• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جشن منائیے، اُس اہم موقع کا جسے آپ زندگی کہتے ہیں۔۔۔  غیور شاہ ترمذی

جشن منائیے، اُس اہم موقع کا جسے آپ زندگی کہتے ہیں۔۔۔  غیور شاہ ترمذی

زندگی کا جشن منائیے نامی موضوع پر ویسٹن تھیٹر (Weston Theatre) لندن میوزیم کے آڈیٹوریم میں منعقدہ اُس سیمینار میں مہمان خاتون مقرر پینی میلوری (Penny Mallory) کی جانب سے سامعین سے سوال کیا گیا تھا کہ زندگی مشکل ہے یا ہماری سوچ اسے مشکل بناتی ہے؟۔ اس سوال کے ضمن میں یہ بھی پوچھا گیا کہ زندگی مشکل ہے یا ہماری منفی سوچ اُسے اور مشکل بنا دیتی ہے؟۔ آخری سوال یہ تھا کہ کیا مشکل زندگی کو ایک مثبت سوچ کے ساتھ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہاں، تو کیسے؟۔

اتنے مقررین کے خطاب تو مکمل یاد نہیں رہ سکے مگر کچھ باتیں جو اس سیمینار یا سمپوزیم میں  کی گئیں وہ کچھ یوں تھیں کہ خوشیاں اس قدر ناپید ہیں کہ ہر شخص پریشان، غمگین دکھائی دیتا ہے، کسی کو صحت کا مسئلہ، کسی کو بچوں کا، کسی کو شادی کا، نوکری کا، اچھے اسٹیٹس وغیرہ کا۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی تھے جن کے ساتھ یہ سارے مسائل یکجا تھے۔ یوں لگتا تھا کہ وہ رات دن اِسی فکر میں گھل رہے ہیں۔ مقرر نے پوچھا کہ کیا یہی زندگی ہے کہ جو ھم چاہتے ہیں وہ ہم کو مل جائے تو ہی ہم خوش ہوں گے، وگرنہ نہیں!۔

پینی میلوری نے کہا کہ جب سے نسل انسانی وجود میں آئی ہے، انہی سوالوں کا جواب ڈھونڈتی رہی ہے اور اب تک کا نتیجہ یہی ہے کہ زندگی میں خوش رہنے کا کوئی حتمی اور قابلِ یقین فارمولہ نہیں ہے، لیکن اگر ہم اپنی سوچ کو مثبت بنا لیں تو کافی حد تک زندگی خوش و خرّم بنائی جا سکتی ہے- اگر ہم اس سوچ کے ساتھ جینا سیکھ لیں کہ میری زندگی بہت اچھی ہے اور اس فکر کو چھوڑ دیں کہ دوسروں کے پاس کیا ہے اور اس کے مقابلے میں ہمارے پاس کیا ہے تو بہت سی پریشانیاں تو ویسے ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ دوسری صورت میں ایسی سوچیں رکھنے سے اگر دنیا جہاں کی دولت بھی ہمیں مل جائے تو ہم مطمئن نہیں رہ سکیں گے کیونکہ پھر ہمیں یہ سوچ ستانا شروع کر دے گی کہ دوسرا ہم سے زیادہ امیر نہ ہو جائے۔ اس طرح کی منفی سوچ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

پینی میلوری نے کہا کہ زندگی میں کچھ چیزوں پر انسان کا زور نہیں چلتا تو پھر اس فکر میں دبلے کیوں ہوں کہ پتہ نہیں یہ نوکری مجھے ملے گی یا نہیں اگر نہ ملی تو اچھا اسٹیٹس کیسے بنا سکوں گا، یا یہ کہ اگر میری اس جگہ شادی نہ ہوئی تو جی نہیں سکوں گا، امتحان دینے کے بعد پریشان رہنا کہ اتنے نمبر آئیں گے بھی کہ نہیں، فنکشن میں جانا ہے تو یہ سوچ پریشان کر رہی ہے کہ دوسرے مجھ سے  زیادہ اچھے کپڑے نہ پہن لیں، یہ الجھاؤ انسان کے دل و دماغ کو کمزور بنا دیتا ہے اور حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا-

پینی میلوری کی رائے میں بہت ذیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنا تنقیدی جائزہ نہ لیا کریں کہ مَیں نے فلاں شخص سے ایسا کیوں کہا یا مجھے ایسا کرنا چاہئے تھا، مَیں نے ایسا کیوں کیا؟۔ فلاں شخص مجھے دیکھ رہا تھا تو وہ میرے بارے میں ایسی ویسی رائے رکھتا ہے۔ اگر مَیں تقریب میں بہت قیمتی لباس پہن کر نہ گیا تو کوئی مجھے اہمیت نہیں دے گا۔ ایسی سوچیں انسان کو احساس کمتری میں مبتلا کرتی ہہیں اور غمزدہ بناتی ہیں-

اِس طرح کی سوچیں اپنانے کی بجائے ہمیں اپنی اصلاح کرنی چایئیے۔ ہمیں چاہئیے کہ اپنی گفتگو کو بہتر بنائیں، خود کو دوسروں کے بارے منفی باتیں کرنے سے بچائیں، اور وہ وقت جو دوسروں کی غیبت میں گزار دیتے ہیں، اس میں مطالعے کی عادت کو اپنائیں، کتابیں پڑھیں کیونکہ  ڈگریاں کمل کر لینے کے بعد علم کے حصول کو روک نہیں دینا چاہئیے بلکہ علم کے حصول کو مطالعے کی شکل میں جاری رکھیں، علم کی کوئی حد نہیں اور یہ جہاں سے بھی، جیسے بھی ملے حاصل کریں۔ اس سے ہمارے اندر اعتماد پیدا ہو گا-

اپنے آپ کو ریلیکس ضرور کریں اور دن کے کسی بھی حصّہ میں 10 منٹ کے لئے آنکھیں بند کرکے خاموشی کے ساتھ اس طرح بیٹھیں کہ کوئی سوچ پریشان نہ کرے، رات کو کم از کم 6 گھنٹے کی نیند ضرور لیں، واک کرنے کی عادت ڈالیں۔ کچھ دنوں میں آپ محسوس کریں گے کہ واک سے آپ کے اندر کی ٹینشن بہت کم ہو چکی ہے اور آپ غصّے یا پریشانی کی بجائے ہنستے، مسکراتے ہوئے واک کرنا شروع کر دیں گے۔ جو وقت گذر گیا، اُس کی تلخ یادوں کو دل میں رکھ کر آنے والے وقت کو خراب نہ کریں۔ وہ لوگ جو آپ کے ارد گرد ہیں ان کی ماضی کی غلطیاں یاد دلا کر تعلقات خراب نہ کریں- ان کے رویوں سے سبق ضرور سیکھیں اور زندگی میں دوبارہ ان سے بیوقوف مت بنیں کیونکہ وقت سے سیکھا  ہوا سبق آپ کے مستقبل میں کام آتا ہے۔ بدلہ لینا یا بدلے کے لئے بےتاب رہنا، زندگی میں تلخیاں بھر دیتا ہے اور زندگی ویسے بھی مختصر ہے اسے غم میں گذارنے کے بجاٰے وقت کو اس طرح سے بہتر بنائیں کہ خوشیاں زندگی میں سما سکیں۔

بےکار میں بحث برائے بحث کو طول نہ دیں بلکہ کسی بھی معاملے میں یہ جان لینے کے بعد کہ آپ دوسرے شخص سے اتفاق نہیں رکھتے تو خاموش ہو جانا بہتر ہے، دوسروں کو ان کی غلطیوں پر معاف کرنا سیکھیں، کسی کو تکلیف میں دیکھیں تو اُسے اپنے رویہ اور تسلی بھرے الفاظ سے آرام پہنچائیں کیونکہ یہی انسانیت ہے، ایسا کرنے سے اندرونی خوشیاں ملتی ہیں۔ بڑی بڑی خوشیوں کے انتظار میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظرانداز نہ کریں۔

یاد رکھیں کہ جیسے ہی آپ فوت ہوتے ہیں تو آپ کی شناخت فقط ایک ڈیڈ باڈی یا ایک لاش سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ پھر اس ڈیڈ باڈی کے بارے میں لوگ بس اس قسم کے جملے بولتے ہیں۔ ’’نعش‘‘ کو غسل دے دیا گیا ہے۔ نعش جنازے کے لئے تیار ہے۔ جنازہ اٹھائیے۔ ڈیڈ باڈی کو سر، پاؤں اور کمر سے پکڑ کر قبر میں اتارئیے۔ آہستہ آہستہ، جی اب ذرا ڈیڈ باڈی کو سیدھا کیجئیے وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی آپ کو آپ کے نام سے نہیں پکارتے جنہیں آپ ساری زندگی پالتے پوستے رہے، یا جن کے لئے آپ نے زندگی وقف کر دی یا جن کو آپ متاثر یا راضی خوش کرنے میں لگے رہے۔

راضی یا خوش اُسے کیجئیے جس نے آپ کو بنایا نہ کہ اُسے جو خود خلیق ہیں مگر کسی کو نقصان مت دیجئیے۔ نہ کسی کا حق کھائیے۔ یہی حقوق العباد ہیں جن کی عدم ادائیگی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور جن کی بجاآوری سے زندگی حسین ہو جاتی ہے۔ ابھی تک جو زندگی بچی ہے، اُسے قیمتی موقع جانئے اور ضائع مت کیجئیے۔ اپنی دولت سے محبت کرنے کی نجائے اپنا پیسہ اُن چیزوں پر خرچ کیجئیے جن سے آپ کو لگاؤ ہے۔ جیسا کہ:۔

مسکرائیے، بلکہ قہقہے لگائیے۔ اُس وقت تک جب تک آپ کے پیٹ میں بَل نہ پڑ جائیں۔

رقص کیجئیے، بے شک بےڈھنگا ہی سہی۔ ۔ ۔ ۔ گائیے، خوب گائیے، بے شک بےسُرا ہی سہی۔

اپنی عجیب و غریب تصویریں کھینچئیے، بالکل بچوں کی طرح ۔ ۔ آپ اپنے اندر کا بچہ ہمیشہ زندہ رکھیں۔ اِسے کبھی نہ مرنے دیجئیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موت اٹل ہے لہذٰا اِسے زندگی کا عظیم نقصان قرار نہیں دیا جا سکتا مگر آپ کا عظیم نقصان یہ ہے کہ جب آپ اپنے آپ کو زندہ ہو کر بھی مار دیتے ہیں۔ جشن منائیے، اُس اہم موقع کا جسے آپ زندگی کہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply