سمندر سے گہری۔۔۔محمود چوہدری

 

یہ سمندرکتنا پیارا ہے ۔۔آلیکس نے سوچا ۔ یہ زیاہ گہر ا ہے یا میری”ایوا“کی آنکھیں ۔ اس نے خود کلامی کی ۔ وہ دل ہی دل میں مسکرایا ۔ ۔۔۔

وہ اپنی ”ایوا “ سے ملنے جارہا تھا ۔ ابھی پانچ ماہ پہلے ہی تو اسے ایوا سے محبت ہوئی تھی اور اب اس کے بغیر ایک پل رہنا ناممکن لگتا تھا۔انٹر نیٹ پردونوں کی دوستی ہوئی اورچیٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا ۔ چھوٹے جملے بڑے جملوں میں تبدیل ہوئے ،لکھنے سے آواز سننے اور آوازسے ایک دوسر ے کو دیکھنے کا سفر انہوں نے دنوں میں طے کر لیا ۔ یہ ٹیکنالوجی ہی ہے جومہینوں کا سفر لمحوں میں طے کرا دیتی ہے ۔ یہ محبت بھی کیا دیوانگی ہے ۔کتنی فضول تکرار ہوتی ہے دیوانوں کی۔ دہراتے رہنا ۔ تم یاد آتے ہو۔ میں تمہیں مس کر تاہوں۔کیا تم نے مجھے مس کیا ۔سونے سے پہلے لکھنا اور جاگنے کے فوراًًً بعد لکھنا ، اور پھرلکھتے رہنا ۔ہرپندرہ منٹ  بعد محبت کا اظہار سننا ۔ یہ محبت بار بار ایک ہی بات کا اقرار کیوں مانگتی ہے ۔ یہ کیسی کیفیت ہے جس میں یقین میں بے یقینی ، چین میں بے چینی اور سکون میں بھی اضطراب ملتاہے ۔

ویسے  تو وہ دنوں افریقی تھے لیکن آلیکس سینی گال میں رہتا تھا اورایوا اٹلی میں مقیم تھی ۔ آخر ایک دن آلیکس نے اسے کہا کہ اب بس بہت ہوگئی یہ ورچیوئل محبت۔ مجھے تم سے ملنا ہے ۔ ایوا کہنے لگی یہ ممکن نہیں ہے ۔تمہیں یورپ کا ویزہ نہیں ملے گا۔لیکن آلیکس نے ٹھان لی تھی کہ وہ اپنی ایوا سے مل کر رہے گا ۔اس نے سوچا اگر محبت کی ہے تو پھراسے پانے کا ہر طریقہ اپنائے گا ۔وہ اسی دن آف لائین ہوا اور رخت سفر باند ھ لیا ۔ اس نے اپنی جمع پونجی نکالی سینی گال سے مالی اور الجزائر سے ہوتے ہوئے لیبیا پہنچ گیا۔وہاں بھی اس نے کچھ دن مزدوری کی اور آخر اتنی رقم جمع کر لی کہ ایک ایجنٹ کوکئی سو ڈالر دیکرایک ایسی کشتی میں سوار ہوگیا جو غیرقانونی تارکین وطن شہریوں کو اٹلی لیکر جارہی تھی۔

یہ سمندرکتنا پیارا ہے ۔۔آلیکس نے ایک ٹانگ کشتی سے باہر لٹکاتے ہوئے خود کلامی کی ۔ یہ زیاہ گہر ا ہے یا میری”ایوا“کی آنکھیں۔۔

کشتی میں کل 78افراد سوار تھے جس میں 30عورتیں تھیں ۔ کشتی میں اتنے لوگوں کی گنجائش نہیں تھی ۔ لیکن ایجنٹوں کا لالچ۔سب کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ آٹھ دس گھنٹے میں وہ اٹلی پہنچ جائیں گے ۔ اس لئے کشتی میں کون کھڑاتھا کون بیٹھا تھا ، کون پھنسا ہوا اور کون لٹکا ہواکسی کی کچھ ہوش نہیں تھی سب کو ایک ہی جنون تھا کہ اپنے سپنوں کے نگر پہنچیں ۔کھانے کے لئے سب نے ایک پانی کی بوتل ایک ٹونا فش کی ڈبیہ اور ایک ڈبل روٹی رکھی تھی اس سے زیادہ کسی کے پاس گنجائش تھی اور نہ ہی کشتی میں جگہ۔ وہ رات کے اندھیرے میں روانہ ہوئے تھے ۔ سمندر بڑا شانت تھا ۔ لگتا تھا کشتی کے انجن کی آواز اس کی لہروں کی نیند میں مخل ہو رہی ہو ۔ پوری رات گزرگئی دن کی روشنی نظر آنا شروع ہوگئی سمندر کاپانی سورج کی روشنی میں نیلگوں ہوگیا لیکن کنارے پر دور دور تک آبادی کا نشان نظر نہیں آرہا تھا

یہ سمندرکتنا پیارا ہے ۔۔آلیکس نیلے پانی کو دیکھتے ہوئے من میں بڑ بڑایا۔ یہ زیاہ گہر ا ہے یا میری”ایوا“کی آنکھیں۔ ۔۔

دوسری رات گزر گئی صبح کے اجالے نظر آنا شروع ہوگئے لیکن منزل کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ ایسی کشتیوں کو ہمیشہ ایسے رستوں سے لایا جاتا ہے جہاں وہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں ورنہ انہیں واپس بھیجا جا سکتا ہے ۔دوسرا دن گزر گیا تیسری رات آگئی ۔ وہی سمندر جو بڑا شانت تھا بڑے سکون میں تھا اچانک ناراض ہوگیا ۔ یکایک اس کی لہروں میں طغیانی پیدا ہو گئی کشتی ہچکولے کھانا شروع ہو گئی ۔ کشتی اچھل اچھل کر پانی کی موجوں سے سر ٹکرانا شروع ہوئی تو ڈر ان کی کشتی پر دستک دینے لگا ۔ کھلا سمندر کوئی بستی کوئی کنارہ کوئی ساحل کوئی منزل کوئی نشان کچھ بھی نہیں تھااس رات سمندر لگتا تھا پاگل ہوگیا ہو۔رات بھر ان کی کشتی ان کی حیات کے لئے موت سے لڑتی رہی ۔ آخر ماجھی کو دورکچھ جھاڑیاں اور ایک  چھوٹا سا ٹیلہ نظر آیالیکن یہ کنارہ نہیں تھا بلکہ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا ۔جو ان کی زندگی بچانے کے لئے ایک تنکا ثابت ہوا ۔

ماجھی نے کشتی جزیرے کے پاس کھڑی کی اور موٹر بند کردی ۔ خوف کے مارے سب نے پوچھا انجن کیوں بند کردیا ہے۔جواب ملا کہ اگر ہم نے کشتی چلانے کی کوشش کی توطوفانی موجوں اور کشتی میں جیت موجوں کی ہوگی ایسی حالت میں سفر جاری رکھنا موت کو دعوت دینا ہے ۔اگلادن چڑھ آیا ۔ ان کی پانی کی بوتلوں میں پانی ختم ہوگیاتھا روٹی کے ٹکڑے کب کے ختم ہوچکے تھے کشتی کھڑی تھی پھر رات آگئی خوف کا اندھیرا پھیلنا شروع ہوگیا ،کوئی روشنی نہیں ، کوئی بتی کچھ نظر نہیں آرہا ہر طرف پانی ہی پانی تھا کشتی موجوں کے سہارے ادھر سے ادھر خود ہی ہچکولے کھا رہی تھی ٹھنڈ بھی ہوگئی تھی پھر اس طرح چار راتیں گزر گئی ہوش جواب دے گئے ،پہلے پہلے پیشاب یا رفائے حاجت کے لئے شرم آتی تھی اور ایک چادر کا پردہ کر لیا جاتاپھر مایوسی ،بھوک اور خوف نے سب لاج شرم مٹا دیئے تھے ۔

یہ سمند ر کا غصہ بھی بالکل ایوا جیسا ہے ۔ آلیکس نے سوچا ۔وہ من ہی من مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔ اب اتنی آسانی سے راضی نہیں ہوگا ایوا بھی جب ناراض ہوتی تھی تو اس کی آئی ڈی  کئی کئی گھنٹے بلاک کر دیتی تھی ۔

سمندر اپنا موڈ بدلنے کے لئے تیار نہیں تھا تووہ بھی کشتی کو لہروں کے حوالے کرنے کے لئے کیسے تیار ہوجاتے؟ساتویں دن منظر بدلا ان کی کشتی پر ڈر کے ساتھ موت نے بھی دستک دے ڈالی ان کا ایک ساتھی”ہدیش “ چارگھنٹے قے کر تے کرتے بے سدھ ہوگیا ۔ وہ بے ہوش ہوا تھا یا مر گیا تھا ۔کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی اگلے دن ”گینے “نے اسے ہلانے کی کوشش کی لیکن ہدیش یورپ کی بجائے اپنی آخری منزل  پر روانہ ہوچکا تھا ۔ایک مسافر جوزف اپنے ساتھ بائبل لیکر آیا تھا اس نے کچھ پڑھا ۔مسافروں نے ہدیش کے بوٹ اتارے اور اس کی لاش کو سمندر کے حوالے کر دیا ۔ سب پریشان ہوگئے اب تو آلیکس بھی پریشان ہوگیا اسے پہلی بار لگا کہ شاید یہ سفر کبھی ختم ہی نہیں ہوگا۔کسی نے بتایا کہ مرنے والے نے پیاس کی شدت سے سمند ر کا کھاراپانی پی لیا تھا اس لئے مر گیا ۔لیکن میٹھا پانی تو اب کسی کے پاس تھا ہی نہیں ۔ پھر ایک لڑکے کو انوکھا آئیڈیا آیا ایک خالی ڈرم لیاگیا اسے اچھی طرح دھو کر اسی میں سب کا پیشاب جمع کیاگیا۔پیاس بڑی ظالم ہے موت سے بچنے کے لئے کچھ بھی پلا سکتی ہے ۔

کشتی میں سوار عورتوں میں دو حاملہ بھی تھیں ۔ایک عورت کا بچہ کشتی میں ضائع ہوگیا۔اسے حاملہ کرنے میں کسی بارڈر پولیس والے یا انسانی سمگلر کا ہی ہاتھ ہوگا۔دوسری عورتیں اس کی مدد کو آگے بڑھیں مگروہ بولی رہنے دیں اس زندگی سے موت اچھی ہے اوراس نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔کسی کو رونا نہیں آیا کیوں کہ کسی کے پاس رونے کی ہمت موجود نہیں رہی۔آخرآلیکس اور کچھ دیگر مردوں کو غصہ آیا وہ کشتی والے سے لڑ پڑے کہ اگر ہم نے کشتی نہیں چلائی تو ہم یہاں کھڑے کھڑے ہی مر جائیں گے ۔ بحث و تکرار کے بعد انہوں نے انجن سٹارٹ کیا اور بے رحم لہروں سے نبرد آزما ہوگئے ۔پورے آٹھ گھنٹے ان کی کشتی لہروں سے لڑتی رہی اب مقابلہ اس بات کا تھا کہ لہروں کا شور اور ان کی چیخوں میں سے جیت کسی کی ہوتی ہے ۔ آخر انہیں دور روشنیاں نظر آنا شروع ہوگئیں ۔ابھی ان کی چیخیں تالیوں میں بدلی ہی تھیں کہ سمندر کی ظالم لہروں کا مقابلہ کرتی ناتواں کشتی الٹ گئی ۔ سارے مسافر پلک جھپکتے ہی سمندر کے اندرتھے  ۔سب نے الٹی کشتی کو پکڑ نے کی کوشش کی کچھ کامیاب بھی ہوگئے ۔ کشتی کو ڈوبتے دیکھ اطالوی بحری پولیس ان تک پہنچ تو گئی لیکن بہت دیر ہوچکی تھی ۔ وہ صرف پانچ لوگوں کو بچانے میں کامیاب ہوئے ۔ آلیکس ان پانچ مسافروں میں نہیں تھا ۔ ٹی وی کی سکرین پر دو منٹ کی خبر آئی اور گزر گئی کہ کچھ افریقی شہری غیرقانونی راستے سے اٹلی کے ساحل میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ ان کی کشتی حادثے کا شکار ہوگئی ۔کسی مرنے والے کا نام نہیں لیا گیا ، کوئی صحافی اگر چاہے بھی تو ان کے نام کی لسٹ نہیں بنا سکتا تھا ۔

آج ویلنٹائین ڈے تھا ۔شہر کے سب سے فیمس ڈسکو کلب” سن سیٹ بیچ“ سے ایوا باہر نکلی۔تو مارٹن اس کا انتظار کر رہا تھا ۔اس کے ہاتھوں میں سرخ گلاب تھا ۔ مارٹن زمین پر اپنے گھٹنے رکھتے ہوئے گلاب پیش کرتے ہوئے اس کہنے لگا۔۔ سنو ؛پلیز فارگیو می ۔ آج بڑاخاص دن ہے محبت کرنے والوں کا دن ۔مجھے یقین ہے آج تم مجھے معاف کردو گی ۔ مانتا ہوں کہ میں بھٹک گیا تھا ۔ لیکن دیکھو میں لوٹ آیا ہوں ۔ان چھ مہینوں کی تم سے دوری نے مجھے احساس دلایا کہ تمہارے بغیر میں کتنا ادھورا ہوں ۔ ۔۔ایوا نے اس کے ہاتھ سے سرخ گلاب لیتے ہوئے اس کو گلے لگالیا ۔ ۔ وہ دنوں ساحل کنارے چلتے چلتے لہروں کے پاس پہنچے تو ایوا کہنے لگی ۔۔۔

دیکھو یہ سمندر کتنا گہرا ہے ۔ ان چھ مہینوں میں جب بھی میں نے اس کی لہروں کو دیکھا تو تمہاری یاد چیونگم بن کر میرے ذہن میں اٹک گئی میں بار بار خود سے  یہی پوچھتی رہتی تھی کہ یہ سمندر زیادہ گہراہے یا میرے مارٹن کی آنکھیں ۔۔۔۔۔

کچھ مہینوں  بعد ایک انٹرنیشنل اخبار کے  صحافی نے ایک تحقیقاتی خبر چھاپی کہ بحری پولیس کو سمندر میں حادثوں کا شکار ہونے والے امیگرنٹس کے سامان میں سے کچھ خط بھی ملے ہیں جو  پلاسٹک کے لفافوں میں بند تھے جو کبھی بھیجے نہیں گئے جو کبھی موصول نہیں ہوئے ان میں سے ایک خط کسی اے کی جانب سے اپنی ای کو تھا ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

لکھاتھا ۔۔۔ تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا تھا ۔۔۔ میری بس اتنی خواہش ہے کہ تم مجھے یاد رکھنا ۔۔۔ سنو “ای” یہ “اے ” صرف تم سے  محبت کرتا ہے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply