• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سائنس اور روحانیت کیوں کبھی بھی مل نہیں سکیں گے؟۔۔۔۔نذر محمد چوہان

سائنس اور روحانیت کیوں کبھی بھی مل نہیں سکیں گے؟۔۔۔۔نذر محمد چوہان

میں ابھی ایک امریکی فاسٹ فوڈ کی چین Taco Bell پر ناشتہ کر رہا ہوں ۔ ان کے ہاں گو کہ  Tex-Mex کھانے ہوتے ہیں لیکن ان کا quesadilla ہماری پتلی چپاتی سے ملتا جلتا ہے ۔ مجھے وہ قیمہ کے نان کی طرح چپاتی کا نان لگتا ہے ۔ آج جب میں لے رہا تھا تو میں نے کاؤنٹر والی کو کہا کہ ہماری چپاتی  بالکل اسی طرح کی ہے ، اس نے کہا کہاں سے ہو ؟جب میں نے بتایا پاکستان سے ہوں اس نے کہا   اوہ ہو ، وہاں تو لوگ بم کھاتے ہیں اور ساتھ ہی مسکرائی  اور کہا just kidding، اپنا ناشتہ enjoy کرو ۔
ہمیں آج سائینس اور چند لوگوں کے کنٹرول کی خواہش یہاں لے آئی  ۔ سوائے بربادی ، ذلالت اور قتل و غارت کے کچھ نہیں ملا ۔ ٹرمپ نے روس سے نیوکلیر معاہدہ توڑ دیا اور کھلے عام کہا آؤ مل کر ۷ ارب کی آبادی کو ختم کرنے کے لیے مزید اسلحہ بناتے ہیں ۔ کل مین ہیٹن میں ایک آدمی کہہ رہا تھا کہ  سائینس نے یہ جو آواز آ رہی ہے اس کو ثابت کیا ، میں اسے کہہ رہا تھا یہی موسیقی اگر میں نیوجرسی میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوں تو کیا ہو گی کیسے ثابت ہو گی ؟کہتا یہ آپ لائیو ادھر سُن سکتے ہیں ۔ میں بہت ہنسا اور کہا کہ فرض کریں میں نہیں سنتا، تو میرے لیے تو یہ موسیقی مین ہیٹن کے اس ریسٹورنٹ میں بج ہی نہیں رہی یا آواز سے میں لا علم ہوں ۔ یہ ہے المیہ لیبارٹری والی سائینس کا جو اگر کوئی  دیکھ رہا ہے یا dissect ہو سکتی ہے تو ہے وگرنہ سرے سے وجود ہی نہیں ۔ خدا بھی اسی زمرے میں سائنس میں کہیں بھی ، کبھی بھی فٹ نہیں ہو سکا ۔ اسٹیفن ہاکنگ بھی گویڑ مارتا مارتا چل بسا ۔ کیونکہ پہلے خدا تھا پھر بعد میں سب کچھ ۔ سائینس روحانیت کو اکثر معاملات میں complement تو کر سکتی ہے کنٹرول نہیں ۔
یہ سارا معاملہ پھنستا کہاں ہے ؟ سائینس کہتی ہے کہ  matter نے mind کو create کیا اور ہم روحانی لوگ کہتے ہیں mind یا consciousness نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ۔ matter تو اس شعور کے تابع ہے جو لافانی ہے ۔ لوگوں نے ساز بجا کر آگ برپا کر دی ، بارشیں لے آئے ، ہواؤں کے رخ موڑ دیے ۔ matter تو خود مرہون منت ہے اس کائنات کی consciousness کا کہ  کہاں لُڑکنا ہے ، کہاں جانا ہے اور ٹھکانا بنانا ہے ۔ صدیاں بیت گئیں اس بحث کو ، کنٹرول والے اور طاقت والے جیت گئے ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ بادشاہ نے کہا باہر دھوپ ہے تو سب نے لبیک کہا اور آج ہم سارے غلام کیا ایک گھٹیا کردار کے مالک بن گئے ۔ ہمیں پیسہ چاہیے ، عہدہ ، طاقت اور بدمعاشی ۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اشرف المخلوقات ہی رہے گا ۔ صرف اور صرف انسان ہی وہ خدائی consciousness کیری کر رہا ہے جو اور مخلوقات نہیں ۔ وہ ساری مخلوقات interconnected تو ضرور ہیں اس consciousness کے ساتھ لیکن وہ اختیارات یا طاقت نہیں جو انسانوں کو ہے ۔
میں کل رات سوچ رہا تھا کہ  یورپ کی تہذیب تو بالکل تباہ و برباد ہو گئی  ہے ، اٹھنے یا revival کے کوئی  چانسسز نہیں ، روسی نسل evolve ہو رہی ہے ، ہو سکتا ہے امریکہ سے ہی روحانی انقلاب آئے ۔ امریکہ کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے جو انسان کو بحیثیت انسان سب ہر فوقیت دے سکتا ہے ۔ آزادی رائے ، خوبصورت کرشماتی دھرتی اور لاکھوں روحانی ہستیاں ۔ امریکہ ابھی بھی mind over matter کو بہترین طریقے سے ثابت کر رہا ہے ۔ ہم سب واپس اپنی roots پر جا رہے ہیں جانا پڑے گا ۔ بہت کھے کھا لی ان ناسوروں کے پیچھے لگ کر ۔ واپس اسی جگہ جہاں سے آدم اور حوا چلے تھے جانا پڑے گا ، ایک نئی  صبح ۔ وہی ہمارا اصل مقام ہے ۔ باقی تو سب فریب ، دھوکہ ، مادہ پرستی اور مفت کی زلالت ہے ۔
پاکستان میں بھی بہت تیزی سے چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں اور اس ساری تبدیلی کے لیے حالت بہت سازگار ہیں ۔ نوجوان نسل سے مجھے بہت امید ہے خاص طور پر جو سی ایس ایس نہ کر سکے ۔ لگتا ہے اب نہ فوج کا کنٹرول مزید بڑھ سکے گا اور نہ سیاستدان کا ۔ اب ہم دونوں کو زمینی حقائق کے مطابق چلنا پڑے گا ۔ غریب کے منہ سے آخری نوالا بھی چھین لیا گیا ہے اب وہ بلکل دیوار کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔ حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں یہ تو شاید بتانا مشکل ہو ، لیکن اب اس بہاؤ کے آگے کوئی بند باندھنا بہت مشکل ہو گا ۔ سیاستدانوں اور فوج کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہیں آبادیاں چاہیے یا سرحدیں ۔ سرحدیں تو وہ imaginary lines ہیں جن کا تذکرہ کل میں نے این رو کے الفاظ میں کیا تھا برطانیہ اور فرانس کے درمیان چینل ، جن کے پانی تو کسی بھی سرحد کا عندیہ نہیں دیتے ۔ جنرل ضیاء نے ایک دفعہ سیاچن لڑائی پر ایک مغربی جرنلسٹ کے سوال کے جواب میں کہا تھا “جی ہم اس برف کے لیے لڑ رہے ہیں جو کھائی بھی نہیں جا سکتی “۔ یہ تو ہے سرحدوں کا معاملہ ، جان ہے تو جہاں ہے ۔
آئیے روحانی زندگیوں کی طرف لوٹتے ہیں جو اصل زندگی ہے ، نہایت ہی پُرلطف ۔ جس کا رقص اور موسیقی سجانے آسمانوں سے پریاں اترتی ہیں ۔ دس دن بعد فُل مُون ہو گا ، بہت دلکش منظر ، جو بھی خواہش دل میں رکھیں گے پوری ہو گی ۔ اپنی زندگیاں آسان کریں ۔ مقابلہ سے باہر نکل جاہیں ، زندگیوں کو سکون میں لے آئیں ۔ اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply