پختون گوریلا۔۔۔۔ خالد داؤد خان

چند متعصبانہ تبصروں کو تاریخ سمجھنے والے دانش گردوں سے گذارش ہے کہ تاریخ بہرصورت حقائق پر مبنی ہوتی ہے گوکہ ان حقائق کے مقابلے میں مزید حقائق دے کر اسے رد کیا جا سکتا ہے لیکن تاریخ آپکی امڈتی ہوئی خواہشات کی ہرگز محتاج نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میں بحیثیت پختون یا پٹھان ایک افغانی ہوں، اس مغالطے کو اتنا بڑھا چڑھا کر اور اس زور و شور سے پیش کیا جاتا رہا ہے کہ سچ اس کے سامنے کب کا دھندلا چکا ہے۔
جناب عالی، افغانستان کا وجود 1709 ء کے ارد گرد عمل میں آیا، اس سے پہلے اس نام کا کوئی وطن اس کرہء ارض پہ موجود نہ تھا، 1709ء میں میرویس ہوتک نے “لوئے قندھار” کا اعلان کیا تھا۔ 1700ء سے پہلے افغانستان کے خطے میں مختلف راجواڑے ہوا کرتے اور جس کی لاٹھی اسکی بھینس کی بنیاد پر جس کا جہاں زور چلتا اپنی ایک الگ ریاست کا اعلان کر دیتا تھا۔
اسکے بر عکس پختونخواہ کی ریاست کا وجود اس سے صدیوں پہلے تقریباََ 1559 میں عمل آیا اور صوابی کے ملک گجو خان دنیا کے پہلے پختون حکمران قرار پائے۔ اس بات پر زور دیتا چلوں کہ پختونوں کا پہلا حکمران ہونے کا اعزاز کسی کابلی/ افغانی کے پاس نہیں بلکہ ایک صوابی وال کے پاس ہے اسلئے آج کے افغانی تو پختونخواہ کا حصہ ہو سکتے ہیں لیکن پختونخواہ کے پٹھان افغانستان کا حصہ ہرگز نہیں ہو سکتے۔ یعنی مرغی پہلے پیدا ہوئی ہے لہٰذا انڈا چاہے جتنا بھی ایڑھی چوٹی کا زور لگا لے مرغی کا باپ نہیں بن سکتا، بچہ ہی کہلائے گا۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق وطنِ عزیز پاکستان میں پختونوں کی کل آبادی ساڑھے 4 کروڑ کے لگ بھگ بتائی گئی، پختون آبادی کے لحاظ سے پاکستان کو دنیا کا سب سے بڑا ملک اور کراچی کو سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایک بار پھر زور دیتا چلوں کہ یہ اعزاز پاکستان اور روشنیوں کے شہر کراچی کو ملا نہ کہ افغانستان یا کابل کو۔ افغانستان کی کل آبادی بھی اتنی نہیں جتنے پختون پاکستان میں آباد ہیں۔ یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ افغانستان میں پختونوں کی کل آبادی ایک سے ڈیڑھ کروڑ کے درمیان ہے۔ لہٰذا افغانی اگر چاہیں تو اپنے ملک کا انضمام پاکستان کے ساتھ بخوشی کر سکتے ہیں، کیونکہ دریا سمندر میں گرتے ہیں، سمندر کبھی دریا میں نہیں گرے۔ ہمارے دروازے سب کیلئے اسی طرح کھلے ہیں جس طرح افغان پناہ گزینوں کیلئے کھلے تھے۔ 40 لاکھ تو اب بھی اس ملک کا نمک کھا رہے ہیں تو 1 کروڑ اور سہی۔ اس ملک پہ اللہ کی نظر ہے، لنگر جاری رہیگا۔ انشاءاللہ
اپنا پشاور ہی دیکھ لیجیئے جو پوری دنیا میں پٹھانوں کا پیرس کہلاتاہے، یہاں بھی مقامی پختونوں سے ذیادہ جائیدادیں اور کاروبار افغانی بھائیوں کی ملکیت ہیں جس سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ افغانی پختون بھی پختونوں کی ترقی کا مرکز کابل کو نہیں بلکہ ہمارے پشاور کو ہی مانتے ہیں
آخری بات کے بعد لمبی چھٹی کی اجازت چاہوں گا کہ اگر میں ہزاروں سال پہلے پختون تھا ، مسلمانی اور پاکستانیت مجھے بعد میں ملی تو پھر تاریخ کو روکئے مت ، تھوڑا اور کھینچئے تو میں اسلام کے تناظر میں ہابیل قابیل کا بھائی ٹھہرا اور سائنسی اعتبار سے شاید میں “گوریلا” ہوا کرتا تھا۔۔ رکئے ذیادہ اچھلنے کی ضرورت نہیں، جنگی گوریلا نہیں، جنگلی گوریلا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply