کیا بنک ملازمین ، سودخور شمار ہونگے ؟۔۔۔۔سلیم جاوید

مولوی صاحبان فرماتے ہیں کہ موجودہ بنکاری سسٹم ، دراصل سودی نظام ہے- اور یہ کہ سود ، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے – اور یہ کہ سود ، خدا کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے- اور یہ کہ سود کا کمتر درجہ بھی کراہت میں سگی ماں سے زنا برابر ہے- اور یہ کہ سود لینے دینے والے کے علاوہ ، اسکے لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے بھی اس وعید میں داخل ہیں-

اب ایشو یہ ہے کہ اپنے بچوں کیلئے روزی روٹی کمانے والے لاکھوں بنک ملازمین ، اسی وجہ سے مستقل احساس گناہ کا شکار رہتے ہیں – اس ذہنی دباؤ کے نتیجے میں انکا ایک حصہ تو نوکری چھوڑ دیتا ہے جبکہ ایک حصہ ، مزید گناہوں پہ جری ہو جاتا ہے ( کہ پاتے نہیں جب راہ ، تو چڑھ جاتے ہیں نالے ) – باقیماندہ ملازمین ، سودخوری کے طعنے سنتے جیتے رہتے ہیں-

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان کا بنکاری نظام ، وہی سودی نظام ہے جس بارے قرآن وحدیث میں وعید آئ ہے ؟- کہیں ملتے جلتے نام وشکل کی وجہ سے ہم کسی خلطِ مبحث کا شکار تو نہیں ہیں ؟-

مثال کے طور پرنبی کریم کے زمانے میں گھروں میں لونڈی غلام ہوا کرتے تھے اور آج کی طرح ماہانہ تنخواہ پر گھریلو نوکررکھنے کا رواج نہیں تھا – کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ” غلام ” بارے احکام کو” نوکر” پر منطبق کر رہے ہوں ؟- ( خیال رہے کہ ” لونڈی ” بارے احکام کو ” گھر کی ماسی ” پرلاگوکرنے سے ناگوار صورتحال درپیش ہوسکتی ہے ) –

باقی ساری دنیا کی طرح ، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی گذشتہ ستر سال سے وہی معاشی نظام رائج ہے جسکو سودی نظام قراردے کر مولوی صاحبان ، اس گناہ کبیرہ کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے رہتے ہیں- دوسری طرف زمینی صورتحال یہ ہے کہ اسی معاشی نظام سے ہی پبلک کو تنخواہیں اداکی جاتی ہیں- ( ان علماء کو بھی جو پارلیمنٹ ، اوقاف یا سرکاری کمیٹیوں کےارکان ہیں)- عوام بھی مروج ” سودی نظام ” سے کمائ کرکے ، خیرات وچندہ دیتے ہیں جس سے مدراس اسلامیہ چلتے ہیں ( اور اسلام زندہ ہوتا ہے )- طرفہ تماشا یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر، سراج الحق صاحب نے بطور صوبائ وزیرخزانہ ، سود کی شرح مزید بڑھائ تھی ( انکے حالیہ اتحادی اوراس وقت کے اپوزیشن ایم پی اے ، مفتی فضل ٖغفور صاحب نے ہی یہ انکشاف فرمایا تھا )-

درایں حالات ، اس سوال پہ غورکرنا بہت اہم ہے کہ کیا پاکستان کا بنکاری نظام ، واقعی سودی نظام ہے ؟ –

پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سود کیا چیزہے اور اس قدر بڑا گناہ کیوں ہے ؟-

جناب نبی کریم کے زمانہ میں ( اس سے قبل بھی ) ایک معاشی نظام رائج تھا کہ کسی مجبور آدمی کو قرض درکار ہوتا تو وہ کسی دولت مند شخص سے ( سیٹھ یا مہاجن کہہ لیں) ، ایک خاص معیاد کیلئے ، اس شرط پہ ادھار لیتا تھا کہ اصل سے زائد رقم واپس کرے گا ، چاہے اسکی ضرورت پوری ہو یا نہ ہو- ( آج بھی پاکستان کے بعض علاقوں ، اسی ہیت کے ساتھ یہ رائج ہے ) –

اسلام ، سوسائٹی کے ہرفرد کو، اس لحاظ سے فعال دیکھنا چاہتا ہے کہ اپنی صلاحیتیں ، کائنات کی تسخیر میں صرف کرے ( جس کا اصل مقصد ، انسانیت کی فلاح ہو) – کوئ فرد بھی کام کئے بغیر ، گھر بیٹھ کرنہ کھائے کیونکہ اسکی یہ مفت خوری ، سوسائٹی کے لئے مزید قباحتوں کا سبب بنتی ہے – ( اسلام کو امیروں سے خواہ مخواہ کا بیرنہیں مگروہ کسی فرد کو بھی گردن کا پسینہ نکالے بغیر، امیرسے امیر تر ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا )-

قرآن یہ چاہتا ہے کہ سوسائٹی میں دولت کی گردش رک نہ جائے اوردولت ، صرف ایک امیر طبقے میں ہی جمع ہوکرنہ رہ جائے – یہاں ” دولت کی گردش ” سے مراد ” پازیٹیو گردش ” ہے یعنی بزنس وغیرہ ، جسکی وجہ سے کمزور طبقات کو ابھرنے کا چانس ملتا رہے ( یا کم ازکم ضمنی طور پر سماج کو فائدہ پہنچتا رہے ) – یہ وضاحت اس لئے عرض کردی کہ ” عیاشی ” میں بھی دولت کی گردش تو ہوتی ہے مگر وہ ” نگیٹیو گردش ” ہے کیونکہ سوسائٹی ” تسخیر کائینات ” برائے ” فلاح انسانیت ” کے قرآنی آدرش سے محروم ہو جاتی ہے –

مگر سود کا نظام ایسا ہوتا ہے کہ امیر آدمی کو بزنس کا رسک لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور وہ گھربیٹھ کر صرف پیسہ پرہی پیسہ بناتا رہتا ہے جسکی بنیاد پر سوسائٹی میں ایک مفت خور، کاہل مگر دولت مند طبقہ وجود میں آتا چلا جاتا ہے جو عموما” عیاش اور ظالم ہوتے ہیں –

پھربات عیاشی تک نہیں ہے بلکہ یہ مفت خور مافیا ، صرف پیسے کی بنیاد پر، عالمی بزنس کو کنٹرول کرلیتی ہے اوراپنی مرضی سے منڈیوں کے بھا ؤ طے کرتی ہے – پھر ساری انسانیت ، اپنی بنیادی ضروریات کے لئے بھی ، انکے رحم و کرم پہ آ جاتی ہے جبکہ خدا اپنی مخلوق کو اس عیاش اور ظالم طبقہ کے حوالے نہیں کرنا چاہتا – سود چونکہ عالمی ننگ وفقر کا بنیادی سبب ہے ، اسی وجہ سے یہ بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے-

مگر آپ غور کیجئے گا کہ موجودہ بنکاری نظام ، اس سودی نظام سے مختلف ہے جو فتح مکہ سے لےکر، گذشتہ صدی تک اس دنیا میں رائج رہا ہے- (اور اب بھی فردی شکل میں باقی ہے ) – اس لئے کہ اس بنکاری نظام میں دو بنیادی سٹیک ہولڈر ہی اپنی حقیقت میں ان سے مختلف ہیں جو زمانہ نبوی میں موجود تھے – یعنی سود پررقم دینے والا مہاجن ( یا سیٹھ ) اورقرض لینے والا ضرورت مند ( یا محتاج )- اسکی وضاحت آگے آئے گی-

بنک میں قرض خواہ اور قرض دہندہ کا سٹیٹس بدلتا رہتا ہے- کبھی تو عام لوگ ، بنک کو قرض دیتے ہیں( یعنی اکاونٹ کھولتے ہیں ) اس شرط پرکہ مقررہ میعاد بعد زیادہ پیسہ واپس لے سکیں – اور کبھی عام لوگ بنک سے قرض لیتے ہیں اس شرط پر کہ ایک میعاد بعد زیادہ پیسہ واپس کریں گے – بادی النظر میں یہ سود ہی لگتا ہے مگر ” علت ” پر غور کرنے سے شاید نتیجہ مختلف نکلے گا- ( بنیادی بات یہ کہ فی زمانہ، بنک اور کسٹمر، ہر دوفریق میں کوئ مجبور وبے کس نہیں ہوتا جسکی بنا پر کہا جائے کہ اسکا خون چوسا جارہا ہے )-

چونکہ پاکستان کے معاشی سسٹم میں دو طرح کا بنکاری نظام مروج ہے (سرکاری اور پرائیوٹ) تو آگے ان دونوں بارے الگ الگ بات کرتے ہیں-

موجودہ سرکاری بنکاری میں ، نہ صرف یہ کہ زمانہ جاہلیت والے ” سیٹھ ” کا وجود نہیں ہے بلکہ دولت کا یک فردی ارتکاز بھی نہیں ہوتا-

عوام جس سرکاری بنک سے ” سود ” پہ قرض لیتے ہیں ، وہ دراصل خود عوام سے ہی قرض لے رہے ہوتے ہیں ( پبلک بنک عوام کے ٹیکسوں سے وجود میں آتے ہیں )- یہ تقریبا” ایسی صورت ہے جیسا کہ محلے میں کمیٹی ڈالی جاتی ہے – فرق یہ ہے کہ بنک کو اصل قرض سے زیادہ پیسہ واپس کیا جاتا ہے ( جسے وہ منافع کہتے ہیں) مگر وہ بھی ایک ” سیٹھ ” کی جیب میں نہیں جاتا بلکہ اس منافع کا ایک حصہ ، بنک کے ملازمین کی معاشی بہتری میں صرف ہوتا ہے – (یہ صورتحال، دورنبوی والی نہیں)-

یہ بنک ملازمین کسی سیٹھ کے گھر کے خاندانی منشی نہیں ہوتے بلکہ عوام میں سے ہی میرٹ پہ سلیکٹ کئے جاتے ہیں – پھر یہ کہ انکی تاحیات ملازمت نہیں ہواکرتی بلکہ بنکوں کے سربراہ بھی ریٹائر ہوجایا کرتے ہیں جسکا مطلب یہ کہ یہ ایک مافیا نہیں بن جاتا- (یہ صورتحال بھی ، دورنبوی والی نہیں)-

البتہ اس منافع( یا انٹرسٹ) کا ایک حصہ حکومت کوجاتا ہے جو ظاہر ہے کہ کسی خاص فرد کو امیر سے امیر ترنہیں بناتا بلکہ عوام ہی کی فلاح کے لئے استعمال ہوتا ہے- (یہ صورتحال بھی، دورنبوی والی نہیں)-

بنک کے کسٹمرز کو بھی جو ” سود ” ملتا ہے ، وہ بھی سیٹھ یا مافیا نہیں ہوتے بلکہ عوام ہی ہوتے ہیں اور دوسرے یہ ایک ڈکلئرڈ پیسہ ہوتا اور متمدن ریاست اس پہ بھی ٹیکس کٹوتی کیا کرتی ہے- (یہ صورتحال بھی، دورنبوی والی نہیں ) –

مختصر یہ کہ سرکاری بنک کے سسٹم میں نہ توایک سیٹھ ہوتا ہے ، نہ کوئ امیر طبقہ بنتا ہے اور نہ ہی دولت کی گردش ، ایک خاص طبقہ میں جاکر رک جاتی ہے- (جیسا کہ دور نبوی میں ہوتا تھا ) –

اب ذرا نجی بنکاری کا کیس بھی دیکھ لیجئے جسکا مالک ایک سیٹھ ( یا ایک گروپ) ہوتا ہے-

بظاہر یہ وہی ” مکہ کے سیٹھ ” والا کیس لگتا ہے کیونکہ یہاں بھی سارا منافع سیٹھ کو ہی جاتا ہے مگرواضح ہو کہ مکہ والے سیٹھ پر سوسائٹی کو ریٹرن کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہوا کرتی تھی- جبکہ موجودہ سیٹھ (یا گروپ) کومارکیٹ میں مسابقت کا بھی سامنا ہے اور اپنی آمدن پر، ریاست کوانکم ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے – جتنی زیادہ آمدن ہوگی ، اتنا ہی زیادہ ، اپنے حصے کا انکم ٹیکس سوسائٹی کی فلاح کیلئے واپس کرے گا- (چنانچہ یہ بھی مکہ والے سودخوروں سے الگ نوعیت کا کیس ہے جو الگ سٹڈی مانگتا ہے )-

خاکسار کی رائے یہ ہے کہ چونکہ موجودہ بنک سسٹم کا اصل ٹارگٹ ، عالمی پراجکیٹس میں سرمایہ کاری کرنا ہے جسکی بنا پر عوام میں روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں لہذا یہ اپنی اصل میں وہ سودی نظام نہیں ہے جسکے بارے میں قرآنی وعید آئ ہے – یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں ذیلی طور پر کوئ ایسا شعبہ بھی موجود ہو جس میں روایتی سود کی شکل پائ جاتی ہو تو ” ذیلی وجہ ” ہونے کی بنا پر بھی ملازمین کے رزق حلال پہ اثر نہیں پڑتا – آجکل بڑے شا پنگ مالز میں تجارت بڑھانے کیلئے لاٹری کا سسٹم استعمال کیا جاتا ہے جو تقریبا” جوے کی شکل ہے ( اور جوا بھی سود کی طرح ہی حرام ہے )- اس ذیلی لاٹری سسٹم کی وجہ سے ، شاپنگ مال کی ملازمت حرام نہیں ہو جاتی – لہذا ، بنک ملازمین کوبھی کسی احساس گناہ کا شکار نہیں ہونا چاہئے –

ظاہر ہے کہ خاکسار کی رائے فتوی کی حیثیت نہیں رکھتی- اگر کوئ مولوی صاحب مصر ہیں کہ موجودہ معاشی نظام وہی پرانا سودی نظام ہے تو فقط یہ کہہ دینے سے اسکی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی – کیونکہ “عالم دین” کہتے ہی اس آدمی کو ہیں جو نہ صرف اپنے زمانے کے مسائل کو سمجھتا ہو بلکہ انکا حل یا متبادل پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو-

پاکستان کی خوشقسمتی ہے کہ یہاں مفتی تقی عثمانی جیسے علماء موجود ہیں جنہوں نے جدید معاشیات میں نہ صرف ڈگری لی ہوئ ہے بلکہ موجودہ معاشی ایشوز پر اسلامی نکتہ نظر سے تصنیف وتالیف بھی کی ہے اور میزان بنک کی صورت میں ایک متبادل اسلامی معاشی سسٹم بھی پیش کیا ہے –

حیرت کی بات یہ کہ مفتی تقی عثمانی پرانکے ہی ہم مسلک چند ٹھیٹھ مولوی صاحبان معترض ہیں-( ایسے ملاؤں نے خود ایک ہی معاشی کارنامہ انجام دیا ہے کہ مضاربہ کے نام پر معصوم عوام کے اربوں روپے لوٹ لے گئے ہیں )-

میزان بنک کے رفرنس سے مفتی صاحب پہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے “حیلے بہانے” سے سودی نظام کوہی اسلامی نظام کا نام دے رکھا ہے-

چلیں یہی فرض کرلیں کہ عثمانی صاحب نے عالمی معاشی نظام کے متبادل صرف ایک حیلہ اپنایا ہے تو کیا حیلہ بنانا شرعا” گناہ ہے ؟ – میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ کسی عوامی مسئلہ کے حل کی خاطر حیلہ جوئ کرنا ، عیب نہیں بلکہ مستحسن کاوش ہوتی ہے کہ اسی کو فقہ کہتے ہیں – ( خود قرآن نے ایوب ( ع ) کو حیلہ بتایا کہ 100 لکڑی مارنے کی قسم ، ایک ایسی جھاڑو کی ایک ضرب سے پوری کر لو ، جس میں لکڑی سے بنے 100 ریشے ہوں ) –

البتہ ، اچھی حیلہ سازی کی طرح ، بری حیلہ سازی بھی ہوا کرتی ہے-
کسی زمانے میں ہمارے علاقے کے سود خور مشہور ہوا کرتے تھے – مثلا” کسی مجبور کو ایک لاکھ روپے قرض درکار ہے تو اس شرط پہ ملے گا کہ سال بعد ، 25 ہزار سود بھی ساتھ دینا پڑے گا-

جب یہ لوگ تبلیغ میں لگ گئے تو مولوی صاحبان نے انکو کاروبار حلال کرنے کا حیلہ سمجھایا – اب ایک موصوف نے ” علماء ” کے مشورہ سے ایک موٹر سائیکل شوروم کھول لیا ہے جس میں موٹر سائکل کی قیمت ، نقد میں ایک لاکھ اور سال کی قسط ( یا لیز) پہ 1لاکھ 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے – جس مجبور کو قرض درکار ہے وہ شوروم پر آتا ہے – ایک موٹر سائیکل پر ہاتھ رکھتا ہے کہ یہ میں نے قسطوں پر خرید لی ہے اور سال بعد اسکی قیمت مبلغ سوا لاکھ روپے ادا کردوں گا – اب شوروم کا مالک ، اسکو ایک لاکھ روپے دیکر، واپس وہی موٹر سائکل اس ” نئے مالک ” سے نقد پرخرید لیتا ہے – یعنی موٹرسائکل بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتی ، قرض خواہ کو نقد ایک لاکھ بھی مل جاتا ہے ، اسے سال بعد 25ہزار زیادہ واپس بھی کرنا ہے مگرسود کا ” گناہ ” بھی نہیں ہوتا ( رند کے رند رہے ، ہاتھ سے جنت نہ گئی )-

بہرحال ، مفتی عثمانی صاحب سے ذاتی عقید ت باوجود ، خاکسار کا موقف ہے کہ اجتماعی مسائل بارے ( چاہے سماجی ہوں یا معاشی ) ، کسی فراد واحد کوفیصلے کا حق نہیں دینا چاہیئے – اجتماعی امور بارے ، صرف اسلامی نظریاتی کونسل کو ہی دینی موقف دینا چاہیے –

دیکھئے، دنیا کا معاشی و سماجی و سیاسی نظام بہت پیچیدہ ہوچکا ہے – اب ایسے موضوعات پرصرف کتابی موقف نہیں چل سکتا بلکہ گراونڈ ریالٹی کو بھی دیکھنا پڑتا ہے جو دین اسلام کا خاصہ ہے اوراسی کو تفقہ فی الدین کہتے ہیں- پیغمبر اسلام نے ، عرب میں رائج طاقتور سودی معیشت پراس وقت ضرب لگائ تھی جب مملکتِ اسلامی ، اس سودخور مافیا سے زیادہ طاقتور ہو چکی تھی ۔ ( اس سے اسلام کی معاملہ فہمی واضح ہوتی ہے )-

Advertisements
julia rana solicitors

سود کے مسئلہ پر ہمہ وقت حکومت کو ” تڑیاں ” لگانے والے اور عوام کو ٹنشن میں رکھنے والے جملہ مشتعل مومنین کرام سے ہم یہ گذارش کرتے ہیں کہ اپنی توانائیاں ، قوم کی معاشی ترقی کیلئے استعمال کیجئے – جب آپکو یہ قوت حاصل ہوجائے گی تو دنیا ، بغیرکہے بھی آپکو فالو کیا کرے گی-

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply