مذہب سے محبت کو اہل سیاست نے کیسے استعمال کیا۔

چند دنوں سے ذہن میں کئی سوال زیر گردش رہے کہ انسان اس دنیا میں کس کو فوقیت دیتا ہے۔انسان کی نظر میں اس کی ذات سے منسلک رشتوں کی اہمیت زیادہ ہے یا اس کے برعکس انسان دوسرے عوامل کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔انسان کن محرکات کی بدولت اپنی تمام محرومیوں کو فراموش کرتے ہوئے اطمینان سے مزین زندگی گزار لیتاہے ۔انسان کس کی محبت کے باعث اپنے تن من دھن کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتا۔انسان کی زندگی میں کیا اہم ہے۔انسان کس کو ناگزیریت کے درجے پر فائز کرتاہے ۔بظاہر تو انسان کی زندگی سے منسلک رشتوں کی اہمیت سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہے مثلاً والدین، اولاد، جیون ساتھی مگر گہرائی سے غور کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان سب سے زیادہ محبت اپنے عقیدے اور مذہب کے ساتھ کرتاہے ۔مذہب انسانی زندگی میں ناگزیر اور سب سے مقدم ترین محرک ہے۔دنیا میں انسان کی اکثریت مذہب سے منسلک ہے۔مذہب کو نہ ماننے والے افراد اقلیت میں ہیں ۔مذہب انسان کی فلاح اور نجات کا ذریعہ ہے۔مذہب یاسیت اور محرومیوں کے دوران انسان کے اندر جینے کی امنگ کو قائم رکھتاہے ۔مذہب کے فوائد بے شمار ہیں۔ اس بات کو لفظوں میں بیان کرنا چنداں آسان نہیں ۔ہر فرد اپنے مذہب سے منسلک ہو کر ثمرات سے مستفید ہوتا ہے مگر انسان کی سرشت میں شامل تنوع اور متلون مزاجی ازل سے یکسانیت کا رد کرتی آرہی ہے۔ افراد سے مل کر معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ معاشرہ مختلف الخیال افراد کا مجموعہ ہے۔ ہر انسان کی سوچ کا محور یکسانیت پر مبنی نہیں حتیٰ کہ ایک گھر میں بسنے والے افراد کی سوچ میں بھی تفاوت موجود ہوتاہے۔کسی بھی مسئلہ پر ہر فرد کی رائے یکساں نہیں ہوتی۔ہر انسان کا الگ نقطۂ نظرہے۔سماج بھی مختلف سوچ کے حامل انسانوں پر مشتمل ہے۔یہ دنیا انسانوں کے تشکیل کردہ معاشروں کا مجموعہ ہے۔ہر انسان کو اپنے مذہب، نظریات، عقائد سے بے پایاں محبت ہوتی ہے۔انسان کی اسی بے حد اور بے پایاں محبت کو استعمال کر کے اہل سیاست نے اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا لیاہے ۔مذہب سے جڑی محبت کو دوسرے انسان کے لیے نفرت میں تبدیل کرتے ہوئے انسان کو انسان کا دشمن بنا کے انسانوں پر حکمرانی کی جا رہی ہے ۔مذہب بذاتِ خود انسان کے لیے سودمند ہے، بگاڑ مگر تب پیدا ہوتا ہے جب اپنے مذہب کو زبردستی کسی دوسرے فرد پر مسلط کرنے کی سعیء لاحاصل کی جائے کیونکہ دوسرا فرد بھی اپنے مذہب سے شدید محبت میں مبتلا ہوتاہے۔اس لیے اچانک کسی دوسرے فرد کے کہنے پر اس کی مذہب سے لگن کا خاتمہ کیونکر ہو سکتاہے۔ اہل سیاست نے انسانوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اہلِ سیاست نے انسان کے اندر اس سوچ کو پروان چڑھایا کہ تم جس مذہب کے پیروکار ہو تمام انسانوں کو اسی مذہب کے دائرے کے اندر مقید کرنا تم پر فرض ہو چکاہے۔ لہذا سب کی سوچوں کو مسخر کرنے کے لیے طاقت استعمال کرو اور پھر انسان نے دوسرے انسان کی سوچ، نظریات اور عقیدےکو شکست دینے کے لیے اہل سیاست کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنے جیسے انسان کا خون بہانا شروع کر دیا۔ صدیوں سے اکٹھے رہنے والے انسان جن میں مذہب کے علاوہ بے شمار مشترکات موجود تھے، اک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔اس دنیا میں انسان کو سب سے زیادہ نقصان انسان کے ہاتھوں پہنچ رہاہے ۔انسان کو مذہب کو پوری انسانیت کے لیے فلاح کا ذریعہ بنانے کے لیے صرف اک اصول اپنانا ہو گا۔ خود اپنے مذہب پر کاربند رہو اور دوسرے کو اس کے مذہب پر کاربند رہنے دو۔محبت اخلاقی اقدار اور کردار سے متاثر کر کے انسان کو اپنے مذہب کے قریب کیا جا سکتا ہے، طاقت اور نفرت سے نہیں ۔اہل سیاست کے ہاتھوں استعمال ہو کر انسانوں پر حکومت کی جا سکتی ہے، انسانوں کے دل پر نہیں ۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply