انشا ء جی اٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ رحمانی

ابن انشا مرحوم کی آج برسی ہے۔ اردو کی مزاح نگاری میں ان کا جو مقام ہے وہ شاید کسی اور کو حاصل نہ ہوگا۔

ان کا انداز تحریر اور اصلاح معاشرہ پر ان کا طنز نا قابل رسائی ہے۔ کہ وہ شگفتگی اور تبسم کے ساتھ اپنے مقصود کو بیان کرکے قاری کے دماغ کو اپنے سحر میں گرفتار کر کے اس کو حقائق کی گھمبیرتا سے آگاہ کرتے۔اس کے ساتھ ان کا شاعری میں بھی منفرد مرتبہ ہے۔ایک طرف جہاں ان کی نثر فکاہیہ اور مزاحیہ ہے۔ ان کی شاعری اس کے بر عکس ہے۔

ان کا مشہور شعری شہ پارہ “انشا جی اٹھو! اب کوچ کرو” اردو ادب سے ادنی مناسبت رکھنے والا شخص بھی واقف ہے۔

ان کا یہ کلام بہت پراسرار شہرت کا حامل ہے۔ اس غزل کا ماضی قریب کے اردو تغزل میں الگ مقام ہے۔ استاد حامد علی خاں صاحب نے اس کو پڑھا بھی تھا۔ اور اس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد ہی انشا جی وفات بھی پاگئے تھے۔اس کے جواب میں قتیل شفائی نے غزل لکھی “یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی“، دونوں غزلیں اپنے اعتبار سے اردو ادب ميں ایک ناقابل فراموش اور اٹوٹ اضافہ ہيں۔

آپ حضرات کی خدمت میں دونوں کلام پیش ہیں۔
پڑھئے اور معانی کی گہرائیوں میں پنہاں درد کو محسوس کیجئے۔

ابن انشاء

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا

اس دل کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا

شب بيتی ، چاند بھی ڈوب چلا ، زنجير پڑی دروازے میں
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کيا

پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

اس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

اس حُسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کرے
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا

قتیل شفائی

یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی

جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا اِن سے بھی منہہ پھیروگے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی

کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشا جی

تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشا جی

بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشا جی

اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھُلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشا جی

نہیں صرف “قتیل“ کی بات یہاں، کہیں “ساحر“ ہے کہیں “عالی“ ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی….!!

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے!!!
آمین۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply