بلوچستان نامی سرکس۔۔۔بلال نور

پاکستان میں سال اکثر بڑے شہروں میں ادبی اور سماجی پرگرامز منعقد کیے جاتے ہیں جہاں مختلف عنوان زیر بحث رہتے لیکن سب سے نمایاں آج کل کے دور میں بلوچستان نامی ایک صوبہ جو سورش زدہ اور بلوچ نامی ایک ناراض قوم سے منسلک ہے، زیر عنوان ہے۔

ہر سال بلوچستان پر پروگرامز کا نام دیکھتے ہی سیکڑوں بلوچ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وقت پر پہنچ کر اپنی محرومیاں دوسروں کی زبان سے سننے کے لیے خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔

ان پروگرامز کی ایک چیز ہر شہر میں مشترک ہے جو ہے پینل میں بیٹھے لوگ جو بلوچستان سے تعلق ہی نہیں رکھتے اور بلوچستان کی محرومیوں پر بات کر کے نیچے بیٹھے انجان لوگوں سے داد وصول کرتے ہیں۔

ایسے کئی پروگرامز میں اپنی حاضری دے کر مجھے کم و بیش سارے الفاظ اور ہندسے زبانی یاد ہوگئے ہیں جن کو میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

“بلوچستان میں پانی کی شدید قلت ہے، زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر گئی ہے۔”
“بلوچستان میں غذائی قلت ہے، بچے بھوک سے مر رہے ہیں، قحط سالی ہے اور بارشیں کم ہوتی ہیں۔”
“بلوچستان میں تعلیم کا نظام درہم برہم ہے، لاکھوں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔”
“بلوچستان میں بیروزگاری ہے اور زیادہ سے زیادہ 15 لاکھ خاندان ہیں، انہیں کم از کم 15 لاکھ نوکریوں کی ضرورت ہے۔”

یہ سب باتیں تو خیر ٹھیک ہیں لیکن بلوچستان کے جتنے بھی بنیادی مسائل ہیں ان میں سے صرف کچھ کو پیش کرنا ایسا ہے کہ آپ ان پرگرامز کے توسط سے جو لوگ بلوچستان کے بارے میں سوچ رہے ہیں، انہیں ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ All is Well، بس چھوٹا سا مسئلہ ہے، کل پرسوں ٹھیک ہو جائے گا۔

بلوچستان کو شہر در شہر پنجرے میں بند سرکس کا شیر بنا کر پرگرامز میں رکھنا اور لوگوں کو بلا کر تالیاں بجوانے سے بلوچستان کے نہ مسائل حل ہوں گے، نہ بہتری آئے گی۔

بلوچستان جل رہا ہے، وہاں لوگ غائب ہیں، جنگ زدہ ہے، قانون اور پارلیمنٹ ناکام ہو چکے ہیں، ادارے مفلوج ہیں، کرپشن کا بازار گرم ہے، مائیں بہنیں، بوڑھے ماں باپ، چھوٹے بچے پیاروں کی واپسی کے لیے خون جما دینے والی سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔

بلوچستان میں امن و امان صرف ایک کثرت سے دہرایا ہوا فقرہ بن چکا ہے جہاں سیکڑوں جوان وکلا دن دھاڑے شہید کیے جاتے ہیں، جہاں راتوں رات پولیس ٹریننگ سینٹرز پر حملے میں سیکڑوں نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آئے دن خودکش دھماکوں کی آڑ میں گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سب معاملات کو دیکھ کہ ایک بندہ اگر کہے کہ بلوچ صرف اس لیے ناراض ہیں کیوں کہ انہیں گیس نہیں مل رہے تو ایسی محفل سے خاموشی سے اٹھ جانا ہی بہتر ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply