تصویر کا دوسرا رُخ

ہمارے ملک پاکستان میں ہر طرح کے رنگ ہیں، ثقافتی، معاشرتی، سیاسی. جب پاکستان معرض وجود میں آیا اس وقت خواتین بہت کم تعداد میں فعال تھیں. تحریک پاکستان میں خواتین کی شمولیت کا سبب قائد اعظم کے وہ سنہری الفاظ  ہیں جو انہوں نے اس وقت کہے جب آل انڈیامسلم لیگ نے 1932 میں خواتین کو مساوی درجہ دینے کا فیصلہ کیا، قائد اعظم نے فرمایا:

” کوئی بھی قوم اس وقت تک شان وشوکت کی بلندی کو نہیں چھوسکتی، جب تک اس کی عورتیں آپ کے ساتھ شانہ بشانہ نہ ہوں، ہم برے رسم و رواج کا شکار ہیں. اپنی عورتوں کو قیدیوں کی طرح گھروں کی چار دیواری میں بند رکھنا انسانیت کے خلاف جرم ہے. ہماری عورتوں کو جن تکلیف دہ حالات میں زندگی گزارنی پڑتی ہے اس کی کسی طرح اجازت نہیں دی جاسکتی “۔

قائد اعظم جانتے تھے کہ جو علاقے پاکستان میں شامل کیے جارہے ہیں وہاں عورتوں کی حالت پسماندہ ہے اور چیدہ چیدہ خواتین ہی ان علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ  ان حالات میں بھی  آگے بڑھیں ہیں . آہستہ آہستہ وقت گزرا، خواتین میں شعور اور آگاہی میں اضافہ ہوا، تعلیم کا احساس جاگا، اور خواتین سیاسی انتخابات میں حصہ لینے لگیں ۔ایک بڑی تعداد خواتین کی اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔ خواتین کے   بڑھ چڑھ کر سیاست میں حصہ لینے سے عورت کی آواز کو سنا جانے لگا، لیکن پتہ نہیں وہ وضع داری، اخلاق اور عزت رخصت ہوتی چلی گئی جو قائداعظم کے زمانے میں موجود تھی ، بلا جھجک بدتمیزیوں کے مظاہرے اسمبلیوں کے فلور پر ہوئے ،کسی ممبر نے خاتون ممبر کو کھلے الفاظ میں سمجھانے کے لیے اکیلے ملنے کا کہہ دیا  اور ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، بعد میں معافی مانگنے پہ معاملہ رفع دفع ہوا، کسی کو برے القاب سے نواز دیا بعد میں الفاظ واپس لے لیے، کہیں جلسے میں عورتوں کو دھکم پیل کا نشانہ بنایا گیا اور خوار کیا۔


بات اتنی سی نہیں ۔۔بات شروع ہوتی ہے اس وقت سے جب عورت نے چولھا چکی چھوڑ کر پاکستانی معاشرہ میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی جرأت کی، بہت سی جگہ کامیاب ہوئی، کئی جگہ ناکامی کا منہ بھی  دیکھنا پڑا، کہیں عورتوں کی تعلیم کے فروغ میں بم دھماکوں کا شکار ہوکہ ملک سے باہر گئی تو نوبل انعام یافتہ “ملالہ” بن گئی ، کہیں اس نے پاکستانی عورت پر  تیزاب گردی بارے  شارٹ ڈاکیومنٹری بنائی تو آسکر انعام یافتہ” شرمین عبید چنائے “کہلائی، کسی نے بچپن سے مایئکروسافٹ میں نام روشن کیا تو “ارفع کریم “بن گئی ، لیکن آج بھی اس پاکستان میں ایسے علاقے  موجود  ہیں جہاں عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں، ایسی جگہیں ہیں جہاں عورتیں علاج معالجے کی مردانہ سہولیات کی وجہ سے بنا علاج کے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، کہیں زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کا بھائی پنچائیت کے فیصلے پر  سامنے والے مجرم کی بہن کو زیادتی کا نشانہ بناتا ہے ، کہیں کاری کا الزام لگا کرعورت کو بنا قصور کے قتل کردیا جاتا ہے، کہیں قرآن سے شادی پر بات ختم ہوتی ہے  تاکہ جائیداد زمین تقسیم نہ ہو. اب بھی وراثت میں عورت کا حصہ نہیں ماناجاتا، سارے قوانین بن گئے ہیں، سب شقیں لاگو ہوتی ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا، کسی میں ہمت نہیں مقدمہ لڑیں اور سزا دلوائیں.

اب میں آتی ہوں اس موضوع کی طرف جو کچھ دنوں سے میڈیا کی زینت اور ریٹنگ کا سبب بنا ہوا ہے . یہ ایک جماعت کی خاتون ممبر اسمبلی کا اپنےپارٹی سربراہ پر الزام ہے کہ وہ انھیں غیر اخلاقی میسجز بھیجا کرتے تھے اور ان سے شادی کے خواہش مند تھے، ان کے مطابق یہ میسجز چار سال پرانے ہیں. آپ سوچیں یہ خاتون جس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں وہ علاقہ ایسا ہے جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی آزادی بھی نہیں، وہاں جرگہ کا فیصلہ اولیت رکھتا ہے.ان خاتون کے لگائے گئے الزامات سچ ہیں یا جھوٹ مجھے اس سے کچھ  واسطہ  نہیں لیکن انہوں نے اپنے علاقے کی خواتین پر تو تمام دروازے بند کروادیے ،ان کا نام تو ایک مثل گالی بن گیا اس علاقے کی خواتین کے لیے جو پہلے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑرہی تھیں. اگر ان خاتون میں  ذرا سی بھی اخلاقی جرأت ہوتی،  ذرا بھی احساس ہوتا تو اسی وقت  اس بات کو منظر عام پر لاتیں، چار سال پرانی بات کو جب انہوں نے اس وقت اہمیت نہیں دی تو اس بات کو اب  بیان کرنے کا  مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا نہیں تو اور کیا ہے۔

سیاست کا گندا کھیل کھیلنا ہی ہے، لیکن اس   کھیل میں وہ اپنے علاقے، اپنے ملک کی خواتین کی تقدیر سے بھی کھیل گئیں ،   مردوں کے اس  معاشرے میں عورت ہر جگہ اپنی ہمت اور نیک نامی کی وجہ سے کھڑی ہے، انہوں نے یہ سب چیزیں داؤ پر لگادیں، اپنے پارٹی سربراہ کو برا ثابت کرنے کے لیے اتنی دیر کیوں کردی، چار سال پہلے اس بات کو منظر عام پر لاناچاہیے تھا۔

یاد رہے ہمیں ان کی پارٹی کے سربراہ سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن جو واقعات و حالات ہیں وہ خاتون کے حق میں نہیں اگر وہ وقت پر بتاتیں تو ان کے کردار کی واہ واہ ہوتی لیکن اس وقت انہوں نے اپنے آپ کو پستی  میں گرا لیا اور خواتین کے مستقبل سے بھی کھیل گئیں۔ آپ کے علاقے سے کون باپ ،بھائی اپنی بیٹی  یا بہن کو سیاست میں، تعلیم میں آگے آنے دے گا ؟آپ نے ستر سال پیچھے دھکیل دیا۔۔۔ مجھے افسوس  کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا   ہے کہ آپ نے پاکستان کی خواتین کے خلاف سازش کی ہے، آپ پہلے ہی یہ بات سب کو بتادیتیں، اپ کے تو والد بھی آپ کا ساتھ دے رہے ہیں وہ اس  وقت بھی ساتھ ہوتے ،آپ نے کردار کشی کی سیاست کھیلی جو پاکستان میں ترقی کازینہ سمجھی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اس کا فیصلہ تو وقت اور عدالتیں کریں گی، اگر پارٹی کا سربراہ غلط ہوا تو وہ بھی ثابت ہوجائے گا لیکن پاکستان کی خواتین کا اس وقت تک فیصلہ یہی ہے کہ بہت بڑی غلطی کی آپ نے، میرے وطن کی سمجھدار خواتین آپ کو  معاف نہیں کریں گی، میں آپ کو  معاف نہیں کروں گی کیونکہ میری بیٹیاں بھی پروفیشنل لائن میں ہیں اور میں نے یہی سکھایا ہے کہ اگر کوئی غلط بات ہوتو اسے چھپاؤ نہیں بلکہ بتاؤ ،تاکہ فوراً اس کا تدارک کیا جائے، ہمیں تم پر اعتما د ہے ہمیں اپنی تربیت پہ ناز ہے!

Facebook Comments

شاہانہ جاوید
لفظوں سے کھیلتی ہوئی ایک مصنف

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply