“ہماری تاریخ میں کچھ تو گڑبڑ ہے کیوں کہ “اہرام” مصر سے متعلق میں نے اب تک جتنے بھی مضامین پڑھے ہیں ،کسی ایک نے بھی مجھے مطمئن نہیں کیا، کیونکہ ہم جدید دور میں بھی مصر میں تعمير کیے گئے “اہرام” نہیں بناسکتے، تو اس دور میں یہ کیسے ممکن ہوا۔ ؟ اس پر ہالی ووڈ نے کافی فلمیں بھی بنائی ہیں لیکن سب افسانے ہی لگ رہے ہیں۔ کیونکہ حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مصر میں موجود اہرام قبریں نہیں ہیں، کیونکہ اہرام کے اندر کبھی کوئی ممی نہیں ملی، اب تک ” ریسرچ” کے مطابق تمام ممیاں کنگز وادی میں پائی گئی ہیں۔
حیرانی کی بات دراصل یہ ہے کہ وہ لوگ کس طرح گرینائٹ کے بیس ٹن بلاکس کو انتہائی درستی کے ساتھ کاٹتے تھے اور انہیں لکڑی کے ریمپس کے ساتھ بادشاہ کے حجرے میں ایک دوسرے کے اوپر رکھتے جاتے تھے۔ کیا اس دور میں انسان اس قابل تھا۔؟ اور یہ کام کسی انتہائی ایڈوانس ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن ہے ۔ مان لیں کہ لکڑی کے ریمپس استعمال کیے گئے تھے بڑے بڑے پتھروں کے تین ملین بلاکس کو منتقل کرنے کے لیے لکڑی فراہم کرنے کے لیے آپکو پورا جنگل کاٹنا ہوگا، تو اس لکڑی کا ثبوت کہاں ہے ؟
مصر سے ہمیں اب تک جتنی بھی چیزیں ملی ہیں ان میں کسی ایک میں بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ قدیم “مصریوں” نے اہرام بنائے تھے تو اہرام بنائے کس نے؟ انہیں تقریباً تین ملین پتھروں کی کھدائی،کاٹنے اور اٹھانے کے لیے کتنے غلام یا مزدوروں کی ضرورت پڑی ہوگی؟یعنی تین ملین پتھروں کو اٹھانے کےلیے یقینا ًاس سے زیادہ غلام درکار ہوں گے لیکن اس زمانے میں اتنی آبادی کہاں تھی؟؟ چلو مان لیتے ہیں کہ یہ کام مزدوروں نے ہی کیا ہےلیکن ٹیکنالوجی کے بغیر پورے اہرام کو صحیح “شمال” کی سمت میں کیسے رکھا گیا؟ جب کہ 4000 سال پہلے تعمیر کرنے والوں کو “Wheel” کے بارے میں شاید معلوم بھی نہیں تھا ۔ تو Wheel کے بغیر یہ سب کیسے ممکن ہوا ۔ ؟ جس درستی پر پتھر رکھے گئے ہیں وہ بے مثال ہے اور تمام جدید “ٹیکنالوجی” کے ساتھ عصر حاضر کے معماروں نے اب تک ایسا کوئی کارنامہ کیوں انجام نہیں دیا۔ تو اس وقت یہ کیسے ممکن تھا ؟
دنیا بھر کے تمام میگلتھ ڈھانچے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ ایک جیسی تکنیک کے ساتھ ایک ہی جیومیٹری کیوں بنا رہے تھے؟ اس کے علاوہ پانی کے اندر پائے گئے جاپان کے اہرام کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس سے یہی نتيجہ نکلتا ہے کہ انسانی تاریخ کا کچھ حصہ ہماری “نظروں” سے ابھی اوجھل ہے جب کہ بہت کم حصہ مؤرخین محفوظ کر پائے ہیں، شاید میں غلط ہوں لیکن مجھے تو یہی لگ رہا ہے۔
اہرام مصر کے بعد مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ “حیران و پریشان” کیا ہے وہ ہے، ایسٹر آئی لینڈ۔ ٹیکنالوجی اور سائنس کا جب کوئی نام و نشان نہیں تھا، دور دور کوئی علاقہ بھی نہیں تھا وہاں سے کوئی “اوزار” نہیں ملے، لوگ کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ایک طرف سائنس کہتی ہے، کہ دنیا میں “انسان” کا قد ہمیشہ سے یہی پانچ یا چھ فٹ ہی رہا ہے لیکن دوسری طرف اگر آپ اہرام مصر اور ایسٹر آئی لینڈ کے بارے میں “گہرائی” سے پڑھ لیں تو بندہ فکر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں تو اب بھی موجود ہیں۔
زیادہ تر دوست Easter Island کے بارے میں شاید نہیں جانتے ہوں گے۔ سو اُن کی رہنمائی کے لیے بتاتا چلوں کہ ایسٹر آئی لینڈ دنیا کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر تراشے گئے پتھروں کے بڑے بڑے اور عظیم مجسمے موجود ہیں۔
اب یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ اتنے مجسمے کیسے بنائے گئے۔ بلکہ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ اس “ایسٹر آئی لینڈ” کے آس پاس ایسا کچھ بھی موجود نہیں کہ ہم اس طرف توجہ مرکوز کریں۔ یعنی اگر یوں کہا جائے کہ یہ دنیا کی تنہا ترین جگہ ہے، تو ہرگز غلط نہیں ہوگا کیوں کہ یہاں سے قریب ترین جزیرہ تقریباََ 2000 کلومیٹر دوری پر ہے۔ میں پھر سے دہراتا چلوں “دو ہزار کلومیٹر”۔ اسکے بعد ہم ہرگز یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ یہاں یہ تراشے ہوئے پتھر کہاں سے لائے گئے ہونگے کیونکہ یہ فاصلہ ہمارے بنوں سے دوبئی تک بنتا ہے۔
اسکے علاوہ “آثار قدیمہ” والوں کو آس پاس زیر سمندر بھی ایسا کچھ نہیں ملا، جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ یہاں کچھ لوگ ایسے آباد تھے، جوکہ بہت ہی طاقتور ہوا کرتے تھے کیوں کہ یہ تراشے ہوئے پتھر بہت وزنی ہیں۔ ایک ایک پتھر کا وزن 200-250-255-270 ٹن ہے۔ یعنی عام گاڑیوں سے ان پتھروں کا وزن زیادہ ہے۔ یہ پتھر آج بھی موجود ہیں۔ لوگ ان کو دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے، کہ یہاں ایسے تراشے ہوئے پتھروں کی تعداد چار سو کے قریب ہے۔ اب بھی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان پتھروں کو ہلائیں لیکن ایک بندہ تو کیا دس 10 لوگ مل کر بھی ان پتھروں کو نہیں ہلاسکتے کیونکہ یہ بہت ہی وزنی ہیں۔ پھر ان کو اس قدر خوبصورت طریقے سے تراشنا، پرفیکٹ طریقے سے لگانا اور وہ بھی ٹیکنالوجی کے بغیر عام انسانوں کا کام ہرگز نہیں ہے۔
آثار قدیمہ والوں کا کہنا ہے، کہ “Easter Island” میں رہنے والوں کے پاس کوئی کرین، پہیہ یا مشینری وغیرہ نہیں تھی اس کے علاوہ وہاں ہاتھی بھی نہیں تھے اور نہ ہی یہ پتھر ہاتھی اٹھا سکتے ہیں۔ یعنی ان تراشے ہوئے پتھروں کو بنانے کا، ان کو لے جانے کا اور ان کو صحیح جگہ پر کھڑا کرنے کا تمام تر کام انسانی زور بازو سے ہی انجام پایا ہے۔ لیکن کیا وہ عام انسان تھے؟ یعنی دنیا میں بعض راز ایسے بھی ہیں، جن کے بارے میں ہم صحیح طور سے نہیں جانتے۔ اس جزیرے کو پہلی بار 1722 میں دریافت کیا گیا۔

اس جزیرے کو جب پہلی بار انگلش ریسرچ ٹیم نے دیکھا، تو دیکھتے ہی سب دنگ رہ گئے، کیونکہ تن تنہا Island میں 400 کے قریب اتنے بڑے بڑے پتھر تراش کر بنانا اور پھر ان کو لگانا یقیناََ حیران کر دینے والی بات تھی۔ پہلی بار یہاں جب ریسرچ ٹیم آئی، تو وہ لکھتے ہیں کہ ان تراشے ہوئے پتھروں کے مجسمے دیکھ کر ہم ہکا بکا رہ گئے، کیونکہ ان لوگوں کے پاس بھاری مشنری تو دور کی بات سادہ یا عام مشن بھی نہیں تھی، تو انہوں نے اتنے بڑے مجسمے کیسے بنائے ہوں گے؟ اس کے متعلق کافی کہانياں مشہور ہیں لیکن حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں، آپ اس بارے میں کیا جانتے ہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں