ایک گمنام ہیرو – جب ہم بال بال بچے – وہارا امباکر

امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والی جنگ کا نازک ترین مرحلہ کیوبا میزائیل کا بحران جاری ہے۔ 27 اکتوبر 1962 کو شام ساڑھے پانچ بجے کا وقت۔ بحرِ اوقیانوس کے پانیوں میں امریکی بحریہ نے پانی کے نیچے محسوس کیا ہے کہ کوئی آبدوز موجود ہے۔ اس پر پانچ گرینیڈ فائر کئے گئے تا کہ یہ سطح پر آ کر اپنی شناخت کروا دے۔ غیرمہلک ہتھیاروں سے اس طرح کا حملہ ڈپتھ چارج کہلاتا ہے۔

یہ آبدوز بی-59 ہے جو نیوکلئیر ہتھیاروں سے مسلح ہے اور ریڈ الرٹ پر ہے۔ امریکی بحریہ سے بچنے کے لئے یہ اتنے گہرے پانی میں ہے کہ اس کو اپنی بحری کمانڈ سے سگنل موصول نہیں ہو رہے۔ اس نے جواب کا فیصلہ خود ہی کرنا ہے۔
اس آبدوز کی بیٹری کم ہو چکی ہے اور ائیر کنڈیشننگ کے نظام نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ شدید گرمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑھا ہوا لیول معقول سوچ کے لئے سازگار نہیں۔
اس کے کپتان ساوٹسکی کو عالمی صورتحال کی نزاکت کا اندازہ ہے۔ یہ ہتھیاروں سے اسی لئے لیس ہے۔ سطح پر جانے کا مطلب یہ کہ گویا ہتھیار پھینک دئے گئے۔ یہ عالمی پانیوں میں ہے جہاں پر ڈپتھ چارج نہیں کیا جاتا۔ کپتان نے یہ گرینیڈ اپنی طرف آتے دیکھ کر فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کے خیال میں وہ وقت آ گیا ہے جس کے لئے ان کو یہاں بھیجا گیا تھا۔ جنگ چھڑ چکی ہے۔ اپنی ہدایات کے مطابق ان کو نیوکلئیر ہتھیار لانچ کر دینے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں۔ “ہاں، ہم مرنے لگے ہیں، لیکن ہم بھی کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے”۔
باقی تمام آبدوزوں پر ہتھیار لانچ کرنے کا اصول یہ ہے کہ اس خاص ہتھیار کے استعمال سے قبل کپتان کو آبدوز پر موجود پولیٹیکل آفیسر سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ لیکن اس آبدوز میں فلوٹیلا کمانڈر کپیٹن وسیلی آرخیپوف بھی ہیں۔ یہ عہدے میں کپتان کے برابر ہیں لیکن اس آبدوز پر سیکنڈ اِن کمانڈ ہیں۔ صرف اس آبدوز پر اس بڑے فیصلے کے لئے تین لوگوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔
پولیٹیکل آفیسر نے کیپٹن کو اجازت دے دی۔ آرخیپوف ایک سال قبل کے-19 آبدوز کے نیوکلئیر حادثے میں موجود تھے۔ اس میں ان کے کئی ساتھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یہ خود بھی تابکاری سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ نیوکلئیر ہتھیاروں کے خطرات کو دیکھ چکے ہیں اور اس سے لڑ چکے ہیں۔
آرخیپوف نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ان تینوں میں ہونے والی تند و تیز اور جارحانہ بحث کے بعد بھی آرخیپوف اپنے فیصلے پر مصر ہیں۔ جہاز کے کپتان اور پولیٹیکل آفیسر دونوں مل کر بھی انہیں رائے بدلنے پر آمادہ نہیں کر سکے۔ کیپٹن ساوٹسکی نے بالآخر نیوکلئیر ہتھیار لانچ کرنے کا فیصلہ ترک کر دیا اور سطح پر ابھر کر ماسکو سے احکامات لینے کا فیصلہ کر لیا۔
کیوبا کے میزائیل کے بحران کے وقت امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کی طرف تین سو سے زائد نیوکلئیر ہتھیاروں کا رخ کئے ریڈ الرٹ کھڑے تھے۔ ان میں سے چالیس فضائیہ کے پاس تھے۔ اگر یہ فائر کر دیا جاتا تو یہ نیوکلئیر جنگ کا آغاز ہوتا اور خیال ہے کہ اگر یہ نیوکلئیر جنگ شروع ہو جاتی تو اس کا مطلب پوری دنیا میں بڑی تعداد میں آبادی کا خاتمہ تھا۔
یہ آبدوز واپس سوویت یونین کی طرف چلی گئی۔ آرخیپوف کی موت نیوی سے ریٹائرمنٹ کے بعد کے-19 کے حادثے میں تابکاری کا شکار ہونے کی وجہ سے ہونے والے گردوں کے کینسر سے ہوئی۔
اس بحران کے چالیس سال بعد 2002 میں امریکہ اور سوویت یونین کی طرف سے اس واقعے کی پوری تفصیلات کو ڈی کلاسیفائی کیا گیا۔ آرخیپوف کو اپنی ضد پر اڑے رہ کر دنیا کو بچانے کے اعتراف میں ان کی موت کے بعد فیوچر آف لائف ایوارڈ سے نوازا گیا۔ امریکہ اور سوویت یونین دونوں کی وزارتِ دفاع کی طرف سے اعتراف کیا گیا کہ یہ نہ صرف سرد جنگ کا بلکہ آج تک پوری انسانیت کا سب سے نازک مرحلہ تھا۔
اس واقعے نے نیوکلئیر ہتھیاروں پر کنٹرول کے بارے میں عالمی طاقتوں کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا۔ مواصلات کی ٹیکنالوجی کی طرف پر زیادہ توجہ دینے میں اضافہ ہوا۔ کریملن اور وائٹ ہاؤس کے درمیان براہِ راست رابطے کے لئے ریڈ ٹیلی فون نصب ہوا (جو کہ ٹیلی فون نہیں تھا)۔ نیوکلئیر آرمز کنٹرول پر سائنسی بنیادوں پر کام شروع ہوا۔
نیوکلئیر ہتھیاروں کے غلطی سے استعمال کا یہ سب سے خطرناک واقعہ ہے لیکن واحد نہیں۔ غلط فہمی کے باعث نیوکلئیر ہتھیاروں کا استعمال کئی اور بار بھی ہو سکتا تھا۔ اس کی اپنی پوری فہرست نیچے کے لنک میں۔
ساتھ لگی تصویر وسیلی آرخیپوف کی اور اس بی-59 آبدوز کی جس پر یہ واقعہ ہوا۔
امریکی بحریہ کی ایکٹیویٹی کی تفصیلات سیکورٹی آرکائیو سے یہاں سے۔ اس میں 27 اکتوبر 1962 کے اس واقعے کا ذکر ہے
https://nsarchive2.gwu.edu//NSAEBB/NSAEBB75/subchron.htm
دوسرے واقعات جب ہم نیوکلئیر ہتھیاروں سے بال بال بچے
https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_nuclear_close_calls
تیرہ روز تک جاری رہنے والے اس بحران کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Cub

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ https://justju.pk

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply