بدن (103) ۔ الزائمر/وہاراامباکر

نومبر 1901 کو جرمنی میں ایک خاتون ڈاکٹر کے پاس گئیں۔ ان کی شکایت بھول جانے کی تھی۔ “مجھے لگتا ہے کہ روز بروز میری شخصیت ختم ہو رہی ہے۔ جیسے ریت گھڑی سے ریت ٹپک رہی ہو۔ میں بھی ویسے ہی خود کو کھوتی جا رہی ہوں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کے ڈاکٹر الوئیس الزائمر تھے۔ خاتون ان کے پاس آتی رہیں۔ اگلے ہفتوں میں ان کی حالت زیادہ خراب ہوتی رہی۔ کسی بھی ترکیب نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔
اگلے سال الزائمر میونخ چلے گئے لیکن مریضہ کے ساتھ رابطہ رہا۔ جب مریضہ کا انتقال 1906 میں ہوا تو انہوں نے ان کے دماغ کا پوسٹ مارٹم کیا۔ بدقسمت خاتون کے دماغ میں تباہ ہوئے خلیوں کے گچھے تھے۔ انہوں نے اپنی اس دریافت کو ایک لیکچر اور پھر پیپر میں رپورٹ کر دیا۔ اور اس طرح ان کا نام اس بیماری کے ساتھ مستقل طور پر منسلک ہو گیا۔ ان کے ایک ساتھی نے 1910 میں پہلی بار اس کو Alzheimer’s disease کا نام دیا تھا۔
یہ مریضہ آگسٹے ڈیٹر تھیں۔ اور ان کے یہ ٹشو محفوظ رہ گئے اور انہیں دوبارہ جدید تکنیک سے سٹڈی کیا گیا۔ ڈیٹر کو ایک جینیاتی مسئلہ تھا اور غالباً انہیں الزائمر بیماری نہیں تھی بلکہ metachromatic leukodystrophy کا شکار تھیں۔ الزائمر خود بہت عرصہ زندہ نہیں رہے اور اپنی اس دریافت کی اہمیت کا انہیں پتا نہیں لگ سکا۔ اکاون سال کی عمر میں ان کا انتقال 1915 میں ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم جانتے ہیں کہ الزائمر کا آغاز beta-amyloid نامی پروٹین کے ٹکڑوں کے جمع ہو جانے سے ہوتا ہے۔ کسی کو ٹھیک سے پتا نہیں کہ ایمیلوائیڈ جب ٹھیک کام کر رہے ہوں تو ان کا مقصد کیا ہوتا ہے لیکن خیال ہے کہ ان کا تعلق یادداشت بننے سے ہوتا ہے۔ عام طور پر، جب ان کا کام ختم ہو جائے تو انہیں صاف کر دیا جاتا ہے۔ الزائمر کے مریضوں میں یہ صفائی ٹھیک سے نہیں ہو پاتی اور ان کے گھچوں کی تہہ بن جاتی ہے۔ یہ دماغ کے فنکشن کو متاثر کرتی ہے۔
بیماری میں آگے چل کر، مریض میں ایک tau پروٹین کے لچھے بھی جمع ہو جاتے ہیں۔ انہیں tau tangle کہا جاتا ہے۔ ٹاو اور ایمیلوائیڈ کا تعلق کیا ہے اور ان کا الزائمر سے کیسے تعلق بنتا ہے؟ اس سب کا ہمیں ٹھیک علم نہیں لیکن ان سے مریض کو مسلسل ہونے والا یادداشت کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
پہلے قریب کی یادداشت ختم ہوتی ہے اور پھر باقی سب۔ اس سے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے، پھر غصہ، پھر جسمانی فنکشن پر کنٹرول ختم ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ نگلنے اور سانس لینے پر بھی۔ مریض کی ذہنی موت کے بعد یہ جسمانی موت کا مرحلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب ہم ایک صدی سے جانتے ہیں لیکن اس سے آگے کنفیوژن ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایمیلوائیڈ اور ٹاو کی تہہ کے بغیر بھی بھولنے کا مسئلہ ہو سکتا ہے جبکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایمیلوائیڈ اور ٹاو کی تہہ موجود ہو اور بھولنے کا مسئلہ نہ ہو۔ ایک تحقیق سے پتا لگتا ہے کہ تیس فیصد بوڑھے لوگوں میں یہ تہہ موجود ہوتی ہے لیکن مسئلہ نہیں ہوتا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بننے والے تہہ اور گچھے اس بیماری کی وجہ نہ ہوں بلکہ صرف اس کے “دستخط” ہوں۔ یعنی بیماری کا اپنے پیچھے چھوڑا گیا کچرا ہوں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کیا یہ پروٹین مریض میں بنتے زیادہ ہیں یا پھر ٹھیک سے صاف نہیں ہوتے۔ اتفاق نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ محققین کے دو کیمپ ہیں۔ ایک بِیٹا ایمیلوائیڈ کو موردِالزام ٹھہرایا ہے اور دوسرا ٹاو کو۔
ہمیں یہ پتا ہے کہ یہ تہہ اور گھجے آہستہ آہستہ جمع ہوتے ہیں جبکہ بھولنے والی علامات ان کے بعد آتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے جمع ہونے کی ابتدائی سٹیج پر اس کو پکڑ لینا اس کا علاج کرنے کی کنجی ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس ایسا کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں۔ ابھی تک ہم الزائمر کی شناخت بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتے۔ اس کو ٹھیک پہچاننے کا طریقہ پوسٹ مارٹم ہے، یعنی جب مریض زندہ نہیں رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑا اسرار یہ ہے کہ ایسا کیوں کہ کچھ لوگوں کو الزائمر ہوتا ہے اور کچھ کو نہیں۔ کئی ایسے جین ہیں جن کے الزائمر سے تعلق کی شناخت ہو چکی ہے، لیکن کسی کو براہِ راست اصل وجہ نہیں قرار دیا جاتا۔ عمر زیادہ ہونے سے اس بیماری کی آمد کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے لیکن ایسا تو بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے۔ اگر آپ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں تو امکان کم ہو جاتا ہے لیکن اس کا تعلق جوانی کے دنوں میں کلاس روم میں بیٹھنے سے نہیں بلکہ متجسس اور زیادہ متحرک ذہن سے ہے۔ وہ لوگ جو صحت مند غذا لیتے ہیں، ورزش کرتے ہیں، وزن پر کنٹرول رکھتے ہیں، سگریٹ اور شراب نوشی سے دور رہتے ہیں ۔۔۔ ان میں بھولنے کی کسی بھی طرح کی بیماری آنے کا امکان گھٹ جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ نیکی کی زندگی کا مطلب ہے کہ یہ بیماری نہیں آئے گی بلکہ اس کے ہونے کا امکان ساٹھ فیصد کم ہو جاتا ہے۔
بھولنے کی بیماری (dementia) کی سو کے قریب اقسام ہیں اور الزائمر ان میں سے صرف ایک ہے۔ لیکن بھولنے کی بیماریوں میں میں سے ساٹھ سے ستر فیصد کیس الزائمر کے ہی ہیں۔ اس وقت دنیا میں پانچ کروڑ لوگ اس کا شکار ہیں۔
اس کے علاوہ لیوی باڈی ڈیمنشیا ایک مرض ہے جس کی علامات الزائمر جیسی ہیں اور وجہ نیورل پروٹین ہیں۔ فرنٹوٹیمپورل ڈیمنشیا سامنے کی لوبز میں ہونے والے ضرر کی وجہ سے آتا ہے۔ اور یہ مریض کے عزیزوں کے لئے بڑا مشکل وقت ہے کیونکہ مریض اپنے فیصلوں پر کنٹرول نہیں کر پاتا اور عجیب حرکات کا مرتکب ہوتا ہے۔ جیسا کہ سرِعام بے لباس ہو جانا، کسی اجبنی کی کوئی چیز کھا لینا، دکان سے چیز چوری کر لینا وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔
کل ملا کر 65 سال سے اوپر کے ایک تہائی لوگ کسی شکل میں ڈیمنشیا کا شکار ہیں۔ لیکن اس پر ہونے والی تحقیق کی فنڈنگ زیادہ نہیں۔ برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس کو ڈیمنشیا کا شکار لوگوں کیلئے 26 ارب پاونڈ دینا پڑتے ہیں۔ لیکن سالانہ ریسرچ فنڈ صرف نو کروڑ پاونڈ کا ہے۔ (موازنے کیلئے: کینسر کا فنڈ پچاس کروڑ پاونڈ ہے)۔
بوڑھے لوگوں میں موت کی تیسری بڑی وجہ الزائمر ہے۔ (اس سے آگے کینسر اور دل کی بیماریاں ہیں)۔ اور اس کا کوئی بھی موثر علاج نہیں۔
کلینکل ٹرائلز میں الزائمر کی ادویات کی ناکامی کا تناسب 99.6 فیصد ہے جو ادویات کے پورے شعبے میں ناکامی کا سب سے بڑا عدد ہے۔ 1990 کی دہائی میں کئی محققین کہتے تھے کہ اس کے علاج کا ملنا بہت قریب ہے۔ لیکن ایسا انہیں ہوا۔
ایک دوا سے بہت توقعات تھیں۔ لیکن یہ ٹرائل اس وقت ختم کر دیا گیا جب اس میں شریک مریضوں میں سے پچیس فیصد کو دماغ کے سوزش (encephalitis) ہو گئی۔
علاج ڈھونڈنے میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چوہوں کو الزائمر قدرتی طور پر نہیں ہوتا۔ تجربات کرنے کیلئے ان کے دماغ پر یہ تہہ بنائی جاتی ہے۔ اور ادویات کا ان پر ہونے والا اثر اس طریقے سے نہیں جیسے انسانوں پر ہوتا ہے۔
کئی ادویات کے ادارے اس سے شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ فائزر نے 2018 میں اعلان کیا تھا کہ وہ الزائمر اور پارکنسن پر ہونے والی تحقیق ختم کر رہی ہے اور اس کا تحقیقاتی مرکز بند کر رہی ہے۔
لگتا یہی ہے کہ الزائمر بڑھاپے کا بڑا مسئلہ بہت دیر تک رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نومبر 1901 میں آگسٹے ڈیٹر اپنے ڈاکٹر الویس الزائمر کے پاس گئی تھیں۔ انہیں بتایا تھا کہ “مجھے لگتا ہے کہ روز بروز میری شخصیت ختم ہو رہی ہے۔ جیسے ریت گھڑی سے ریت ٹپک رہی ہو۔ میں بھی ویسے ہی خود کو کھوتی جا رہی ہوں”۔
اگلے پانچ سال تک یہ مرض ہر روز ان کی شخصیت کو تھوڑا تھوڑا نگلتا رہا تھا۔ ڈاکٹر الزائمر صرف ایسا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ وہ ان کی کچھ بھی مدد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے پاس ایسا کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔
آج 120 سال بعد اگر وہ ڈاکٹر کے پاس اپنی یہی شکایت لے کر جاتیں تو بھی کچھ مختلف نہ ہوتا۔۔۔
یہ اس مرض کی ایک افسردہ حقیقت ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply