غمگین وادی۔۔۔۔محمد اعجاز

بچپن سے یہ الفاظ میں سنتا آرہا ہوں کہ کشمیر جنت نما حسین وادی ہے .لیکن جب کشمیر پر نظر دوڑاتا هوں تو وهاں کے حالات دیکھ کر چبھن سی محسوس هوتی هےیا دماغ کی کھڑکی کھلتی هے .پھر کچھ نه کچھ سوچتا هوں.اس بار بھی سوچ رها هوں که کیا لکھوں.ان این جی اوز پر لکھوں جنهوں نے کشمیری مسلمانوں کی غربت کو مذاق بنا کروهاں اپنے جال بچھا رکھے ہیں ۔جو نام نہاد امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں ساده لوح مسلمانوں کے مذهب پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں.یا اس پر لکھوں کہ یہاں کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے غلامی قبول نہ  کرنے پر صدیوں سے آباد لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا هے.نسلوں سے آباد ان لوگوں کو زمین کے کسی ٹکڑے پر دعوے کا حق حاصل نہیں.اس پر لکھوں کہ  مظلوم کشمیری مسلمانوں کی عورتوں کو مظلومیت کی آڑ میں نشانہ بنایا جاتا هے,بلکہ  کچھ عورتیں کھیل بنائی  جاتی ہیں.ان مجبور کشمیری بھائیوں پر لکھوں جنہیں ہرروز ظالم بھارتی فوجیوں کے مسلط کردہ کرفیو کا سامنا کرنا پڑتا ہے .جس کی وجه سے وه خوردونوش کی اشیاء حاصل کرنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں.ان کے کاروبار بند ہو چکے ہیں۔ان ظلم کا شکار کشمیری ماؤں ,بہنوں کے چہروں پر موجود ریکھاؤں پر لکھوں جن پر جوانی آنے سے پہلے ڈھل جاتی هے..ان کشمیری بچوں پرلکھوں جو جوانی کی منزلیں طے کرنے سے پہلے ہی ابدی نیند سو گۓ۔.ان کشمیری طلبإ اور اساتذہ پر لکھوں جنہوں نے بھارتی مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے ہاتھ میں قلم تھامنے کی بجاۓ بندوق اٹھالی اور برہان وانی بن گۓ.
اس مظلوم کشمیری ماں پر لکھوں جو اپنے اکلوتے جواں بیٹے کی لاش پر آہ و فغاں کرتی رہی۔لیکن اس کی پکار سننے والا کوئی  نہیں تھا۔اس کشمیری بہن پر لکھوں جو کئی ساعتیں بے جان سانسیں لیتی ہوئی  انڈین فوجیوں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں دم توڑ گئی.اس کی بے گوروکفن لاش پھر کسی” صلاح الدین ایوبی “کا انتظار کرتی رهی.منصور پر لکھوں جو انڈین پیلٹ گنوں کانشانہ بن گیا.اس کا جرم صرف مسلم گھرانے میں آنکھ کھولنا تھا.نه جانے روزانه کتنے منصور ہندو بنیےکی وحشت کی بھینٹ چڑھ جاتے هیں.مگر کسی انسانی حقوق کے علمبردار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی.
ان مکانات پر لکھوں جن کو عسکریت پسندوں کی پناہگاہ قرار دے کر بارود سے اڑادیا جاتا ہے.لیکن کوئی  بھی کان نہیں دھرتا.پورا سماج بےحس ہو چکا هے.میں کیا لکھوں مظلوم بہنوں کی آه و پکار,تڑپتے لاشے,گرتی مساجد,تباه شده مکانات,ٹارچر سیلوں میں مقفل برہنه قیدی اور مسلسل انسانی حقوق کی پامالی پر لکھنے بیٹھوں تو قلم ٹوٹ جائیگا.انگلیوں سے خون نکل آئیگا.لیکن میں یه فرض ادا نهیں کر سکتا.
هاں البته اگر چند الفاظ لکھنے بیٹھوں تو وه یه هیں که سرزمین جموں کشمیر ایک فطرتی میوزیم ہےجہاں خوبصورت جنگلات,میٹھے پانی کے صاف چشمے,معدنیات سے لبریز پہاڑاور گھومتے پھرتے جانور انسانوں سے بھی زیاده آزاد هوتے هیں.جھاں بلندوبالا کوهساراور زرخیز میدانی علاقه جات قدرتی خوبصورتی کا شاهکار هیں.یہ خطہ بھرپوروسائل اور افرادی قوت سے مالامال ہے.اور بھی بہت کچھ هے.لیکن کیا لکھوں یہاں انسانیت کا قتل عام دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا هے.
بس اور کیا لکھوں…..!
پھول بےپرواہیں!توگرم نوا ہو یا نہ ہو
کاروں بے حس ہے,آوازدرا ہو یا نہ ہو۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply