم میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ انفرادی ستاروں کا مشاہدہ، ان کے سیاروں کا اور ان کے گرد ہوا کے غلاف کا۔ یہ سب اس سے کیا جائے گا۔ لیکن اس کو مکمل ہونے میں اتنے برس کیوں لگ رہے ہیں؟

کسی خلائی راکٹ میں اتنا بڑا آئینہ فٹ نہیں آتا۔ ان کا ڈئزائن ایسا کیا گیا ہے کہ یہ بھیجتے وقت فولڈ رہیں اور خلا میں جا کر کھلیں۔ اربوں نوری سال دور مشاہدے کی صلاحیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کو خلا میں جا کر نینومیٹر کے بھی فرق کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ ملنا ہے۔ ہر ہیگزاگون کا انفرادی کنٹرول چاہیے۔ یہ اس کی پیچیدگی میں بے تحاشا اضافہ کر دیتا ہے۔ ڈئزاین کا دوسرا چیلنج اس کا وزن ہے۔ اگر اسے ہبل کے ڈئزاین کے ساتھ بنایا جاتا تو اس کا وزن بہت زیادہ ہو جاتا اور خلا میں نہ لے جایا جا سکتا۔ اس کے لئے ہر ہیگزاگون بیریلیم سے بنایا گیا ہے اور اس پر سونے کی پلیٹنگ کی گئی ہے۔ ہلکا مگر مضبوط۔ ہر ٹکڑا بیس کلوگرام کا۔ آئینے کا وزن تین سو ساٹھ کلوگرام۔ بیریلیم پالش کرنے کے لئے بڑی مشکل دھات ہے۔ نینومیٹر تک سموتھ کرنا انجیننرنگ کا بہت کڑا چیلنج تھا۔ بیریلیم خود انفراریڈ روشنی منعکس کرنے کے لئے اچھا نہیں ہے جبکہ سونا اچھا ہے۔ اس لئے اس کی تہہ چڑھائی گئی ہے۔ اور اتنی بڑی ٹیلی سکوپ پر صرف تین گرام سونا استعمال ہوا ہے۔ یہ تہہ کیسے چڑھائی گئی۔ یہ خود ایک دلچسپ طریقہ تھا۔ آئینے کو ویکیوم چیمبر میں ڈالا گیا۔ اس میں کچھ سونے کو ابالا گیا۔ اس کے بخارات کی تہہ اس پر بن گئی۔ اس طرح بننے والی تہہ اس قدر نفیس تھی جو کسی اور طریقے سے نہیں ہو سکتا تھا۔ ڈیزائن کا ایک اور بڑا چیلنج یہ تھا کہ اس نے سینکڑوں آبجیکٹس کو اکٹھے ایک ہی وقت میں دیکھا ہے۔ اس کے لئے نئی ٹیکنالوجی ڈھونڈی گئی، جو صرف اس ٹیلی سکوپ کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ یہ مائیکروشٹرز کی ٹیکنالوجی ہے۔ امید ہے کہ یہ ہمیں بائیوٹیک، میڈیسن اور کمیونیکیشن میں بھی فائدہ دے گی۔ یہ چھوٹے چھوٹے شٹرز کا بکھرا جال ہے۔ اس سے بیک وقت 100 سورسز سے آنے والی روشنی کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔ ہر شٹر خود حیران کن ہے۔ اس کی موٹائی انسانی بال سے کچھ زیادہ ہے۔ کئی دوسرے ڈیوائسز کو صرف اس ٹیلی سکوپ کے لئے ڈیزائن کیا گیا جس میں انفراریڈ سنسر کیمرے شامل ہیں۔ ان سے بڑے اور حساس ڈیٹکٹر اس سے پہلے کبھی نہیں بنے۔ تین الگ طرح کے ڈیٹکٹر، ویو لینتھ کی اپنی رینج کے لئے۔ اور کل اٹھارہ ڈیٹکٹر۔ یہ پر پکسل کے کئی نمونے لے سکتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ اضافی حرارت کا تھا۔ ٹیلی سکوپ کو خود اپنی حرارت کا سگنل کیسے پکڑے سے روکا جائے۔ اس کی ھرارت خارج کرنے کا طریقہ نکالا گیا۔ اس نے اپنا درجہ حرارت منفی دو سو بیس ڈگری سے اوپر نہیں جانے دینا اور کچھ حصوں نے اس سے بھی کم درجہ حرارت پر رہنا ہے۔ اس میں ایک آلہ MIRI صرف منفی 266 ڈگری سینٹی گریڈ پر کام کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اس کو سرد رکھنے کے لئے کرائیوکولر چاہیے۔ یہ سرد ہیلئم سے بھرا پائپ ہے جو خلائی جہاز کے پمپ سے سرکولیٹ ہوتا ہے اور حرارت چوستا ہے۔ اس پمپ کے چلنے سے ہونے والے ارتعاش کو کیسے ختم کیا جائے؟ کم وائبریشن والا پمپ بنانا خود ایک بڑا چیلنج تھا۔

ہمارے نظامِ شمسی میں حرارت کی سب سے بڑی سورس، یعنی کہ سورج سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک باریک جھلی کا شیڈ بنایا گیا۔ اس جھلی کی پانچ تہیں ہیں۔ ہر ایک تہہ بال سے زیادہ باریک ہے۔ سورج جب ان پر پڑتا ہے تو خود ان کا درجہ حرارت سو ڈگری سینٹی گریڈ تک ہو جائے گا۔ جبکہ اندر والی سائیڈ پر منفی دو سو بیس درجے رہے گا۔ لائنچ میں اتنا بڑا شیڈ بھی فٹ نہیں آتا۔ یہ بھی فولڈ ہو کر خلا میں جائے گا۔ اور خلا میں جانے کے بعد آہستہ آہستہ کھلنا شروع ہو گا۔ کئی روز اس کو پورا کھلنے میں لگیں گے۔ حالیہ تاخیر اس جھلی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جب ٹیسٹ کے دوران اس کی ایک تہہ پھٹ گئی تھی۔ اس کو دوبارہ بنانا پڑا تھا اور ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی تھی۔

اس کو بھیجنا بڑا اور نازک مرحلہ ہے۔ اگر خلا میں جا کر کچھ خراب ہو گیا تو مستری بھیج کر ٹھیک نہیں کروایا جا سکے گا۔ لگے ہوئی آخری پیچ تک ہر چیز کو بالکل ٹھیک ٹھیک کام کرنا ہے۔ اس کی “پارکنگ” کی جگہ چاند سے پرے زمین کے دوسرے لیگرانج پوائنٹ پر ہو گی۔

جیمز ویب ٹیلی سکوپ بن چکی ہے۔ سب کچھ مکمل ہے۔ یہ اپنی ٹیسٹنگ کے کڑے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اتنے پیچیدہ ڈیزئن میں کچھ بھی خراب ہو سکتا ہے۔ اس پر کام کرنے والوں کی کوشش ہے کہ ایسا نہ ہو۔ اگر یہ ایک مشن ٹھیک ہو گیا تو کائنات کے اسرار کھولنے میں بڑا اہم ہو گا۔ ہبل ایک عجوبہ تھی۔ یہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔

جیمز ویب کے بعد ٹیلی سکوپ خلا میں بھیجنے کا اگلا بڑا پراجیکٹ WFIRST کا ہے جو اس وقت زیرِ تعمیر ہے۔

اس پر ویڈیو
https://youtu.be/7x0RpGa_IXA

اس ٹیلی سکوپ پر
https://www.jwst.nasa.gov/

Advertisements
julia rana solicitors

وائیڈ فیلڈ انفراریڈ سروے ٹیلی سکوپ پر
https://en.wikipedia.org/…/Wide_Field_Infrared_Survey_Teles

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply