مُلکی میڈیا پرنشر خبروں کے مطابق گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے الزام لگایا ہے کہ سابق چیف آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کو کسی بھی قیمت پر ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہیے۔ اُن کے اس انکشاف نے مُلکی سیاست اور میڈیا میں تہلکہ مچایا ہوا ہے وہیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اُس نوٹس کے جواب میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس نے بیان حلفی پر توہین عدالت کے کیس میں اپنا تحریری جواب جمع کرکے کہا کہ ثاقب نثار سے گفتگو گلگت بلتستان میں ہوئی ،جہاں پاکستان کے قوانین لاگو نہیں ہوتے اور وہ پاکستان کی حددود سے باہر کا علاقہ ہے۔ لہذا توہین عدالت کی کارروائی واپس لی جائے ۔
تعجب کی بات ہے کہ اُنکا یہ بیان انتہائی اہم اور خطرناک ہونے کے باوجو مُلکی میڈیا پر کسی قسم کی بحث نہیں ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستا نی میڈیا کس قدر گلگت بلتستان کے معاملات کو لیکر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گلگت بلتستان سلامتی کونسل کی قراردادوں اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاست پاکستان کے قومی بیانئے کی روشنی میں متنازع اور پاکستان کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی اکائی ہے۔ دوسری طرف بھارت گلگت بلتستان کو باقاعدہ اپنا قانونی حصہ سمجھتے ہیں لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں ۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے خطے کو پاکستان سے الگ نہیں سمجھتے ۔یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں دہائیوں سے شمولیت کی تحریک چل رہی ہے۔ مقامی اسمبلی میں شمولیت کیلئے متعدد بار قرار دادیں پاس ہوچُکی ہیں لیکن ریاست کے موقف میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔دفتر خارجہ کے ترجمان کا مسلسل بیان، سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کی روشنی میں گلگت بلتستان کی تعریف ریاست جموں کشمیر کی اکائی کے طور پر ہی کی گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں پاکستان کی موجودگی کی تاریخ بھی مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر ہے۔ جو ریاست پاکستان نے مظفر آباد کی حکومت سے 28 اپریل 1949 کو کی تھی،جسے بدنام زمانہ معاہدہ کراچی کہتے ہیں ۔اُس معاہدے کا دستخط کار گلگت بلتستان کا کوئی سٹیک ہولڈر نہیں بلکہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے چوہدری غلام عباس ،سردار ابراہیم تھے جس کے تحت گلگت لداخ(آج کا گلگت بلتستان ) کے انتظامات پاکستان کو عبوری طور پر تفویض کرکے خود ریاستی نظام کو انجوائے کرتے رہے۔ حالانکہ جس سلامتی کونسل کی قرارداد کی بنیاد پر مظفر آباد کو ریاستی نظام ملا تھا، وہی حکم گلگت بلتستان کیلئے بھی تھا،لیکن بدقسمتی گلگت بلتستان کے اُس وقت کے سیاسی رہنماؤں کی لاشعوری اور اندورنی سیاسی خلفشاری کی وجہ سے دہائیوں تک پولیٹیکل ایجنٹ کے ماتحت چلاتے رہے۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر کو پاکستان کے قبائلیوں نے لشکر کشی کے ذریعے آزاد کرایا تھا جبکہ گلگت لداخ کی آزادی خود مہاراجہ کے آرمی میں موجود گلگت بلتستان سےتعلق رکھنے والے افسران کی بغاوت کی وجہ سے عمل میں آئی تھی ،اور گلگت بلتستان کی آزادی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں تسلیم شدہ ہے۔لیکن اُس آزادی کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے جو حقوق ملنا تھے اُس سے سے گلگت بلتستان آج تک محروم ہے۔
یوں رانا شمیم کا بیان ویسے تو بین الاقوامی قوانین کےعین مطابق ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کا کوئی شہری مُلکی اہم معاملات پر گلگت بلتستان میں بات کرے تو اُس بات کی کوئی حیثیت نہیں یا قابلِ سزا نہیں ۔دوسری طرف اگر گلگت بلتستان کا کوئی شہری اپنے خطے کے اندر سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کریں تو اُس کی قسمت میں فورتھ شیڈول کیوں؟ اُن کے خلاف بغاوت کا مقدمہ کس قانون کے تحت بن جاتا ہے؟۔
یہ بات بھی سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے کہ رانا شمیم نے اپنی گلگت بلتستان میں تعیناتی کے دوران گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا۔ حالانکہ اس حقیقت کو وہ جانتے تھے کہ گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت منفرد ہے جس کا اظہار بھی اُنہوں نے باقاعدہ طور پر کرلیا۔ اُن کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان سے لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ رانا شمیم گلگت بلتستان کے عوام کو بتائیں کہ جب پاکستان کا قانون گلگت بلتستان میں لاگو نہیں ہوسکتا تو گلگت بلتستان میں فورتھ شیڈول کا کالا قانون سیاسی کارکنوں ،بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف کیوں استعمال کیا جارہا ہے؟ ۔
نئی نسل سوال اُٹھا رہی ہے کہ جب گلگت بلتستان پاکستان کی حدود سے باہر کا علاقہ ہے تو اس خطے میں خالصہ زمینوں کی غلط تشریح کرکے خالصہ سرکار نام دیکر کیوں لوٹا جارہا ہے؟۔ اس تحریرکو لکھنے سے پہلے کئی اہم واٹس ایپ گروپس اور فیسبک ، ٹیوٹر پر عوامی رائے کی جانچ پڑتال کی تو زیادہ تر لوگوں کو اس طرح کے سولات اُٹھاتے ہوئے دیکھا گیا کہ گلگت بلتستان جب متنازع ہے تو اس خطے میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کس قانون کے تحت ہورہی ہے؟ حالانکہ آزاد کشمیر میں آج بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہے، گلگت بلتستان میں پنجاب کے سرمایہ دار کس قانون کے تحت اونے پونے دام پر زمینیں خرید کر لگژری ہوٹلز بنا رہے ہیں اور کس قانون کے تحت بیوروکریسی ہزاروں ایکٹر زمین پر قابض ہے، کس قانون کے تحت گلگت بلتستان میں مقامی لوکل اتھارٹی کو سبوتاژ کرکے پولیٹیکل ایجنٹ مسلط کیا اور دہائیوں سے اس خطے کو کالونیل نظام کے تحت چلایا جارہا ہے؟۔
وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ اپنی ہر تقریر میں مسئلہ کشمیر کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے کے ذریعے کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور 5 اگست 2019 کو ہندوستان کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی مذمت کرتے ہوئے اُس آرٹیکل کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن گلگت بلتستان میں دہائیوں سے یہی کام ہورہا ہے لیکن رانا شمیم نے گلگت بلتستان میں تعیناتی کے دوران کسی قسم کا نوٹس کیوں نہیں لیا۔؟ یقیناً اس قسم کے تمام سوالات سے رانا شمیم آگاہ ہونگے اور اب جواب دینا ہوگا ۔ گلگت کے کچھ سنیئر وکلاء کے مطابق خطے میں عدل اور انصاف کی بالادستی کیلئے اُنہوں نے کسی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ خود اُن کے مطابق موصوف گلگت بلتستان میں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے رہے انسانی حقوق کی پامالیوں کا نظارہ کرتے رہے۔ لیکن جب اپنے اوپر بات آئی تو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ گفتگو چونکہ ایک ایسے علاقے میں ہوئی ہے جہاں آئین پاکستان کا اطلاق نہیں ہوتا ، لہذا کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا جائے گا۔
رانا شمیم شاید بھول گئے کہ اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان کے شہری کو پھانسی کی سزا تک ہو چُکی ہے لیکن اُس وقت رانا شمیم نے لب کشائی نہیں کی۔ اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں افسر شاہی کی حکومت ہے اور المیہ یہاں تک پہنچا کہ ڈی سی سکردو کی گاڑی کی ز د میں آکر عورت ہلاک ہوگئی ،لیکن معاملے کو چپڑاسی کی نوکری دیکر دبا دیا، لیکن راناشمیم نے گلگت میں موجودگی کے باوجود کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا۔ اسی قانون کے تحت میٹرک کے طالب علم کو فورتھ شیڈول میں ڈلا گیا لیکن رانا شمیم کی آنکھ نہیں کھلی کیونکہ وہ یقینا ً مراعات کے نشے میں مست تھے ۔ اسی قانون کےتحت بابا جان افتخار کربلائی سمیت اُنکے دیگر ساتھی عوامی حقوق کی جدوجہد میں آٹھ سال پابند سلاسل رہے پھر بھی رانا شمیم کو ہوش نہیں آیا کہ اس قسم کے قانون کا اطلاق گلگت بلتستان پر نہیں ہوتا۔
ممتاز قوم پرست رہنما منظور پروانہ کی پرائیوٹ انشورنس پالیسی تک منجمد ہوچُکی ہے لیکن رانا شمیم بے خبر رہے۔اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر سے لیکر ڈپٹی کمشنر تک پنجاب سے آیا ہوا ہے لیکن رانا شمیم کے ذہن میں نہیں آیا کہ گلگت بلتستان کے تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنے خطے میں روزگار کے مواقع ملنا چاہئیں ۔ اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں نیشنل پارک کے نام عوامی چراگاہوں کو عوام کیلئے نوگوایریا بنایا جارہا ہے لیکن رانا شمیم نے گلگت بلتستان میں اپنی تعیناتی کے دوران کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا۔ اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں چائنا بارڈر کسٹم آفس بنا ہوا ہے لیکن رانا شمیم کو یقیناً یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پوچھے کہ جو آمدنی رہی ہے اس سے گلگت بلتستان کے خزانے میں کتنا فیصد منافع جمع رہا ہے۔ لہذا رانا شمیم کو اس بات کا بھی قرار کرنا ہوگا کہ اُنہوں نے گلگت بلتستان میں انصاف کی بالادستی کا جو حلف لیا تھا اُس سے بھی منحرف ہوگیا اور گلگت بلتستان میں ہونے والے ناانصافیوں ، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں میں بیوروکریسی کے ساتھ رانا شمیم بھی برابر کے مجرم ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان ، وزیر اعظم پاکستا ن اور آرمی چیف صاحب کو چاہیے کہ رانا شمیم سے پوچھیں کہ اُنہوں نے گلگت بلتستان میں انصاف کی بالادستی کیلئے کیا کیا؟ اور گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک ایسے موقع پر جب سی پیک کو سبوتاژ کرنے کیلئے عالمی طاقتوں کی نظر گلگت بلتستان پر جمی ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان بین الاقومی سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے انڈیا امریکہ کی گریٹ گیم گزشتہ کئی سالوں سے چل رہی ہے ۔ایسے میں اپنی ذات کو بچانے کیلئے گلگت بلتستان میں اہم عہدے سے فارغ ہوتے ہی خطرناک بیان یقیناً مشکوک ہے۔جس پر مقتدر اداروں کو تحقیق کرکے رانا شمیم سے جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے۔ اور گلگت بلتستان کو سلامتی کونسل کی قراردادں کے مطابق حقوق دینا، سکردو کرگل ، خپلو تورتک،استور گریز روڈ اور شونٹر ٹنل کے بحالیء وقت کا تقاضا ہے ۔جس پر ریاست کو سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ زمانہ بدل گیا ہے سوشل میڈیا کے اس تیز ترین دور میں نئی نسل کے سوالات کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں جس کو روکنے کیلئے طاقت نہیں انصاف اور احساس کی ضرورت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں