بک ریویو:فرصتِ یک نفس ۔فیروز ناطق خسرو/تبصرہ:محمد فیاض حسرت

زیرِ تبصرہ ساتویں کتاب ، (مطالعے کے لحاظ سے ) “فرصتِ یک نفس” قطعات پر مشتمل ہے۔ میں نے خسرو صاحب کی پچھلی 6 کتابوں کے مطالعے کے بعد مختصر ریویوز تحریر کیے مگر خسرو صاحب کا تعارف کسی بھی ریویو میں رقم نہ کیا ۔ آج اس آخری ریویو میں مختصر تعارف انہی  کی زبانی ، کتاب میں موجود “احوالِ واقعی” سے چند حصے کوٹ کِیے دیتا ہوں ۔ یہ بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ کسی تخلیق کار کا تعارف اُس کی تخلیق کاری سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔
مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ شاعری میں جدت سے کیا مراد ہے یا یہ کہ جدت کیا ہوتی ہے تو اُسے میں خسرو صاحب کا یہ شعر پیش کروں؎

سینہ ِسنگ کٹا، ٹوٹ کے پتھر رویا
بعد اک عمر کے دل خوں کا سمندر رویا

مجھے اگر کہیں پہ کسی بھی قسم کا انتظار کرنا پڑ جائے تو مجھے اُس وقت لگتا تھا کہ میرے لیے دنیا کا سب سے مشکل کام انتظار کرنا ہے ۔ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اب کے دور میں وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے تو میں اُسے کہوں بجا فرمایا آپ نے ۔لیکن آپ چاہو تو اِ س وقت کی تیزی میں کمی لاسکتےہو ۔ پھر وہ حیرت سے کہے کہ ایسا کہاں ممکن ہے ؟ تو میں کہوں کہ جاؤ جا کے کسی کا شدت سے انتظار کرو اور اپنی زباں سے یہ سنو کہ یہ وقت کیوں تھم گیا ، یہ وقت گزر کیوں نہیں رہا ؟ تو ایسے میں تم گواہی دو ۔اور پکارو؎

جستجوئے حیات میں خسرو
ایک لمحہ صدی برابر ہے

کتاب ” آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے” کا مطالعہ کِیا تو میں نے لکھا کہ خسرو صاحب کے کلام میں کئی اور خوبیاں ہیں ان خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی نمایا ں ہے کہ الفاظ کو تصویری صورت (imagination) دینا یعنی، الفاظ کو اس صورت سے پیش کر دینا کہ پڑھنے والے کو کوئی براہِ راست منظر دیکھنے کا حال معلوم ہو ۔ آج فرصتِ یک نفس کا مطالعہ کیا تو اس شعر کو پڑھتے ہوئے مجھے جتنی خوشی ہوئی اُس خوشی کو الفاظ میں بیاں کر نا کسی کے بس میں کہاں ۔ خسرو صاحب کے کلام میں ایک جس خوبی کا ذکر کیا تھا ٹھیک اُسی پہلو پہ وہ فرماتے ہیں؎

کبھی ایسا بھی ہوتا ہےکہ جو ہم لفظ بنتے ہیں
مجسم ہوکے ان لفظوں سے اک تصویر بنتی ہے

احوالِ واقعی سے کچھ حصہ:-
” میں 19 نومبر 1944، کو ہندوستان کے شہر بد ایوں میں پیدا ہوا پاکستان کے قیام کے بعد ہم سب لوگ سندھ کے شہر خیر پور میرس میں آکر آباد ہوگے ۔ میرا نام خسرو پاشا تجویز کیا گیا ۔ اسکول میں داخلے کے وقت والد صاحب نے نجانے کیا سوچ کر میرا نام خسرو پاشا کی بجائے فیروز ناطق لکھوایا ( خود ان کا تخلص ناطق بدایونی تھا)۔ہم سات بہن بھائی ، گھر کی فضا شعرو ادب سے معمور ، سب ہی سخن فہم و سخن شناس لیکن ؎
حاصل کسی کسی کو ہوئی قدرتِ سخن
ذوقِ سخن وگرنہ برابر کا سب میں تھا
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ خاص صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہم انہیں دریافت کریں ۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو اس کے لیے نہ تو عشق و محبت ضروری ہے نہ سگریٹ کے مرغولے فضا میں چھوڑنا ، نہ شراب و شباب سے دل بہلانا ۔ شاعری عطیہ خداوندی ہے۔ طبیعت کی موزونیت شرطِ اولیں ہے اور دلِ درد آشنا اس کےلیے مہمیز ؎
جب بناتا ہوں میں کوئی تصویر
اوڑھ لیتا ہوں اک نیا چہرہ

ساتویں جماعت میں پہنچا تو ایک دن اسکول پیدل جاتے ہوئے آسمان پر چھائے ہوئے بادل اور فضا میں لہراتے رقص کرتے پرندوں کو دیکھ کر بےاختیار دل کی خواہش زبان سے کچھ یوں ادا ہوئی؎

فضا میں یہ اڑتے پرندوں کے جھنڈ
کتنے آزاد ہیں، کتنے مختار ہیں

ایم اے (اردو) ، ایم اے (اسلامک ہسٹری) اور بی ایس سی ( وار سٹیڈیز) کی ڈگری حاصل کی ۔ میری شاعری کے حوالے سے میری تربیت میں میرے والدین کا بڑا حصہ رہا ۔
قطعہ ہو یا رباعی ، غزل ہو یا نظم ( پابند ، آزاد، نثری نظم ) میں نے کبھی شعوری طور پر یہ کوشش نہیں کی کہ کسی خاص بحر ، ردیف قافیہ یا مشاعرہ کا ماحول دیکھتے ہوئے شعروں کہوں، خیال اپنے ساتھ شعر کی ہیت ، لفظیات اور علامات بھی لاتا ہے؎

خسرو مجھے ہے آج بھی اُس حرف کی تلاش
وہ حرف جو سخن کو توانائی بخش دے

مجھے باقاعدہ شعر کہتے ہوئے 50 سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا؎

پوچھا کہاں ہیں میرے سخن کے پچاس سال
آئی صدا کہ رُخ سےہٹا گردِ ماہ و سال

اسی گردِ ماہ و سال کے ساتھ ائر فورس کی ملازمت کے دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں رہنے کا موقع ملا ۔1999 میں پاکستان ائیر فورس سے، اسکواڈرن لیڈر کے رینک میں قبل ازوقت ریٹائرمنٹ حاصل کی؎

افتاد کیا پڑی تھی جو سیکھے فنونِ حرب
خسرو ترا مقام تو شعرو ادب میں تھا ”

کتاب ” فرصتِ یک نفس” میں سے کچھ منتخب کلام آپ کی نذر:-

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ( انڈیا) فیروز خسرو کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں؎
روح کو ملتی ہے اُن کی فکر سے آسودگی
جاری و ساری رہے گا اُن کا فیضِ خاص و عام

تصویرِ کائنات کو بے رنگ دیکھ کر
تخلیقِ زن کو مظہرِ ذاتِ خدا کیا

تزئینِ کائنات تو خالق نے کی مگر
لیکن ذرا یہ سوچیے خود ہم نے کیا کِیا

دیکھتاہے جہاں پہ گنجائش
دل بناتا ہے آشیاں اپنا
ہم نے سجدہ وہیں پہ کر ڈالا
اُس نے رکھا قدم جہاں اپنا

طلب میں تیری کہ میں اپنی آرزو میں ہوں
اسیر ہوں پہ طلسماتِ رنگ و بو میں ہوں
تمام عمر اسی سعیِ رائیگاں میں کٹی
نجانے کون ہے وہ جسکی جستجو میں ہوں

کسی کو دعویٰ ہے خود شناسی کا
قطرہ قطرہ یہاں سمندر ہے
جستجوئے حیات میں خسرو
ایک لمحہ صدی برابر ہے

زہر کو زہر سے تعبیر کیا جائے گا
جھوٹ کو جھوٹ ہی تفسیر کیا جائے گا
کاٹنا چاہو تو یہ ہاتھ بھی کاٹو لیکن
سچ اسی ہاتھ سے تحریر کیا جائے گا

آج یہ تنگیِ داماں کی شکایت کیسی
برہنہ پارہِ پرخار پہ چل کر دیکھو
ہم سے بے مہریِ ء حالات کا شکوہ کیسا
دوستو زاویہء بدل کر دیکھو !

سینہ ِسنگ کٹا، ٹوٹ کے پتھر رویا
بعد اک عمر کے دل خوں کا سمندر رویا
غم کا سورج مری دہلیز پہ آکر ٹھہرا
میرا سایہ مرے قدموں سے لپٹ کر

یارو ہے اک فریبِ مسلسل یہ زندگی
اوجِ فلک کو زیرِ کفِ پا کِیا تو کیا
احساس کے صحن میں وہی تیرگی رہی
مانگے ہوئے دیوں سے اُجالا کِیا تو کیا

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو ہم لفظ بنتے ہیں
مجسم ہوکے ان لفظوں سے اک تصویر بنتی ہے
اسی تصویر میں جب دستِ قدرت رنگ بھرتا ہے
وہی تصویر پھر انسان کی تقدیر بنتی ہے
10۔
میں کہ اپنی ہی دھن میں رہتا ہوں
اور لمحے گزرتے رہتے ہیں
آئینے ہو چکے ہیں زنگ آلود
لوگ پھر بھی سنورے رہتے ہیں

حصہ ءِ نظیر اکبر آبادی سے ایک قطعہ
11۔
آبرو شعر و سخن کی ہیں نظیر
آج بھی ان سے بھرم اردو کا ہے
مصحفی و غالب و اقبال و میر
دم قدم سے ان کے دم اردو کا ہے

حصہ ءِ میر تقی میر سے ایک قطعہ
12۔
کر چکے اے دل تو جب یہ ہاؤ ہو اچھی طرح
جیبِ جاں کا چاک پھر کریو رفو اچھی طرح
رقص میں آنے سے پہلے رقص میں آنے کے بعد
آئینے میں دیکھیو خود کو بھی تو اچھی طرح

حصہءِ غالب سے
13۔
سیکڑوں عکس، ہر اک عکس کے لاکھوں پہلو
یہ جہاں آئنہ خانہ نظر آتا ہے مجھے
14۔
غالب کی ہی زمیں میں کیا خوب کہتے ہیں؎
محفلیں بھی باعثِ تزئینِ مژگاں ہو گئیں
آہ اگلی صحبتیں خوابِ پریشاں ہو گئیں
وقت کے ہاتھو ہوئے ہم چار دیواری میں قید
گھر کی دیواریں بھی اب دیوارِ زنداں ہو گئیں

حصہءِ اقبال سے ایک قطعہ
15۔
ولولے پیدا کئے مردہ دلوں میں اُس نے
خفتہ ذہنوں کو جھنجوڑا انہیں بیدار کیا
اپنے افکار کی دولت سے نوازا ہم کو
صاحبِ جہد و عمل، حاملِ کردار کیا

Advertisements
julia rana solicitors london

فیروز ناطق خسرو صاحب کی اب تک 8کتابیں اشاعت پزیر ہوچکی ہیں۔آٹھویں کتاب جو سب میں پہلے(2010ء) شائع ہوئی وہ آپ نے اپنے والد مرحوم حضرت ناطق بدایونی کا منتخب کلام “انتخابِ کلامِ ناطق بدایونی” کے نام سے شائع کیا۔
ان کی مزید 03 کتابیں ابھی زیرِ ترتیب ہے۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply