• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ستا رہے ہو لکھاریوں کو جیسے, ایسے تمہارے وعدے تو نہ تھے۔۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

ستا رہے ہو لکھاریوں کو جیسے, ایسے تمہارے وعدے تو نہ تھے۔۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

ویسے تو ہم پاکستانیوں کے بارے مشہور ہے کہ ہم بہت جلدی سب کچھ بھول جاتے ہیں- مگر ہم میں سے جن کی بھی یادداشت اچھی ہے, ان کے ذہن میں یہ الفاظ کبھی کبھی گونجتے تو ہوں گے-
“کان کھول کر سن لو, حکومت پر تنقید اور احتجاج کا بنیادی حق مجھے میرا سنہ 1973ء کا آئین دیتا ہے-میری آواز کو ئی مائی کا لعل  بھی نہیں دبا سکتا”-

اور مجھے تو وہ ٹویٹ بھی یاد آتی ہے جو کہتی ہے کہ:-

“Govt. abusing Cyber Crime Law to politically victimize PTI social media activists by threatening/ arresting them. Unacceptable in a democracy”.

دیگر درجنوں معاملات کی طرح عمران خاں حکومت اور فواد چوہدری کی وزارت ان بیانات سے بھی شاید یوٹرن لے چکی ہے اور مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس پر شدید ترین کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے- واقفان حال کہتے ہیں کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مخالفانہ صحافت کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دینے کی تیاریاں کی ہوئی ہیں- مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر غیر محسوس طریقہ سے شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور مختلف طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں- ان پابندیوں کے بعد میڈیا اداروں کی انتظامیہ کو دباؤ میں لا کر ادارتی کالم اور آن لائن ایڈیشن پر شائع ہونے والے آرٹیکل ہٹانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ میڈیا اداروں کے چند اینکر پرسنز کو براہِ راست شو کرنے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حقیقی خبروں کی کوریج کے بجائے میڈیا اداروں میں زبردستی اپنی مرضی کی خبریں داخل کروانے کی روایت جنم دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ’خود سینسر شپ‘ (self sensership ) کی فضا پیدا کی جارہی ہے جس کی وجہ سے آئین کے تحت عوام کی آگاہی کے حقوق متاثر ہوں گے-

شاید عمران خاں کو یاد نہیں رہا تو انہیں بتاتے جائیں کہ کچھ سال پہلے ایک آمر جنرل مشرف نے بھی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر سخت ترین پابندیاں لگائی تھیں- 3 نومبر سنہ 2007ء کو پاکستانی میڈیا پر جو پابندیاں جنرل مشرف حکومت نے عائد کی تھیں ان کے مطابق صدر، وزیراعظم، عدلیہ، افواج پاکستان اور اراکین اسمبلی کے خلاف تضحیک آمیز مواد کی اشاعت یا نشریات پر متعلقہ ادارے اور صحافیوں کے خلاف حکومت کو کارروائی کا اختیار دیا گیا تھا۔ جنرل مشرف کے ان قوانین کے تحت بغیر نوٹس کسی نشریاتی یا اشاعتی ادارے کا لائسینس منسوخ کرنے، قید اور جرمانے کی حد بھی بڑھائی گئی تھی- ان سب میں عدلیہ, پارلیمنٹ اور افواج پاکستان پر بطور ادارہ توہین آمیز مواد کی اشاعت کی کوئی بھی محب وطن اور ذی شعور حمایت نہیں کر سکتا مگر انفرادی طور پر صدر, وزیر اعظم, چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف کی پالیسیوں کو زیربحث لانے اور ان پر تنقید کرنے کے حق سے محروم کر دینا غیر جمہوری طرز عمل ہے-

جنرل مشرف کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں سے بہت پہلے قیام پاکستان کے 11 سال بعد فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاء کے آغاز میں بھی ایسی ہی پابندیاں میاں افتخار الدین کے ادارہ “پروگریسو پیپر لمیٹڈ” (پی پی ایل) یعنی پاکستان ٹائمز ،روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار پر شب خون مارا گیا تھا۔ میاں افتخار الدین تھے تو ایک سیاستدان اور سرمایہ دار مگر انہوں نے اُس وقت کے تمام بڑے اخبار نویسوں اور دانشوروں کو ان اخبارات کا مالک ِ کل بنا رکھا تھا جو ایک روشن، خوشحال مستقبل کے پاکستان کا خواب دیکھا کرتے تھے- ان میں مظہر علی خان ،فیض احمد فیضؔ، مولانا چراغ حسن حسرتؔ، سید سبط ِ حسن، احمد ندیم قاسمی، ابرار صدیقی جیسے نابغہ روزگار لوگ شامل تھے- پی پی ایل کے اخبارات پر حکومتی کریک ڈاؤن اس آپریشن کو سر انجام دینے کے لئے سیکورٹی اداروں کے اعلی افسران کا ایک دفتر لاہور جمخانہ کلب میں بھی قائم کیا گیا تھا۔ تقریبا ً آدھی رات کو مسلح پولیس اور سی آئی ڈی کے آدمیوں نے نسبت روڈ لاہور پر پی پی ایل کے اخباروں کے دفتر کو گھیر لیا۔ رات کی شفٹ کے عملے کی دفتر سے روانگی کے تھوڑی دیر بعد پوری عمارت پر ان لوگوں کا قبضہ ہوگیا۔ اُسی وقت پی پی ایل کے چیئرمین میاں افتخار الدین اور منیجنگ ڈئریکٹر سید امیر حسین شاہ کے گھروں کو بھی پولیس والوں نے گھیر لیا۔ ان کے مکانوں کی اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد چیک بُکیں، بینکوں کے اکاؤنٹ، خطوں کے ڈھیر، اخباروں کی فائلیں اور یہاں تک کہ پی پی ایل کے اخباروں کے لیٹر پیڈ بھی خفیہ والوں نے اپنے قبضے میں کر لئے- اس اقدام کا واحد مقصد اخباروں کی ملکیت میاں افتخار الدین سے لے کر اپنے ایک پٹھو شخص سرفراز احمد کے حوالے کرنا تھا-

جنرل مشرف اور جنرل ایوب کے بعد عمران خاں کی حکومت بھی ایسی ہی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے یا جو نادیدہ طاقتیں ایسی کاروائیاں کر رہے ہیں وہ اس بے خبر حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں- اس جمعہ کی بات ہی لے لیجئیے کہ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آئی ایس او) کے کراچی دفتر کا پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے گھیراؤ کیا, ان کے چار راہنماؤں پر مقدمہ درج کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ آئی ایس او کے کارکنان سعودی ولی عہد اور سعودی حکومت کے دورہ پاکستان پر احتجاج کر رہے ہیں اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹس بھی لگا رہے ہیں- اس مقدمہ کے علاوہ وزارت داخلہ کے ایک سیکشن افسر نے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا جس میں پوری شیعہ کمیونٹی کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی گئی اور آئی ایس او کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی گئی- اس متعصبانہ, جانبدارانہ نوٹیفیکیشن کے جاری ہونے سے پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا جس میں ہر مکتب فکر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی اس کی شدید مذمت کی- لہذا وزیر اطلاعات اور وزیر داخلہ کو اس متعصبانہ نوٹیفیکیشن کی واپسی اور اسے جاری کرنے کے خلاف انکوائری کرنے کا اعلان کرنا پڑا-

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ مگر سعودی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں پر احتجاج کا حق ہر ایک کا بنیادی حق ہے جو اپوزیشن راہنما عمران خاں کے مطابق سنہ 1973ء کا آئین ہر پاکستانی کو دیتا ہے- امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سنہ 1972ء سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے- آئی ایس او کے پلیٹ فارم سے تربیت یافتہ ہزاروں افراد اس وقت ملکی تعمیر و ترقی اور معاشرہ سازی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جن میں سیاستدانوں سے لے کر مذہبی راہنما, بزنس مین, بیوروکریٹس, استاد, ڈاکٹر, انجینئیرز اور دوسرے شعبوں کے لوگ شامل ہیں- آئی ایس او نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت اور تحفظ کا درس دیا- آج تک آئی ایس او کبھی بھی تعلیمی اداروں پر قبضے, مار دھاڑ یا جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہی- اس جیسی پرامن طالب علم تنظیم کے پرامن احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا حکومتی بوکھلاہٹ اور آزادئ اظہار رائے پر شدید قدغن لگانے کے مترادف ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

عمران خاں حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر مخالفانہ سیاسی خبروں اور پوسٹوں کرنے والوں کے خلاف کاروائی سے وہ وقتی طور پر تو ان کو دبانے میں شاید کامیاب ہو جائیں مگر تاریخ کے پنوں میں عمران خاں حکومت کا شمار بھی جنرل مشرف اور جنرل ایوب کی طرح کے حکمرانوں کی طرح ہو گا- آج جمہوریت پسندوں کی واضح اکثریت جس طرح کے “عزت افزاء” الفاظ ان دو آمروں کے لئے استعمال کرتی ہے ویسے ہی الفاظ اور جذبات مستقبل میں عمران خاں کے لئے بھی رائج ہو جائیں گے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply