• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مردم شماری کے نتائج اور وسائل کی منصفانہ تقسیم۔۔ ذولقرنین ہنڈل

مردم شماری کے نتائج اور وسائل کی منصفانہ تقسیم۔۔ ذولقرنین ہنڈل

بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے مردم شماری کروانے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔مبارک ہو حکومت کو بھی جس نے 19برس بعد ملک میں چھٹی مردم شماری کامیابی سے کروائی۔مردم شماری میں شامل تین لاکھ سرکاری اور دو لاکھ فوجی جوان بھی کامیابی کے اس عمل میں مبارکباد کے مستحق ہیں۔

جی ہاں! قارئین آخر یہ عمل 19برس بعد پایہ تکمیل کو پہنچ ہی گیا ۔ملک کی چھٹی مردم شماری کے تحت نتائج سامنے آچکے ہیں۔جس کے نتیجہ کے مطابق 1998سے2017تک2.4فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ موجودہ ملکی آبادی20کروڑ77لاکھ74ہزار520افراد پر مشتمل ہے۔بروز جمعہ ادارہ شماریات نے اعداد و شمار مشترکہ مفاداتی کونسل کو پیش کیے۔اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کی آبادی11کروڑ،سندھ کی 4کروڑ78لاکھ،خیبرپی کے کی3کروڑ5لاکھ،بلوچستان کی1کروڑ23لاکھ،فاٹاپچاس لاکھ، اور اسلام آباد کی بیس لاکھ ہے۔جبکہ اعداد و شمار میں کشمیر و گلگت بلتستان کو شامل نہیں کیا گیا۔19سال میں ملکی آبادی میں57فیصد اضافہ ہوا۔جن میں مرد10کروڑ64لاکھ اور خواتین10کروڑ13لاکھ ہیں۔مردوں کی تعداد خواتین سے51لاکھ زیادہ ہے۔

قارئین! حکومتی مخالفین اور عوام کے نزدیک پاکستان میں موجودہ آبادی مردم شماری کے نتائج کے برعکس ہے۔یعنی موجودہ ملکی آبادی نتائج سے زیادہ ہے۔اختلافات کیے جا سکتے ہیں،مگر ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہمارے اندازے غلط بھی ہو سکتے ہیں۔تاہم 19برس بعد ملک میں مردم شماری ہوئی ہے،گزشتہ19برس سے ملک کو اندازوں کی بدولت ہی چلایا گیا۔اب جب مردم شماری کے نتائج سامنے آ ہی چکے ہیں تو ہم سب کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس حکومتی کاوش کو سراہنا چاہیے۔صرف مردم شماری کروانا ہی حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس کے نتائج کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینا اور علاقہ و وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی حکومتی ذمہ داری میں شامل ہے۔آبادی کی تعداد تو سامنے آ چکی ہے ،اب بہت سے اہم کام حکومت کے ذمہ ہیں۔جلد ہی باقی معلومات یعنی شرح خواندگی و ناخواندگی، گھروں کی معلومات اور ملازمت پیشہ و بے روزگار وغیرہ بھی سامنے آ جائیں گی۔

صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی جائیں اور طے کیا جائے کہ کس صوبے کا قومی اسمبلی میں کیا تناسب ہونا چاہیے۔خواتین و مخصوص نشستوں کی نئے سرے سے تعداد اور صوبوں میں ان کی تعداد وغیرہ۔آبادی کے لحاظ سے ،ضلعوں ،شہروں ، تحصیلوں اور حتی کہ قصبوں و یونین کونسلوں تک نئی حلقہ و حدود بندیوں کے بعد سب سے اہم و ضروری کام ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حلقہ و حدود بندیاں اعداد و شمار کے مطابق کی جائیں۔وسائل کی تقسیم پاکستان میں شروع سے ہی بڑا ایشو رہا ہے مختلف چھوٹے صوبوں و علاقوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان کے حصہ و تناسب کے لحاظ سے وسائل نہیں دیے جاتے۔حکومتی نمائندے بھی صرف اپنے حلقہ جات تک ہی وسائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں،مخالفین کے حلقوں کو شروع سے ہی نظر انداز کرنے کی روایت ہے۔

امید کرتے ہیں ایسی روایات کو ترک کیا جائے گا اور آبادی کے لحاظ سے وسائل کی تقسیم کی جائے گی نہ کہ  پسند یدگی کی بنا پر۔حکومتی مخالفین کو بھی اپنے مفادات کی خاطر بے بنیاد الزامات اور صوبوں میں محرومیت پیدا کرنے کی روایت کو ترک کرنا چاہیے، اور حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ جلد از جلد نئی حلقہ بندیوں اور و سائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔کسی بھی ملک کی ترقی و بقاء ، انصاف و مساوات میں مردم شماری بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔افسوس کہ پاکستان میں گزشتہ کئی برس حکومتی اندازوں و من مانیوں نے انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں اور جانے   انجانے میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے کرپشن کو پروان چڑھایا۔

ترقی یافتہ ملکوں کی لسٹ دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایسے ممالک ہر پانچ یا دس سال بعد مردم شماری کرواتے ہیں تاکہ انہیں ان کی اصل آبادی و مسائل کی تشخیص ہوتی رہے۔پاکستانی آئین کے مطابق بھی ہر دس سال بعد مردم شماری کروانا لازمی ہے،بلکہ مقررہ وقت پر موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔افسوس کہ  اقتدار کے لالچ میں ہماری حکومتیں ناانصافی کی مرتکب ٹھہریں۔ملکی اعداد و شمار سے متعدد محکموں کا تعین و بہتری کی جاسکتی ہے۔جس میں صحت، لاء اینڈ آرڈر،اکنامک گروتھ،نقل و حمل،اناج اور، تعلیم وغیرہ شامل ہے۔شہروں و دیہاتوں کی تعمیر و ترقی بھی ان کی آبادی کے حساب سے ہی ممکن ہے۔پاکستان تو ایسا ملک ہے جہاں قدرتی و غذائی وسائل کی بھرمار ہے۔چند ایسے ترقی یافتہ ملک بھی ہیں جن کے ہاں قدرتی وسائل کی کمی ہے۔مگر انہوں نے بروقت مردم شماری کی بدولت اپنے اعداد و شمار سے اپنی خامیوں و ضرورتوں کی تشخیص کی اور پھر وسائل کی منصفانہ تقسیم نے ان کو ترقی یاقتہ ممالک کی فہرست میں شامل کروا دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے،مگر اکثریت بے روزگار ہے۔میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ اندازوں کے مطابق وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔تقریبا ً ہر سال پندرہ ہزار سے زائد نوجوان ملازمت سے محروم رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے بے روزگاری کے ستائے نوجوان معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔ہمارے ملک میں غیر منصفانہ تقسیم و کرپشن نے ملکی کاروبار و روزگار کا توازن درہم برہم کر دیا ہے۔وقت آگیا ہے کہ حکومتیں و پالیسی میکرز نئے اعدادو شمار کے ساتھ ہی اپنی پرانی غلطیوں و کوتاہیوں کا ازالہ کرلیں۔حکومتوں و پالیسی میکرز کو اپنی پالیسیاں ملکی مسائل و اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر بنانا ہوں گی، اور ایسی پالیسیاں ترتیب دینی چاہییں  کہ ملک سے ہر قسم کی بد عنوانی و غربت کا خاتمہ ہو جائے ،معاشرے میں توازن قائم ہو ،امیر امیر تر، غریب غریب تر والا نظریہ بدل جائے، اور ہر پاکستانی اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرے۔

Facebook Comments

ذوالقرنین ہندل
چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر، اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply