خواتین کا عالمی دن۔۔۔نمرہ شیخ

ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے

خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ہر سال ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کے حق میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں جن میں شرکاء بڑے بڑے بینرز اٹھائے ہوتے ہیں جن پر خواتین  کے حقوق لکھے ہوتے ہیں مختلف ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کا انتظام کیا جاتا ہے جس میں ہمارے معاشرے کی وہ خواتین جو کامیاب ہوتی ہیں مہمان خصوصی ہوتی ہیں اور خواتین کے مسائل پر بات کرتی ہیں یہ خواتین ڈاکٹر وکلاء صحافی انجینئر ہوتی ہیں اپنے شعبے کی ماہر ہوتی ہیں جو روز اپنے گھروں سے اپنے اپنے کاموں پر نکل جاتی ہیں اپنے گھر کو چھوڑ کر نکلنے والی یہ عورتیں بے شک ہمارے معاشرے کا فخر ہیں ۔۔

شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں

لیکن ان خواتین کے علاوہ بھی کچھ خواتین وہ ہیں جو نہ تو ڈاکٹر ہوتی ہیں نہ صحافی نہ وہ وکیل ہوتی ہیں نہ وہ انجینئر یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جو اُن تمام خواتین کے گھر میں جب موجود ہوتی ہیں جب وہ خود یا تو گھر سے باہر ہوتی ہیں یا پھر آرام کر رہی ہوتی ہیں ۔۔

جی یہ ہمارے گھروں میں کام کرنے والی وہ خواتین ہوتی ہیں جو اپنے بچوں کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلتی ہیں یہ وہ مجبور خواتین ہوتی ہیں جن کا حصول دو وقت کی روٹی ہوتی ہے یہ روز ہمارے گھروں میں ہمارے کپڑے دھوتی ہیں صفائیاں کرتی ہیں برتن دھوتی ہیں یہ ہمارے گھروں کا گند صاف کرتی ہیں تاکہ انکا گھر چل سکے ۔۔

ان خواتین کے حقوق پر جتنی بات کی جائے کم ہے گذشتہ سال پاکستان میں گھر میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک جو سامنے آیا ہے وہ کسی طور قابل قبول نہیں انکو مار دیا گیا ان پر ظلم کیا گیا ان خواتین میں بچیاں بھی شامل تھیں تاہم ان واقعات کو روکنے کے لیے ہماری حکومت کو اور ہماری میڈیا کو لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے ۔۔

تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی گزشتہ برس پیش آنے والے واقعات میں زیادہ تر وہ گھرانے تھے جو بہت تعلیم یافتہ اپنے شعبوں کے ماہر تھے لیکن انکا سلوک اپنے گھر میں کام کرنےوالی ملازمہ کے ساتھ بدتر تھا ۔۔

ہم ہر سال خواتین کا عالمی دن تو منا لیتے ہیں لیکن اس صنف نازک کے لیے کوئی  خیر خواہ قدم نہیں اٹھا پاتے آگاہی وقت کی ضرورت ہے خواتین چاہے کسی بھی شعبے میں کام کر رہی ہوں عزت انکا بنیادی حق ہے چاہے وہ کسی آفس میں بیٹھی ہوں یا چایے وہ کسی کے گھر کا کام کر رہی ہوں ۔۔

جس کو تم کہتے ہو خوش بخت سدا ہے مظلوم
جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگوں

اور خواتین کے مسائل پر بات کرتی ہیں یہ خواتین ڈاکٹر وکلاء صحافی انجینئر ہوتی ہیں اپنے شعبے کی ماہر ہوتی ہیں جو روز اپنے گھروں سے اپنے اپنے کاموں پر نکل جاتی ہیں اپنے گھر کو چھوڑ کر نکلنے والی یہ عورتیں بے شک ہمارے معاشرے کا فخر ہیں ۔۔

شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں

لیکن ان خواتین کے علاوہ بھی کچھ خواتین وہ ہیں جو نہ تو ڈاکٹر ہوتی ہیں نہ صحافی نہ وہ وکیل ہوتی ہیں نہ وہ انجینئر یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جو اُن تمام خواتین کے گھر میں جب موجود ہوتی ہیں جب وہ خود یا تو گھر سے باہر ہوتی ہیں یا پھر آرام کر رہی ہوتی ہیں ۔۔

جی یہ ہمارے گھروں میں کام کرنے والی وہ خواتین ہوتی ہیں جو اپنے بچوں کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلتی ہیں یہ وہ مجبور خواتین ہوتی ہیں جن کا حصول دو وقت کی روٹی ہوتی ہے یہ روز ہمارے گھروں میں ہمارے کپڑے دھوتی ہیں صفائیاں کرتی ہیں برتن دھوتی ہیں یہ ہمارے گھروں کا گند صاف کرتی ہیں تاکہ انکا گھر چل سکے ۔۔

ان خواتین کے حقوق پر جتنی بات کی جائے کم ہے گذشتہ سال پاکستان میں گھر میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک جو سامنے آیا ہے وہ کسی طور قابل قبول نہیں انکو مار دیا گیا ان پر ظلم کیا گیا ان خواتین میں بچیاں بھی شامل تھیں تاہم ان واقعات کو روکنے کے لیے ہماری حکومت کو اور ہماری میڈیا کو لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے ۔۔

تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی گزشتہ برس پیش آنے والے واقعات میں زیادہ تر وہ گھرانے تھے جو بہت تعلیم یافتہ اپنے شعبوں کے ماہر تھے لیکن انکا سلوک اپنے گھر میں کام کرنےوالی ملازمہ کے ساتھ بدتر تھا ۔۔

ہم ہر سال خواتین کا عالمی دن تو منا لیتے ہیں لیکن اس صنف نازک کے لیے کوئی  خیر خواہ قدم نہیں اٹھا پاتے آگاہی وقت کی ضرورت ہے خواتین چاہے کسی بھی شعبے میں کام کر رہی ہوں عزت انکا بنیادی حق ہے چاہے وہ کسی آفس میں بیٹھی ہوں یا چایے وہ کسی کے گھر کا کام کر رہی ہوں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جس کو تم کہتے ہو خوش بخت سدا ہے مظلوم
جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگوں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply