وردی بدلنے سے کیا ہوگا۔۔۔آصف محمود

پنجاب پولیس کی وردی ایک بار پھر تبدیل کر دی گئی ہے۔عثمان بزدار صاحب کا ایک عدد ارشاد مبارکہ بھی خبر کے ساتھ طلوع ہوا ہے ۔ فرماتے ہیں : وردی تبدیل ہونے سے پولیس کا سافٹ امیج اجاگر ہو گا ۔ کیا ہمارے وسیم اکرم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ وردی کا رنگ بدلنے سے سافٹ امیج جاگر ہو جائے گا ۔ ایک فیاض چوہان کو کیا روئیں یہاں تو معلوم ہوتا ہے لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند۔بس فرق اتنا ہے کہ کچھ زبان حال سے جلوہ افروز ہیں اور زبان قال سے چمک رہے ہیں۔

سانحہ ساہیوال کے لاشے ابھی عوامی یاد داشت سے محو نہیں ہوئے ۔ لواحقین رو رو کر خود ہی چپ ہو بیٹھے ہیں ۔ عمران خان نے کہا تھا قطر سے واپسی پر انصاف ہو گا، معلوم نہیں یہ دورہ قطر کتنی عشروں پر محیط ہو گا۔ یہ کوئی معمولی حادثہ نہ تھا ۔ پورا سماج کرب سے دوچار ہو گیا۔ اس سارے معاملے میں اگر کوئی صاحب اطمینان سے دہی کے ساتھ کلچہ کھاتے رہے تو وہ وسیم اکرم تھے ۔ درد کے اس سارے افسانے میں وہ اتنے ہی متعلق تھے جتنی خواب میں ’ وا مادولا ‘ ہوتی ہے ۔ خ پیش خو ، وا مادولا ، الف ساکن ، ب ماقوف: خواب۔ اس وا مادوولا کو نکال دیں تب بھی لفظ پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر یہ’ وا مادولا ‘پوری آب و تاب سے موجود ہو ، بھلے شہباز شریف کی طرح پنجاب کا ’ وڈا افسر‘ بن کر ، تب بھی یہ زمینی حقائق میں کوئی فرق نہیں ڈال سکتا۔

پولیس کی کار کردگی ہمارے سامنے ہے ۔ باقی شہروں کو تو چھوڑ ہی دیجیے ، خود اسلام آباد میں کوئی ایک تھانہ ایسا نہیں ہے جہاں رشوت دیے بغیر ایف آئی آر درج کروائی جاتی ہو ۔ اس کا تصور ہی ممکن نہیں ۔ ایف آئی آر درج کرانے کے الگ ریٹس ہیں ، اس کے بعد تفتیش کے مراحل میں ایک ایک لمحہ کی قیمت الگ ہے ۔ یہ میں حق الیقین کی بنیاد پر نہیں عین الیقین کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔ پنجاب کی حالت تو انتہائی بری ہے اور اسے شاید بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ جس جس کا زندگی میں کبھی پنجاب پولیس سے واسطہ رہا ہو اسے خوب معلوم ہو گا یہاں حالات کیسے ہیں۔ان معاملات کو دیکھے بغیر اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محض وردی تبدیل کر دینے سے پولیس کلچر بدل جائے گا اور اس کا سافٹ امیج ابھر کر سامنے آ جائے گا تو ایسے سادہ لوح کی سادگی پرمسکرایا تو جا سکتا ہے ، اس کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال تو دو ایسے واقعات ہیں جنہوں نے سماج کو دہلا کر رکھ دیا۔ جب تک ان دونوں واقعات میں انصاف نہیں ہوتا اور اس ظلم میں شامل لوگ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچتے کسی کو زیب نہیں دیتا وہ پولیس اصلاحات کے دعوے فرمائے۔

پولیس کا سارا ڈھانچہ ویسے کا ویسا ہے ۔ حکومتوں نے ہمیشہ پولیس کے ذریعے علاقے میں دہشت قائم رکھی اور اسی واردات کے بس بوتے پر یہاں الیکشن جیتے ہیں ۔ یقیناًیہ واحد عامل نہیں مگر حلقے کی سیاست کو اپنی مٹھی مین رکھنے کا ایک بڑا عامل ضرور ہے ۔ روز ہم پولیس کے ناروا رویے کی شکایات سنتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سنا کہ اس پر کوئی کارروائی کی گئی۔ الا یہ کہ کبھی پولیس کے حسن سلوک کا شکار کسی طاقتور گھرانے کا کوئی آدمی ہو جائے۔اس صورت میں افسران کی وسیم اکرم کی موجودگی میں طلبی ہو جاتی ہے ۔ لیکن عام آدمی کے لیے تھانہ آج بھی خوف اور وحشت کی علامت ہے ، داد رسی یا شفقت کا سائباں نہیں بن سکا۔

عوام تو مظلوم ہیں ہی ، پولیس کے اندر بھی مظلومین کی کمی نہیں ۔ افسران نے وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے اور نچلے اہلکار ایک عذاب سے گزر رہے ہیں ۔ یہی عذاب پھر عوام کی جانب منتقل کر کے محرومیوں کا بدلہ لیا جاتا ہے۔اچھی گاڑیاں افسران کے بچے اور بیویاں استعمال کرتی ہیں اور کھٹارا گاڑیوں میں گشت فرمایا جا رہا ہوتا ہے۔ وسائل اعلی افسران کھا جاتے ہیں یا تھانوں تک پہنچتے ہیں ؟ جی چاہے تو تحقیق فرما لیجیے۔ حالت یہ ہے کہ کسی تھانے کی حدود سے لاش مل جائے تو اسے اٹھانے کے لیے پولیس کے پاس اخراجات کے لیے وسائل نہیں ہوتے ۔

میں پھر اسلام آباد کی مثال دوں گا کہ سر شام ریڈ زون کی دہلیز پر وردی پہنے پولیس اہلکار ہر آتی گاڑی سے لفٹ مانگ رہے ہوتے ہیں اور چونکہ کم ہی کوئی گاڑی رکتی ہے تو عزت نفس کا سمجھیے کہ آملیٹ بنوا رہے ہوتے ہیں۔ یعنی دارالحکومت میں پولیس اہلکاروں کے آنے جانے کے لیے کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ اب یہ ایک اہم سوال ہے کہ ریڈ زون میں ڈیوٹی سے واپسی پر ٹرانسپورٹ کی واقعی کوئی سہولت موجود نہیں یا سہولت تو موجود ہے لیکن اس سہولت کا جعلی بل اعلی افسران کھا جاتے ہیں اور عام اہلکار روز شام سڑک پر بدحال اپنے اعلی افسران کی ہوس اور لالچ کی تصویر بنے کھڑے ہوتے ہیں۔

پولیس اہلکاروں کی بیرکوں میں کبھی جائیے۔ یہ عبرت کدہ ہے ۔ دوسری جانب افسران کے محلات دیکھیے۔ یوں لگتا ہے عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر سرکاری نوکر نہیں بلکہ فراعین مصر ہیں جو اپنے محلات میں رہ رہے ہیں۔ سینکڑوں کنالوں میں ان کی رہائش گاہیں ہیں۔ سرگودھا پولیس کے افسران کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ یونیورسٹی روڈ کی ایک طرف ان کے محلات کا ایک سلسلہ ہے جیسے یہ ملک ان کے آباؤ اجداد نے فتح کیا ہو۔ جن کے ٹیکس کے پیسوں سے انہیں تنخواہیں ملتی ہیں یہ اسی عوام کو انسان سمجھنے سے انکاری ہیں ۔ عوام کو حکم دیا جا چکا ہے ان محلات کے باہر مرکزی سڑک پر گاڑی نہیں روک سکتے۔سینکروں کنال کے محلات سے جب ایک پولیس افسر باہر نکلتا ہے تو وہ عام آدمی کو انسان کیسے سمجھ سکتا ہے۔ وہ تو خود کو بھی انسان نہیں سمجھ پاتا، کوئی مافوق الفطرت چیز سمجھ لیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سارے مسائل کو دیکھنا اور حل کرنا شاید وسیم اکرم کے بس کی بات نہیں۔ کچھ اور شخصیات بھی ہیں جو تھوڑی تھوڑی وزیر اعلی ہیں اور پولیس افسران کے تبادلے کے معاملے میں تو وہ شخصیات کچھ زیادہ ہی وزیر اعلی وزیر اعلی سی لگتی ہیں۔عثمان بزدار ایسے میں صرف وردیاں ہی تبدیل کروا سکتے ہیں۔یہ اب ایک الگ سوال ہے کہ بار بار وردی بدل کر کس سرمایہ دار کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے؟قومی خزانے کے ساتھ یہ کھلواڑ آ خر کب تک ہوتا رہے گا؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply