بغض اور غداری ۔۔۔ معاذ بن محمود

بغض ایک لاعلاج مرض ہے۔ یہ مریض کو اندر ہی اندر کھاتا رہتا ہے۔ بغض کے مارے افراد حقیقت، اصول پسندی اور دلیل کا استعمال کر کے مثبت طریقے سے نتائج حاصل کرنے کی بجائے اپنی نفرت کے زیراثر ریورس گئیر میں نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ جذباتیت سے بھرپور بیچارگی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دراصل پوری طرح کولڈ بلڈڈ یا سرد مہر قسم کے مجرم ہوا کرتے ہیں جو جانتے بوجھتے غلط معروضات حقائق بنا کر پیش کرتے ہیں۔ 

چند دن پہلے تک ملک بھر میں جنگ کا سماں جاری تھا۔ تمام پاکستانی سیاسی، مذہبی و مسلکی وابستگی سے بالاتر ہوکر حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھے۔ درجہ حرارت اپنی نارمل پوزیشن پر آنے لگا تو ساتھ ہی اپنی اپنی وابستگیاں بھی ظاہر ہونے لگیں۔ کئی معاملات سامنے آئے جن میں اختلاف کا ہونا قدرتی امر تھا۔ انہی معاملات میں سے ایک معاملہ “مودی کی یاری” کا بھی تھا۔ 

یہ مسئلہ دراصل اپنی قدرت میں ہماری عمومی منافقت کا مظہر ہے۔ ہمارے بغضیے، پھر ان کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو، اپنے “بابے” کو اوپر رکھنے کے لیے کچھ بھی کہنے کو تیار ہوتے ہیں۔ حقیقت سامنے آنے پر اس درجے کی ڈھٹائی اور کج غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ سنی لیون بھی شرما جائے۔ پینتیس پنکچر کا معاملہ ہو یا آئی ایم ایف سے قرضے کا، جب مجاہدینِ مسلکِ انصافیہ نے ٹھان لی کہ اپنے خان صاحب کو اوپر رکھنا ہے تو پھر کیا جھوٹ اور کیا سچ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جھوٹ پر افسوس بھی نہیں ہوتا۔ ثمُ بکمٌ عمیٌ فہم لا یرجعون!

ایسے ہی ایک بغض کے زیراثر حضرت کی جانب سے مضمون پڑھا جس کا مدعا فقط اتنا تھا کہ آج خان صاحب کی جگہ نواز شریف ہوتے تو یقیناً فوج کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔ میرا صاحب مضمون سے یہ سوال ہے کہ کیا میاں صاحب فوج کو ویسے ہی نیچا دکھاتے جیسا ایٹمی دھماکے کرتے ہوئے دکھایا تھا یا جیسے کارگل کے موقع پر دکھایا تھا؟

جناب فرماتے ہیں کہ وہ پاک بھارت تعلقات کے موضوع پر میاں صاحب کی نیت کے حامی ہیں مگر میاں صاحب کے طریقہ کار سے اختلاف رکھتے ہیں۔ میں صاحب بہادر سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اب تک آپ کی ممدوح حکومت بیک ڈور ڈپلومیسی پر عمل پیرا نہیں؟ کیا ہم طریقہ کار کے اس اختلاف کو محض اختلاف تک نہیں رکھ سکتے؟ کیا اس بنیاد پر ایک منتخب حکمران کو “سیکیورٹی رسک” قرار دے دینا اور پھر اسی رسک کو سنجیدہ لے کر ٹھیک دو سال بعد اسی حکمران کی نشاندہی پر مسائل کو حل کرنا غداری ہے؟

کھل کے بات کرتے ہیں۔ ڈان لیکس کیا تھا؟ یہی کہ پرانے اثاثے جو اب گلے پڑ چلے ہیں، پر سے ہاتھ اٹھائے جائیں۔ نواز شریف نے یہ مطالبہ کیا اور یقیناً اسی دباؤ کے تحت کیا جس کے تحت اب ایف اے ٹی ایف کی خوبصورت لسٹ میں ہمارا نام شامل ہے۔ کیا تمام کالعدم تنظیموں کو ٹھکانے لگانے کے لیے پلوامہ جیسے واقعے کا انتظار کرنا ضروری تھا؟ کیا آج آپ دنیا کو یہ تاثر نہیں دے رہے کہ یہ سب دباؤ میں ہورہا ہے؟ 

موصوف فرماتے ہیں کہ ۱۹۸۹ میں سیاچن سے افواج ہٹانے کا منصوبہ اور بعد ازاں واجپائی کی لاہور آمد پر کارگل برپا ہوجانے کے پیچھے اصل مسئلہ افواج کو اعتماد میں نہ لیا جانا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ ریاستوں کے درمیان مسائل و معاملات کا حل سیاستدان ہی نکالا کرتے ہیں ناکہ افواج۔ دوسری بات، کیا جمہوری ریاست میں سپریم کمانڈر کی جانب سے ایک فیصلے سے اختلاف کا نتیجہ وہ ہونا چاہئے جو سیاچن سے فوج ہٹانے یا کارگل کے واقعے میں پیش آیا؟ 

کیا موصوف اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں کہ پچھلے پانچ سال اور حالیہ انتخابات میں میڈیا سے لے کر اداروں تک پر محکمہ زراعت کا کوئی دباؤ نہیں تھا؟ کیا سپریم کورٹ کا فروری کے اوائل میں دیا جانے والا فیصلہ فوج کے افسران کے خلاف کاروائی کی تاکید نہیں کرتا جو دھرنے میں ملوث رہے؟ یہ وہ ایک دھرنہ ہے جو کسی طرح سپریم کورٹ تک پہنچ گیا اور جس میں ثاقب نثار کی بدنیتی شامل نہ تھی۔ جانے اس سے پہلے کتنے دھرنوں میں کیا کیا ہوتا رہا؟ 

آپ فرماتے ہیں کہ گزشتہ نصف برس میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بیانات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ دونوں جماعتیں فوج اور حکومت کے درمیان جھگڑے کی منتظر ہیں تاکہ ایسی صورت میں اپنے بھاؤ بڑھا سکیں۔ آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ واقعی یہ ایک شرمناک حرکت ہوگی۔ لیکن کیا آپ امپائر کی انگلی بھول گئے ہیں؟ کیا پچھلے پانچ سال کا گٹھ جوڑ یاد نہیں؟ کیا وہ اس سے کہیں شرمناک نہ تھا؟ یقیناً آپ نے اپنا بابا اوپر رکھنا ہوگا یہاں لہذا بات کرتے تکلیف ہوتی ہوگی۔ 

فرماتے ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ امریکہ سے بہت مرعوب ہیں جبکہ خان صاحب اللہ کے فضل و کرم سے اس عیب سے پاک ہیں۔ اگر مرعوب ہونے سے مراد امریکہ کو سوشل میڈیا یا مین سٹریم میڈیا پر کرارا جواب دینا ہے تو یقیناً خان صاحب سوشل میڈیا پر ایک نڈر آدمی ہیں لیکن اتنے بڑے ہوکر بھی آپ یہ نہیں جانتے کہ امریکہ سے تعلقات سول حکومت استوار کرتی ہے یا کوئی اور؟ بھیا روٹی کو توتی تو نہیں کہتے اب تک؟

فرماتے ہیں عمران خان اور نواز شریف دو مختلف مائینڈ سیٹس کا نام ہے۔ میں مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ عمران خان دراصل نواز شریف کی “بچپن کی غلط کاریوں” والا مائینڈ سیٹ ہے جس کی سنجیدگی کا احساس خان صاحب کو یقیناً بعد میں جاکر ہوگا۔ فرماتے ہیں عمران خان مائینڈ سیٹ ابھی تک بہت کامیاب جا رہا ہے۔ جناب فرماتے ہیں تو یقیناً ٹھیک ہی فرماتے ہوں گے لیکن ہمارے نزدیک کامیابی یا ناکامی کا ثبوت شفاف انتخابات میں پتہ چلتا ہے۔ خان صاحب کے کریڈٹ پہ کئی کامیابیاں ضرور ہیں لیکن شترمرغ کی طرح منہ ریت میں چھپا لینے سے ناکامیاں اور مسائل ختم نہیں ہوجاتے۔ 

ایک بار پھر عرض ہے کہ بغض ایک لاعلاج مرض ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply