المیہ ۔۔۔ محمد فیاض حسرت

المیہ یہ نہیں کہ ہم کسی کی بات کو سنتے نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہم کسی کی بات کو سن کر اس کو اپنے حساب سے آگے بیان کرتے ہیں ۔بیشک بات کہنے والا کتنی ہی مدلل بات کیوں نہ کر رہا ہو ہم اسی مدلل بات سے اپنے معنی نکال کر پھر آگے پیش کر دیتے ہیں اور ایک نیا ہنگا مہ شروع کر دیتے ہیں ۔ ہم یہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اصل میں بیان کرنے والا ہمیں کیا سمجھانا چاہ رہا ہے اور ہم کیا سمجھ رہے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ ہم یہی چاہ رہے ہوتے ہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں بس وہی کوئی سمجھائے اور اگر اس کے علاوہ کچھ بات ہو تو اس بات کو ماننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں ۔انہیں دنوں میں ایک حساس معاملے پہ گفتگو شروع ہوئی ۔تحریری صورت میں اور بیانیہ صورت میں بھی ۔ اس حساس معاملے کو ٹھیک طرح سے سمجھانا کچھ صاحبِ علم حضرات نے ضروری سمجھا اور سمجھانے کی کوشش کی ۔ ان کی اس کوشش کے نتیجے میں کئیوں نے جو ان کا حال کیا اس پہ مجھے تو رونا آیا ۔ ایسی ایسی باتیں کہنا شروع کی جن کو سننے کے لیے قوتِ برداشت بھی جواب دے دیتی لیکن پھر بھی ان صاحب ِ علم حضرات نے صبر کا دامن نہ چھوڑا ۔ قوتِ برداشت ہمارے اندر تلاش کی جائے تو اس کا ذرہ  بھی ہمیں نہ ملے گا ۔ ذرا سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ آپ بہتر سمجھتے  ہیں ۔

یہ بہت غیر معمولی بات ہے کہ کوئی غم زدہ انسان غم سے باہر نکلے اور خوشی محسوس کرے اور اس کا سبب آپ ہوں ۔آپ کے کہے یا کرنے سے کسی اداس چہرے پہ اگر مسکراہٹ آئے تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے مگر اس کہے یا کرنے میں آپ ساری حدیں پار کر دیتے ہیں تو یہ ہر گز درست بات نہیں ۔ ہمارے ہاں بارہا یہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ ہر کوئی اسی عمل میں لگا رہتا ہے یعنی بات کرے گا تو اس خیال سے کہ اس کی بات ایسی ہو کہ دوسرے سن کے مسکرائیں ۔سادہ مطلب یہ کہ جگت بازی میں پوری طرح مہارت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی عمل میں اکثر اوقات بجائے ہم کسی کو خوش کرنے کے اسے مایوس کر دیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی عمل کے دوران ہم سچ اور جھوٹ میں کوئی فرق نہیں سمجھتے کہ جو جی میں آیا کہہ دیا ۔ اصل میں جھوٹ ہماری عادت بن چکا ہے اور ہم اس عادت سے مجبور ہیں کہ ہر دفعہ ہم جھوٹ کی ملاوٹ کر دیتے ہیں اور ذرہ  بھر بھی احساس نہیں ہوتا ، احساس تو کیا ہم تو اسے فخر سمجھنے لگتے ہیں ۔ اور اگر کہیں ہمیں احساس ہو یا کوئی احساس دلائے کہ   ہم ایک خطرناک بیماری سے دو چار ہیں تو ہم پھر بھی توجہ نہیں دیتے ۔یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ مرشدی محمد تہامی بشر صاحب کی کتاب ” درِ ادراک ” سے ایک جملہ کوٹ کروں ۔
” کچھ لوگوں کا مزاح تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ اس میں جھوٹ کی آمیزش نہ کر لیں”
کاش کہ ہم اس طرف توجہ دیں ۔جب بات کریں تو سچ بات کریں جب بات سنیں تو صبر و تحمل و سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور جب بات سمجھیں تو پوری ایمانداری کے ساتھ سمجھیں ۔کسی سے اختلاف ہو بھی تو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کریں ۔ کاش کہ ہم دوسروں کے لیے بھی جینا سیکھیں ۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply