موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے۔۔۔۔نذر محمد چوہان

کائنات کی اکائی  تک کیسے پہنچا جائے ؟ یہ oneness ہے کیا ؟

کل کے میرے بلاگ پر بہت سارے دوستوں نے یہ سوال کیے جس پر مجھے بہت ہنسی بھی آئی  اور رونا بھی آیا ۔ کیونکہ دنیا میں سوائے قدرت کی اکائی  کے ملاپ کے علاوہ سارے کے سارے کام ایک گورکھ دھندہ ، بہت ہی مشکل کٹھن سفر۔ سب سے مشکل ترین کام اس دنیا میں پیسہ کمانا ، شہرت اور طاقت کی لت اور مادہ پرستی کی زندگیاں گزارنا ہے ۔ اور سب سے آسان قدرت کی اکائی  کا رقص ۔
ہم دراصل پیدا ہی اس اکائی  میں ہوئے اور جسم کی موت کے بعد بھی واپس اسی  اکائی  میں چلے جائیں گے ۔ بُدھا نے کیوں خاموشی پر زور دیا ۔ آپ تو اس اکائی  کا رقص کہیں بھی بیٹھ  کر قدرت کے سنگ کر سکتے ہیں ۔ مراقبہ میں کیوں سانسوں کو فوکس کرنے کا کہا جاتا ہے ؟ کیونکہ وہ اکائی  دل میں بستی ہے جناب ۔ آپ کو بس دل کے دھڑکنے کا سبب یاد آنا چاہیے باقی کام اس قدرت کے جوش و جنون کا ہے ۔ میں اکثر اس اکائی  میں سِمبا کے ساتھ جا کر بہت زیادہ لُطف اندوز ہوتا ہوں ، سِمبا بھی ناچنے لگ پڑتا ہے جیسے کوئی ۴۴۰ وولٹ کا کرنٹ اس میں سے گزر رہا ہے ۔
جب میں درختوں سے بغلگیر ہوتا ہوں اور ان سے باتیں کرتا ہوں ، سمندر کی لہروں کے سنگ بہت دور چلا جاتا ہوں ، رات ستاروں سے باتیں کرتے کرتے خدا سے ملتا ہوں تو پھر بے اختیار منہ سے نکلتا ہے ، سبحان تیری قدرت ۔ ہم کوئی  بھی کام اگر فوکس ، توجہ اور جذبے  سے کریں تو ہم اکائی  ہی میں رہتے ہیں ۔ پیکاسو کے سارے فن پارے اس اکائی  میں جا کر ہوتے تھے ۔ ڈیوینچی کی مونالیزا بھی اسی اکائی  کا شاہکار ہے وہ فن پارہ خود بولتا ہے ۔ اگر آپ اسے بغور دیکھیں تو مونا لیزا آپ سے ہم کلام ہوتی ہے آپ کے اپنے مزاج کے مطابق ۔
آپ کو اپنی زندگیوں کے سافٹ ویئر کو ری بُوٹ کرنے کی ضرورت ہے ، اس کو مادہ پرستی نے پلید  کر دیا ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ  وہ سافٹ وئیر کسی بھی وقت ری بُوٹ ہو سکتا ہے چاہے آپ نوے سال کے ہوں ۔ مہاتر نے یہی کیا ، وہ مہاتر کا یُو ٹرن نہیں تھا کہ  اس نے اپنے اسی نائب جس کو ۲۰ سال پہلے لونڈے بازی میں اندر کروایا اس کے ساتھ ملکر ایک نئے انقلاب کی بات کی ۔ بلکہ اس کا ایک نئی  تخلیق کو جنم دینا ، ری بُوٹ کرنا ۔ آپ جتنی  دیر چاہیں جی سکتے ہیں اگر اکائی  کی زندگیاں گزاریں ۔ تقلید اور اس کی شکست بیمار کرتی ہے ۔ دنیا فتح کرنے کا شوق جان لیوا ہوتا ہے جو اسکندر ، تیمور اور چنگیز کو لے بیٹھا ۔
ہم نے اپنا تخلیقی کردار بالکل ختم کر دیا ہے ۔ یہ بہت دُکھ کی بات ہے ۔ آرٹسٹ لوگ تو مسلسل کر رہے ہیں ، ادب ، آرٹس ، موسیقی اور فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ تو ابھی بھی اسی دُھن میں مگن ہیں لیکن ہم نہیں ۔ میرے دوست جاوید اقبال آج بھی اسی جذبہ اور شوق سے کارٹون بنا رہے ہیں ، اپنی ہر سالگرہ پر ایک سال چھوٹے نظر آتے ہیں ۔ یہ سارے اکائی  کے رقص کی  دین ہے  ۔ کوئی  کام بغیر تخلیق والا نہ کریں ۔ آپ کی تخلیق آپ کی جنت ہے ۔ تقلید موت سے بھی برتر ہے ایک بہت بڑی جعلسازی وہ آپ کو حیوان سے بھی زیادہ پاگل کر دیتی ہے ، زندہ لاش بنا دیتی ہے ۔ بھیڑیے نے جب اپنا سایہ پانی میں دیکھا تو وہ بہت چوڑا ہو گیا اور اسی غرور میں سوچا کہ  کیوں نے ابھی جا کر شیر کو زیر کر لوں ، اسی سوچ میں تھا کہ   پیچھے سے ایک بھاری بھرکم شیر نے اُسے آ دبوچا ۔ یہ سارے سائے ، یہ ساری تقلید ، یہ ساری جعلسازیاں شیطانی چرخہ ہے ۔ کل میں نے حکومت پاکستان کو درخواست کی کہ  مجھے نواز شریف سے ملوایا جائے ، میں مفت اس کا روحانی علاج کر دوں گا ۔ اس کی روح بیمار ہو گئی  ہے وہ جسم کو چھوڑنا چاہتی ہے ۔ اس کی ساری دل کی شریانیں  کُھل جائیں گی  ۔ یہ گھوڑے کی طرح بھاگے گا اور سارے جیل کے کام کرے گا جو مشقتیوں پر فرض ہیں ۔ چرخہ بھی کاتے گا ، قالین بھی بُنے گا ، غسلخانہ بھی صاف کرے گا ، اور شام کو عشاء کی نماز پڑھا کر سویا کرے گا ۔
لیکن ہماری حکومتیں ، ہمارے سربراہان ہمارے علماء ، ہمارے مفکر ، سب کے سب پیسہ ، طاقت اور شہرت کے چکر میں ہیں جو سارے کا سارا شیطانی کھیل ہے ۔ پیار محبت کی اکائی  سے باہر کا کھیل ۔
اکائی  والی زندگیاں بہت سادہ ہیں ۔ ان میں کوئی  بادشاہ نہیں اور کوئی  غلام نہیں سب برابر ہیں ۔ سب کے سب پیار محبت کے بندھن میں جُڑے ہوئے ۔ سب اپنے تئیں اپنی تخلیق میں مگن ۔ کوئی  اچھا پینٹر ،کوئی  میکینک ،کوئی  درزی ،کوئی  موچی اور کوئی  نائی  ۔ سب کو اپنی تخلیق اور اپنے پیشے پر فخر ۔ سادگی میں پیسہ نہیں خرچ ہوتا ۔ شوبازی میں کروڑوں روپیہ لگ جاتا ہے ۔ سادگی میں صحت بہت اچھی رہتی ہے ، غصہ نہیں آتا ، کسی سے مقابلہ نہیں کرنا پڑتا، کسی کو بادشاہ نہیں کہنا پڑتا ۔
آج آپ ان اینکرز کی حالت دیکھیں جو نواز شریف سے پیسہ لے کر اس کے گن گایا کرتے تھے ۔ اب ان کو نواز شریف کی زندگی کا دفاع مشکل ہو گیا ہے ۔ کاش سادگی کی زندگی گزارتے اور آج ٹکے ٹوکری نہ ہوتے ۔ مجھے اللہ تعالی نے صرف میری سادگی پر بے حد عزت سے نوازا ۔ الحمد للّٰہ بہت شکر ہے اس پاک ذات کا ۔
آخر میں ایک اور چیز ، ہم نے کبھی اپنے گردو نواح میں قدرت کے کرشموں کو نہ دیکھا ،نہ سراہا ۔ ملک کے پیسے چوری کر کے نواز شریف نے رائیونڈ میں اور مشرف نے چک شہزاد میں محل بنا لیے ۔ وہاں جانور بھی بند کر لیے ، پرندے بھی لیکن خود وہاں رہنے کی توفیق نہیں ۔ بالکل اس سردار صاحب کی طرح جنہوں نے تین سوئمنگ پُول بنا لیے ، ایک ٹھنڈے پانی کا ایک گرم اور  ایک سردار صاحب نے فرمایا “کدی نہان نُوں نئیں وی دل کر دا “ بس یہی طمع لالچ اور تقلید اور اکائی  سے دوری ان لوگوں کے لیے جہنم کی آگ ہے ، چلتی پھرتی موت ۔
اکائی  میں رہیں اگر زندگیاں خوشگوار گزارنی ہیں ۔ بہت سادہ ، پریشانی سے پاک اور سہانی چاندنی راتوں کے سنگ ۔ میں پچھلے بیس سال سے ایسی ہی زندگی گزار رہا ہوں ۔ رتی بھر کی بھی تقلید نہیں کی سوائے والدہ کی بات ماننے کے اپنے دل کی مانی ۔ کیا کچھ نہیں میں نے اس اکائی  سے جُڑ کر پایا ، کیا کچھ نہیں سیکھا ۔ اتنی پیار اور محبتیں بانٹیں اس کائنات کے رقص میں جو سب میرے دل کو توانا رکھے ہوئے ہیں ۔ کوئی  خوف نہیں کوئی ہدف نہیں ۔ کچھ نہیں کرنا بس اس اکائی  وائے امیر خسرو کے کلام میں ۲۴/۷ مگن رہنا ہے ؛

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

تو تو صاحب میرا محبوب الٰہی

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

ہماری چنریا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیا کی پگڑیا

وہ تو دونوں بسنتی رنگ دے

جو کچ مانگے رنگ کی رنگائی

مورا جوبن گروی رکھ لے

آن پڑی دربار تمہارے

موری لاج شرم سب رکھ لے

Advertisements
julia rana solicitors

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply