• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ماں کے مرنے کے بعد ہمدرد سوتیلی ماں کی کفالت میں آنے کی کہانی-۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

ماں کے مرنے کے بعد ہمدرد سوتیلی ماں کی کفالت میں آنے کی کہانی-۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

طاہرہ گوری جب بیورلے ہلز امریکہ میں پیدا ہوئی اس وقت اس کی برطانوی ماں شیزا گوری اور بھوٹان سے اس کے باپ ارمان خاں میں رومانوی تعلقات ختم ہو چکے تھے- اس کے باپ نے اس کی پیدائش پر بھی اسے دیکھنے اور اس کی ماں شیزا سے ملنے کے لئے امریکہ آنے سے انکار کر دیا تھا- ارمان خاں نے کئی دیگر امیر عورتوں کی طرح شیزہ کو بھی یقین دلا رکھا تھا کہ وہ اس سے شادی کر لے گا- طائرہ کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے جب ارمان خاں کو یقین ہوا کہ شیزا کی فیملی سے ملنے والی جائیداد اتنی نہیں ہے کہ اس سے وہ شہنشاہی زندگی گزار سکے تو اس نے تعلقات کے خاتمہ کو ہی ترجیح دی-

شیزا گوری برطانیہ میں یوگا کلاسز اور روحانی مشقوں کی تربیت اپنے جیسے امیر خاندانوں کی خواتین کو دیتی تھی- اس کی اسی مہارت کی وجہ سے ہی فٹنس فریک (fitness freak) ارمان خاں اس کے نزدیک آیا تھا اور دونوں میں دوستی ہوئی تھی- اس دوستی کے دوران ہی شیزا نے ارمان خاں کو دیکھ کر اپنی استعداد بڑھانے کے لئے کوکین کا استعمال شروع کر دیا تھا- کوکین اسے یوگا میں مہارت کے لئے درکار ارتکاز کی قوت میں اضافہ مہیا کرتی اور اس کی خود اعتمادی میں بےپناہ اضافہ کر دیتی- جب شیزا کو پتہ چلا کہ وہ امید سے ہے تو اس نے اپنے ہونے والے بچے یعنی طائرہ کی صحت کے لئے کوکین کا استعمال بند کر دیا تھا- برطانیہ میں رہ کر وہ اپنی ڈیلیوری کی وجہ سے کسی اسکینڈل کو جنم نہیں دینا چاہتی تھی لہذا اس نے امریکہ میں قیام پذیر ہونے کا فیصلہ کر لیا-

ارمان خاں کی طرف سے شیزا سے علیحدگی اختیار کرلینے کے بعد طائرہ کی پیدائش ہی شیزا کے لئے زندگی میں اچھی خبر تھی جس نے اسے جینے کا حوصلہ فراہم کیا- وگرنہ تو طائرہ کے اس دنیا میں آنے کے بعد شیزا گوری شدید مالی مشکلات کا بھی شکار ہوئی کیونکہ اس کے باپ مسٹر گوری کی موت کے بعد خاندان میں جائیداد کی تقسیم پر جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے تھے- ان جھگڑوں کی وجہ سے جائیداد سے ملنے والی آمدنی میں تسلسل قائم نہیں ہو پا رہا تھا- اس پریشانی کے ساتھ ساتھ شیزا کو ارمان خاں کی بےوفائی نے بھی شدید چوٹ پہنچائی تھی- ان ساری مشکلات کے بیچ جب طائرہ اپنے باپ کے بارے سوالات کرتی تو شیزا کا دل کٹ کر رہ جاتا-

ارمان خاں سے تعلقات کی بحالی کی ساری کوششوں کو اس وقت ناقابل تلافی نقصان پہنچا جب شیزا کو معلوم ہوا کہ ایک نہایت متمول برطانوی خاندان کی وارث آئمہ سنہری اور ارمان خاں کے بیچ گہری دوستی چل رہی ہے اور وہ دونوں شادی کرنے والے ہیں- آئمہ سنہری کی بڑی بہن اور خود آئمہ کے ساتھ شیزا کے دوستانہ تعلقات رہے تھے اگرچہ دونون کی عمر میں 9/10 سال کا فرق تھا-

آئمہ سنہری اور ارمان خاں کی شادی نے شیزا پر گہرا نفسیاتی اثر ڈالا اور شدید دباؤ کے زیراثر اس نے دوبارہ کوکین کا استعمال شروع کر دیا- کوکین ایک مہنگا نشہ ہے اس لئے اسے پورا کرنے کے لئے وہ ہمیشہ مالی مشکلات کا شکار رہتی- اگرچہ اس کی ماں اور بہن بھی شیزا کی مدد کرتی رہتیں مگر اس کے باوجود بھی گزر بسر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اس نے کیلیفورنیا میں بیورلے ہلز میں اپنے شاندار مکان کے نزدیک واقع یوگا اسٹوڈیو میں قدیم ورزشوں اور روحانی مشقوں کی تعلیم دینے کی جاب دوبارہ شروع کر لی تھی-

ارمان خاں اور آئمہ سنہری کی شادی کے بعد شیزا نے اپنی بیٹی طائرہ کو اس کا قانونی حق دلانے کے لئے امریکہ میں ہی قانونی جنگ شروع کر دی- اس کا کہنا تھا کہ اسے ارمان خاں سے پیسہ نہیں چاہئے تھا بلکہ وہ صرف اپنی بیٹی کو اس کے باپ کا نام دینا چاہتی تھی کیونکہ اس کا متمول خاندان شادی کے بغیر پیدا ہونے والی بچی کی پیدائش پر خوش نہیں تھا-

ایک صبر آزما قانونی جدوجہد, ڈی این اے کے معائنہ کے بعد سنہ 1997ء میں امریکی عدالت نے اس کے دعوی کو تسلیم کرتے ہوئے طائرہ کا باپ ارمان خاں کو قرار د ے دیا تھا اور طائرہ کے نام کو طائرہ خاں گوری میں لکھ لینے کی  اجازت دے دی تھی- شیزا نے اس مقدمہ کے فیصلہ کے بعد اپنی پرانی دوست آئمہ سے بھی رابطہ کیا اور اسے مقدمہ کے کاغذات بھیجے تاکہ وہ حقیقت حال جان سکے- ان کاغدات کے بعد ارمان خاں کو اپنی بیوی آئمہ کے سامنے تسلیم کرنا ہی پڑا کہ طائرہ اسی کی ہی بیٹی ہے- آئمہ نے اس موقع پر شیزا کو پیغام بھیجا کہ وہ اس کے دعوی کو تسلیم کرتی ہے- اس کے بعد دونوں میں وقتاًًً  فوقتاًًً  رابطہ بھی رہنے لگا تھا-

شیزا گوری اور آئمہ کے درمیان یہ تعلقات اس حد تک بہتر ہو گئے کہ شیزا نے آئمہ سے درخواست کی کہ وہ گوری خاندان کے بیچ جائیداد کے جھگڑے کو حل کروانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور اسے اس کا حصہ دلوائے- شیزا نے یہ بھی خواہش کی کہ اگر اسے کچھ ہو جائے تو آئمہ اپنے بیٹوں ذیشان اور عاصم کی طرح آئمہ کی بھی سرپرستی کرے- آئمہ نے شیزا کی خواہش پوری کرنے میں رضامندی ظاہر کی اور یہ آئمہ کا ہی کردار تھا کہ 2004ء میں شیزا کو اس کی موت سے صرف چند ہفتے پہلے آٹھ سال کی قانونی لڑائی کے بعد اپنے مرحوم باپ کی جائیداد سے ایک تصفیہ کے ذریعے تین ملین ڈالر کی رقم ملی۔ اس رقم کے ملنے کے بعد شیزا نے اپنی وصیت میں طائرہ کے سرپرست کے طور پر آنمہ خاں کو نامزد کیا-

یہ سنہ 2004ء کی بات ہے جب شیزا نے ایک دن کوکین کی ڈوز لینے کے بعد کسی اور نشہ آور بوٹی کا استعمال کیا- ان دونوں نشہ آور ادویات نے اس کے جسم میں شدید ردعمل کیا جس کے نتیجہ میں شیزا گوری کی موت واقع ہو گئی- اس موقع پر آئمہ نے اپنے وعدہ کا پاس رکھا اور طائرہ کی سرپرستی پر رضامندی ظاہر کی- ارمان خاں تو شیزا کی موت پر بھی امریکہ نہیں جانا چاہتا تھا مگر آئمہ کے دباؤ کی وجہ سے وہ شیزا کی آخری رسومات کے بعد ہی امریکہ گیا- بھوٹان کے میڈیا کی نظروں سے بچنے کے لئے اس نے واشنگٹن کی فلائیٹ لی اور اگلے دن چپکے سے لوکل فلائیٹ کے ذریعہ کیلی فورنیا روانہ ہو گیا- ارمان خاں کو آئمہ پر شدید غصہ تھا کہ اس نے طائرہ کی سرپرستی کرنے کا فیصلہ کیا تھا- آئمہ کا یہ فیصلہ بھوٹان کی وزارت عظمی کے لئے بڑھتے ارمان خاں کے قدموں کی بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا تھا- اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح بھی طائرہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کی خالہ اور نانی پر ڈال دی جائے مگر آئمہ یہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھی- اس نے ارمان خاں کو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر طائرہ کی ڈمہ داری سنبھالنے میں اس کی سیاست رکاوٹ ہے تو وہ بھوٹانی سیاست چھوڑ کر اس کے ساتھ برطانیہ واپس چلے- مرحومہ شیزا کے گھر والوں سے ارمان خاں کے مزاکرات کامیاب نہیں ہو سکے اور وہ اپنی بیٹی کو بھی اس بات پر قائل نہیں کر سکا کہ وہ اس کے ساتھ رپنے کی بجائے کسی بورڈنگ سکول میں رہائش اختیار کرے- اس نے بہت کوشش کی کہ طائرہ اس کی بات مان لے تاکہ اس کا سیاسی سفر کسی رکاوٹ کا شکار نہ ہو-

طائرہ اس وقت 11/12 سال کی بچی تھی جس کی تمام زندگی کا مرکز اس کی ماں تھی- باپ کی شفقت سے محروم بیٹی کے لئے ماں کی موت ایسا دلخراش سانحہ تھی کہ وہ بہت زیادہ پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہو گئی تھی اور وہ باپ کے ساتھ رہنے پر بضد تھی- ارمان خاں نے کسی طرح طائرہ کو کچھ دنوں کے لئے اپنی خالہ اور نانی کے ساتھ رہنے پر قائل کر لیا اور بھوٹان واپس چلا آیا-

بھوٹان میں اس کے لئے ایک اور مشکل سر اٹھائے کھڑی تھی- آئمہ خاں نے شیزا کی موت سے دلبرداشتہ ہو کر اس سے علیحدگی اور طلاق کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا- اس نے کوشش کی کہ کسی طرح وہ اس شادی کو ٹوٹنے سے بچا سکے مگر بھوٹان کی عوام کے شدید ردعمل کے خوف سے نہ تو وہ طائرہ گوری کو اپنی بیٹی تسلیم کر سکتا تھا اور نہ ہی وہ بھوٹان کی سیاست چھوڑ کر اپنے وزیر اعظم بننے کے خواب کی تعبیر کے مشن سے پیچھے ہٹ سکتا تھا- دوسری طرف آئمہ خاں کے الزامات تھے کہ ارمان خاں نے نہ صرف شیزا اور طائرہ کے بارے اسے لاعلم رکھا تھا بلکہ اور بھی کئی خواتین ایسی تھیں جو ارمان کی محبت اور دوستی کا دم بھرتی تھیں- ارمان خاں کا کہنا تھا کہ بھوٹان کی ایک سیاسی جماعت جان بوجھ کر آئمہ خاں کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بناتی تھی اور اس کے خلاف نوادرات کی چوری جیسے جھوٹا مقدمہ بھی قائم کر رہی تھی تاکہ آئمہ خاں خوفزدہ ہو کر ارمان خاں اور بچوں کو لے کر بھوٹان چھوڑ کر واپس برطانیہ چلی جائے- ارمان کا یہ بھی دعوی تھا کہ زیادہ تر برطانیہ رہائیش پزیر رہنے والی آئمہ اور اس کے مابین اختلافات کی وجہ اس کی سیاست اور فیملی کو وقت نہ دے سکنا تھا- ان اختلافات کی شدت بڑھتی رہی اور بالآخر اس کا نتیجہ علیحدگی اور طلاق کی صورت میں نکلا- آئمہ اپنے دونوں بیٹوں ذیشان اور عاصم کو لے کر برطانیہ مستقلا” واپس جا چکی تھی اور ارمان خاں کو بھوٹان اور اس کی سیاست میں جتے رہنے کے لئے چھوڑ چکی تھی-

طلاق کے دو, تین مہینوں بعد زندگی نارمل ہونے کی طرف رواں دواں تھی کہ ایک دن مرحومہ شیزا گوری کے وکیل کی ٹیلی فون کال بھوٹان میں ارمان خاں اور برطانیہ میں آئمہ خاں کو موصول ہوئیں جس میں کہا گیا کہ ٹین ایجز میں قدم رکھتی ہوئی طائرہ خاں گوری پچھلے دو, تین دنوں سے پرسرار طور پر لاپتہ ہے- اس خبر کے سنتے ہی آئمہ خاں کے اوسان خطا ہو گئے اور اس نے فورا” برطانیہ سے امریکہ جا کر بچی کو ڈونڈھنے کا فیصلہ کیا- ارمان خاں نے آئمہ سے درخواست کی کہ اس معاملہ کو خفیہ رکھا جائے کیونکہ وہ اس طرح کا اسکینڈل کسی بھی حالت میں افورڈ نہیں کر سکتا تھا- اس نے بچی کی تلاش کے لئے امریکہ جانے سے بھی معذرت کر لی کیونکہ اسے مقتدر طاقتوں کے ایک حلقہ کی طرف سے مسلسل یقین دہانی کروائی جا رہی تھی کہ اسے بہت جلد بھوٹان کا وزیر اعظم بنوایا جائے گا- یہ وہ خواب تھا جس کی تعبیر کے لئے ارمان خاں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار تھا- اپنی ازدواجی زندگی کی قربانی وہ پہلے ہی دے چکا تھا اور اگر وہ طائرہ خاں گوری کی کمشدگی اور تلاش میں میڈیا کے سامنے آ جاتا تو اس کی ساری قربانیاں رائیگاں جاتیں اور وہ کبھی بھوٹان کا وزیر اعظم نہ بن پاتا- اس موقع پر آئمہ نے فیصلہ کیا کہ وہ مرحومہ شیزا سے کئے اپنے وعدہ کو بہر صورت نبھائے گی مگر وہ اپنے سابق شوہر کو بھی اس معاملہ سے دور رکھے گی- آئمہ جب امریکہ پہنچی تو اسے پتہ چلا کہ طائرہ بضد تھی کہ وہ بھوٹان میں اپنے باپ ارمان خاں کے ساتھ رہے گی اور تین دن پہلے جب وہ سکول گئی تو واپسی پر وہ گھر پہنچنے کی بجائے لاپتہ ہو چکی تھی- اس کا پاسپورٹ بھی غائب تھا مگر کسی بھی امریکی ائیرپورٹ سے اس کی بیرون ملک روانگی کا ریکارڈ میسر نہیں تھا- آئمہ کو خدشہ تھا کہ کہیں بھوٹان جا کر باپ سے ملنے کے چکر میں کسی جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھ نہ لگ چکی ہو- آئمہ سنہری نے پرائیویٹ جاسوسوں کے بڑے گروپ کے ساتھ مل کر طائرہ خاں گوری کی تلاش شروع کر دی-

طائرہ خاں گوری اس وقت بھی ائیر پورٹ جانے والی مرکزی سڑک کنارے بنے جنگل کے راستہ پر چلی جا رہی تھی اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ مکمل اندھیرا چھانے تک چلتی رہے گی- وہ مرکزی شاہراہ کی بجائے ساتھ چلنے والے جنگل میں تھوڑا ہٹ کر دن کی روشنی میں پچھلے 3 دنوں سے سفر کر رہی تھی- اب تک اس نے 80 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا جبکہ ابھی بھی 18 سے 20 کلومیٹر باقی تھے جسے وہ اگلے دن عبور کرنے کا ارادہ رکھتی تھی- اس کے پاس رات گزارنے کے لئے سلیپنگ بیگ تھا جسے وہ مرکزی شاہراہ کے ساتھ ہر 20/22 کلومیٹر کے فاصلوں پر بنے ریسٹ ایریاز میں سیمنٹ کے پلیٹ فارمز پر بچھا کر سو جاتی تھی- یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ پچھلی 2 راتوں سے کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا تھا اور نہ شاہراہ کے ساتھ چلتے کسی فارسٹ گارڈ نے اسے دیکھا تھا- وہ بہت اپ سیٹ تھی, اور اسے غصہ بھی آیا ہوا تھا- اس کے امنڈتے ہوئے جذبات اس کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے کہ وہ آخری 20/22 کلومیٹر کا پڑاؤ شاہراہ کے ساتھ ساتھ بنے جنگل میں سفر کرتے عبور کرے اور ائیر پورٹ کی عقبی سمت میں بنی وسیع چراگاہ سے گزرتے ہوئے رن وے میں داخل ہونے کا راستہ ڈونڈھ دے- اس کا ارادہ تھا کہ وہ رازداری سے رن وے میں داخل ہوگی اور بھوٹان جانے والی فلائیٹ میں سامان رکھنے والے حصہ میں داخل ہو جائے گی- اس نے یہ طریقہ ایک ایکشن فلم سے متاثر ہو کر سوچا تھا جو وہ اپنی دوست کے ساتھ دیکھ کر آئی تھی-

اس دن صبح سے چلتے چلتے وہ تھک چکی تھی, اندھیرا بھی ہو چکا تھا اور ابھی بھی اسے دو کلومیٹر مزید چلنا تھا تاکہ وہ رات گزارنے کے لئے مرکزی شاہراہ کنارے بنے ریسٹ ہاؤس شیلٹرز میں صبح تک پناہ لے سکے- مگر لگتا یوں تھا کہ سفر بہت لمبا ہو گیا تھا اور اندھیرا بہت تیزی سے چھاتا چلا جا رہا تھا- یکایک اسے سڑک کے دوسری طرف ایک گودام نظر آیا جہاں شاید مویشیوں کے لئے چارہ سٹور کیا جاتا تھا مگر ابھی بھی وہاں چارہ کی کچھ گانٹھیں بچی ہوئی نظر آ رہی تھیں- طائرہ نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک عبور کرکے اس گودام میں جائے گی اور اس کے دروازہ کو بند کرکے اس چارہ کی گانٹھوں کے اوپر اپنے سلیپنگ بیگ میں سو جائے گی- یہ سوچتے ہی اس نے تیزی سے قدم بھرے اور اچھی طرح تسلی کر کے اس گودام میں داخل ہو گئی-

سارے مویشی اس گودام سے واپس اپنے فارم جا چکے تھے جو سڑک سے ذرا دور جنگل کے اندر واقع ایک گاؤں میں بنا ہوا تھا- طائرہ کو ہمیشہ سے ان مویشیوں پر بہت رحم آتا تھا جنہیں انسان ان کی زندگی میں اپنی سہولتوں کے لئے استعمال کرتا تھا اور جب وہ سہولتیں دینے میں مفید نہ رہ جائیں تو اپنے پکوانوں کے مزہ کے لئے بےدریغ ذبح کر لیتا تھا- طائرہ کے لئے موت سے نبرد آزما ہونے سے زیادہ مشکل کچھ نہیں تھا جبکہ اس کے باپ ارمان خاں کی بھوٹان میں ہمدردیاں بھی بےگناہوں کو قتل کرنے والوں کے گروہ ظالمان سے تھیں اور وہ ان پر کریک ڈاؤن کرنے کی بجائے انہیں سہولتیں مہیا کرنے کے مطالبات کرتا رہتا تھا- طائرہ کو یہ سخت گلہ تھا کہ اس کا باپ صرف نعرہ بازی کی حد تک ہی کیوں انقلابی تھا کیونکہ وہ اگر اصلی انقلابی ہوتا تو اپنے ملک بھوٹان کی تقدیر ہی بدل دیتا- یہی کچھ سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ شدید تھکاوٹ کی وجہ سے نیند کی وادیوں میں گم ہو گئی-

آئمہ سنہری نے پرائیویٹ جاسوسوں کی جس بڑی ٹیم کو طائرہ کی تلاش پر مامور کیا تھا ان کے مختلف گروپ پورے شہر میں بچی کو تلاش کر رہے تھے- طائرہ کو اس کے دوستوں کے یہاں تلاش کیا گیا, اس کے سکول کو چھانا گیا, ریلوے اسٹیشن اور ائیرپورٹ پر بھی اسے ڈونڈھا جا رہا تھا- انہی تلاش کرنے والوں میں سے ایک جیمز کی بیٹی ساندرا بھی اسی کلاس میں پڑھتی تھی جس کی طائرہ طالب علم تھی- اس کی کلاس اور اس کے ٹیچرز بھی اس کی گمشدگی سے بہت پریشان تھے- ساندرہ نے اپنے باپ کو اس دن بتایا کہ کچھ دن پہلے طائرہ ائیر پورٹ جانے والی سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے جنگل اور ائیر پورٹ کی عقبی سمت واقع رن وے میں داخلہ کے بارے معلومات لیتی رہی تھی- جمیز یہ بات سن کر اچھل پڑا اور اس نے فورا” ہی آئمہ خاں کو ٹیلی فون کرکے اسے ائیر پورٹ پر ملنے کے لئے کہا- آئمہ نے مقامی پولیس شیرف کو اپنے ہمراہ لیا اور ائیر پورٹ پہنچی- جہاں جیمز نے اسے ساری معلومات دے کر تجویز دی کہ وہ مختلف ٹیمیں بنا کر سڑک کے ساتھ ساتھ ائیر پورٹ کے عقبی طرف سے جنگل میں طائرہ کی تلاش کریں- فورا” ہی اس پر عمل شروع کر دیا گیا اور مختلف ٹیمیں طائرہ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں-

آئمہ سنہری بذات خود جیمز کے ساتھ ایک ٹیم میں شامل تھی اور انہوں نے ائیر پورٹ سے واپسی کی سمت آنے والے رخ سے گاڑی میں سڑک کنارے آہستہ آہستہ سفر شروع کیا- وہ تیز سرچ لائٹوں سے جنگل کی طرف دیکھتے جا رہے تھے- انہیں ائیر پورٹ سے نکلے 20/22 کلومیٹر ہو چکے تھے کہ جیمز نے سڑک سے نزدیک بنے اس گودام کو دیکھا جسے پہلے طائرہ نے سڑک کی دوسری طرف سے دیکھ کر پناہ حاصل کی ہوئی تھی- انتہائی سست روی سے اس 20/22 کلومیٹر کے فاصلہ کو طے کرتے ہوئے بھی انہیں 5/6 گھنٹے لگ چکے تھے- انہوں نے گودام کو اندر سے دیکھنے کا فیصلہ کیا اور گاڑی جنگل کے اندر موڑ لی-

گہری نیند میں سوئی ہوئی طائرہ کو رات کی ٹھنڈک نے بےچین کیا اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی- اسے محسوس ہوا کہ گودام میں کچھ غیر مانوس سی بدبو ہے- شاید یہ اس چارہ کی بدبو تھی جو پرانا ہونے کی وجہ سے گل سڑ رہا تھا یا یہ مویشیوں کے گوبر سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکے تھے- اسے اپنے پاؤں کی طرف کسی کے نرم لمس کا احساس ہوا تو اس نے چیخ کر پاؤں کھینچ لئے مگر جلد ہی وہ مسکرا دی جب اس نے بلی کے ایک چھوٹے سے بچے کی میاؤں سنی- اس نے اپنی ٹارچ روشن کی اور لپک کر اسے اٹھا لیا- اسے محسوس ہوا کہ بلی کا بچہ شاید بھوکا تھا اس لئے وہ زبان نکال کر اسے چاٹ رہا تھا- طائرہ نے اپنے بیگ سے آخری برگر باہر نکالا اور اس میں سے گوشت نکال کر اسے کھانے کو دیا جبکہ خود وہ اس کا بن کھاتی رہی- اس نے بلی کے بچہ سے باتیں کرنا شروع کر دیں اور کہا کہ لگتا ہے تمہاری بھی ماں مر گئی ہے اور تم بھی اپنے باپ کی تلاش میں گھوم رہی ہو- یہ باتیں کرتے کرتے وہ پھر سو گئی جبکہ بلی کا بچہ بھی سردی سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ چپک کر سو گیا-

نیند کا دباؤ کچھ کم ہوا تو ٹھنڈک کی وجہ سے طائرہ کی آنکھ پھر کھل گئی- بلی کا بچہ اس کے پاس نہیں تھا بلکہ کچھ دور بیٹھا شاید اس کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا- طائرہ نے ٹارچ جلائی اور بلی کے بچے کو کہا کہ ابھی تو کافی رات ہے, اس وقت تو سفر نہیں کر سکتی مگر ٹھنڈ کی وجہ سے نیند بھی نہیں آ رہی- اس نے بلی کے بچے کے ساتھ ماں کے مرنے اور باپ کی شفقت سے محرومی کی باتیں شروع کر دیں- بلی کا بچہ اسے دیکھے جا رہا تھا اور وہ مسلسل اپنی باتیں کئے جا رہی تھی- اس نے بلی کے بچہ سے پوچھا کہ یہاں تو کوئی دوسری بلی بھی نظر نہیں آ رہی- “میں تمہارے لئے کیا کر سکوں گی کیونکہ صبح سویرے تو مجھے ائیر پورٹ جانا ہے جہاں سے میں بھوٹان اپنے ڈیڈی کے پاس چلی جاؤں گی- میرے ڈیڈ بہت مشہور آدمی ہیں اور وہ مجھے اپنے بڑے سے گھر میں اپنے ساتھ رہنے دیں گے- میں ان سے اپنی ماں کے بارے بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہوں”-

طائرہ کو ٹھنڈک کے ساتھ بھوک بھی لگ رہی تھی مگر اب اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی باقی نہیں تھا- اس کے پاس کچھ رقم تو تھی مگر اس کا خیال تھا کہ اس رقم کی مدد سے وہ رن وے میں داخل ہونے سے پہلے بھوٹان کی 21 گھنٹے لمبی فلائیٹ کے دوران اپنے لئے کھانے پینے کی کچھ چیزیں خریدے گی- ویسے بھی جنگل میں موٹر وے کے ساتھ اسے کھانے کے لئے کیا مل سکتا تھا- اا کی دوست ساندرہ نے اسے بتایا تھا کہ رن وے کے پچھلی طرف کچھ چھوٹے شاپنگ مال تھے جہاں سے اسے کھانے پینے کی چیزیں مل سکتی تھیں- ساندرہ کو اس کے بھوٹان جانے کے بارے کچھ معلوم نہیں تھا اور نہ ہی اس کی نانی اور خالہ اس کے اس ایڈونچر کے بارے جانتی تھیں-

ابھی وہ بلی کے بچہ کے ساتھ یہی باتیں کر رہی تھی کہ گودام کے باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی- اس گاڑی سے کچھ لوگ نیچے اترے اور ان کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں- طائرہ یہ آوازیں سن کر کچھ خوفزدہ ہو گئی کہ کہیں اس کی نانی اور خالہ اسے تلاش نہ کر رہی ہوں مگر اس نے کچھ سوچ کر یہ خیال اپنے ذہن سے جھٹک دیا- اسی اثناء میں گودام کا دروازہ دھکیل کر کھول دیا گیا اور تیز سرچ لائٹوں نے سارا گودام روشن کر دیا- اس قدر روشنی میں طائرہ بھی بھوسہ کے ڈھیر پر سب کے سامنے نظر آ رہی تھی- طائرہ نے اس روشنی میں اپنی دوست ساندرہ کے باپ مسٹر جیمز کو دیکھا جس کے پیچھے ایک خوبصورت خاتون چلی آ رہی تھی- اس خاتون نے جب طائرہ کو دیکھا تو یک دم بھاگی آئی اور اسے اپنے گلے سے بھینچتے ہوئے کہنے لگی, “او, طائرہ شکر ہے تم مل گئی ورنہ میں تمہاری مرحومہ ماں کے سامنے ہمیشہ شرمندہ رہتی”- طائرہ نے حیرانگی سے پوچھا کہ آپ کون ہیں تو اس خاتون نے جواب دیا, ” تمہاری نئی ماں اور تمہاری مرحومہ ماں کی دوست آئمہ سنہری”-

طائرہ کو یاد آیا کہ اس کی مرحومہ ماں شیزا اسے کہتی رہتی تھی کہ اگر اسے کچھ ہو جائے تو اس کی دوست آئمہ خاں سنہری ہی وہ واحد ہستی ہے جو طائرہ کا خیال رکھے گی اور طائرہ کو اس کے باپ ارمان خاں سے ملوانے کا بندوبست کرے گی- ماں کی یہ بات یاد آتے ہی اس نے طائرہ کے گلہ میں بانہیں ڈال دیں اور روتے ہوئے کہنے لگی, “میں بہت اکیلی رہ گئی ہوں ماما- مجھے اپنی کفالت میں لے لیجئیے”-

Advertisements
julia rana solicitors

بلی کا بچہ طائرہ کو ان لوگوں کے ساتھ جاتے دیکھ رہا تھا- اسے شاید یہ سمجھ آ گئی تھی کہ ایک ہمدرد بچی کو بالآخر اس کا ٹھکانہ مل ہی گیا- اسے امید تھی کہ وہ بھی اپنے لئے کوئی ٹھکانہ ڈونڈھ لے گا-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply