مسئلہ کشمیر پر ایک نقطہ نظر…داؤد ظفر ندیم

پاکستان کا موقف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا ایک غیر حل شدہ باب ہے اور اس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیئے۔
دیکھنا یہ ہے دنیا میں اس موقف کی کتنی پذیرائی ہے اور دنیا اس پر کتنی ہمارے موقف کو سپورٹ کرتی ہے۔
دوسرا یہ معاملہ ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں نے اسی کی دہائی کے اواخر میں شاید غیر اعلانیہ پالیسی بنائی تھی۔ کہ افغان جہاد کی طرز پر گوریلا لڑائی لڑی جائے مگر پاکستان کے مقتدر لوگ یہ بات مدنظر نہیں رکھ سکتے کہ یہ عالمی مفادات کے پیش نظر ممکن نہیں۔ اب پاکستان کے مقتدر حلقے اور سفارتی حلقے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کرتے ہیں مگر اب پاکستانی اشرافیہ ایسی حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی جو بدلتے ہوئے عالمی تقاضوں میں پاکستانی مفادات کا تحفظ کر سکے
اصل میں پاکستان میں ایسے تھنک ٹینک اور آزاد سیاسی ادارے نہیں جو اپنے خیالات اور تجزیئوں کا مقتدر اداروں سے اشتراک کر سکیں۔ یونیورسٹیوں میں جو مختلف سینٹر قائم ہیں ان میں تحقیقی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان کی کشمیر پالیسی میں کیا ممکننہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے سب سے پہلے ہمیں اپنی اس پالیسی اعلان کے تحت کشمیر کی حکمت عملی کو دیکھنا ہوگا کہ کشمیر کا صرف پرامن حل وہاں کے لوگوں کو استصواب رائے کا حق دینے سے ممکن ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں آزاد کشمیر کو ایک خود مختار ملک کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا جس کی اپنی فوج ہو۔ اس کے بعد اس سے ویزہ فری، تجارتی، دفاعی اور دوسرے معاہدے کرنے ہوں گے۔ اب آزاد کشمیر میں ایسی سیاسی جماعت اور سیاسی قیادت کو سامنے لانا ہوگا جو بین الاقوامی سطح پر اپنا کیس لڑ سکے۔ اس کو ایک مضبوط وزیر خارجہ کی ضرورت ہوگی جو ہماری کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سے زیادہ بہتر اپنا کیس لڑ سکے گا۔
اب یہ تنازعہ بنیادی طور پر ایک آزاد ملک یعنی آزاد کشمیر اور بھارت کے درمیان ہوگا جس میں ہم کشمیر کے ایک حلیف ملک کے طور پر ہوں گے۔ اب کشمیر کا موقف یہ ہوگا کہ وہ برٹش دور میں بھی ایک آزاد وجود کے طور پر موجود تھا جس پر بھارت نے فوج کشی کی۔ پاکستانی فوج کی جگہ کشمیر لبریشن آرمی کشمیر میں تعینات کی جاءے گی جو ریاست کے باشندوں پر مشتمل ہوگی
دوسرا آزاد کشمیر میں ایک مضبوط سیاسی جماعت اور سیاسی قیادت سامنے لائی جائے جو آزاد کشمیر کے آزاد تشخص کو دنیا کے سامنے رکھے بھارت کے زیر تحت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سامنے لائے۔ ایسی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تشکیل دی جائیں جو بھارت کے زیر تحت کشمیر سے بھارتی افواج کی واپسی کا مطالبہ کریں
اب کشمیر میں تمام سیاسی جماعتوں میں ایک آزاد ریاست پر اتفاق رائے بنایا جائے جو کہ بھارت اور پاکستان کے باشندوں کو بعض ویزے، تجارت اور کاروباری مواقع میں بعض مراعات دینے کی حمایتی ہو
بھارت کے زیر تحت کشمیر میں تین قسم کی قیادت سے تعلق رکھا جاءے
پہلے وہ جو وہاں انتخابات لڑنے کی حمایتی ہو اور ریاست کی اس حیثیث کی بحالی کا مطالبہ کرے جب ریاست انڈین وفاق سے الگ تھی۔ تمام دوسری جماعتیں اس کی خاموش حمایت کریں
یہی سیاسی جماعت اور قیادت ریاست سے بھارتی افواج کے نکلنے کی بات کرے
اہم بات یہ جماعت تقسیم ہند کے موقع پر آنے والے تمام غیر ریاستی افراد کو ریاست سے نکالنے کی بات کرے
اس کے بعد یہ قیادت تقسیم سے موقع پر ریاست سے جانے والے تمام لوگوں کی واپسی کی بات کرے اور ان کو ان کی جائدادیں واپسی دینے کی بات کرے
دوسری سیاسی قیادت آزاد کشمیر سے اتحاد کرنے اور ریاست کو ایک الگ وفاقی ریاست بنانے کی بات کرے جس میں پاکستانی اور بھارتی باشندوں کو ویزہ، تجارت اور کاروباری مواقع میں رعایات دی جائیں
یہ تمام سیاسی جماعتیں انسانی حقوق کے حوالے سے واویلا کریں اور اپنی آزادی اور خود مختاری کی تحریک چلائیں
موجودہ عالمی صورتحال میں ایک آزاد اور خود مختار کشمیر کی بات ہی ہمیں دنیا کی ہمدردیاں دلا سکتی ہے جبکہ یہ سب کچھ آزاد کشمیر کے پلیٹ فارم سے کیا جائے۔
پاکستان اس تمام تحریک کی اخلاقی، مالی، اور سفارتی امداد کرے اور آزاد کشمیر کی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دے اس سے دفاعی معاہدہ رکھے تاکہ وہ بھارت کا ترنوالہ نہ بن سکے مگر اس تنازعہ میں وہ براہ راست فریق آزاد کشمیر کو بنانے کی کوشش کرے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply