• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انتیس دسمبر یوم وفات:محنت کشوں کا لیڈر مخدوم رشید احمد۔۔۔۔۔۔۔سجاد ظہیر سولنگی

انتیس دسمبر یوم وفات:محنت کشوں کا لیڈر مخدوم رشید احمد۔۔۔۔۔۔۔سجاد ظہیر سولنگی

مارکسزم وہ سائنس ہے جس کی حقیقت عوامی تحریکیں اور اس میں پنہاں انسانی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ ایک شاندار مثال ہے، آج تک دنیا کے سامراج نواز دانشورمل بیٹھ کر بھی اپنے فکر سے کارکس مارکس کے کے نظریات کا نعم البدل پیش نہیں کر سکے۔ ان کی جانب سے اپنے فکر کی بنیاد پر مستقبل کا تجزیہ بھلے دائیں بازو کو تنقید کرنے کا موقع فراہم کرے، لیکن آج بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں دیکھا جائے تو مارکسی فکر میں نئی جہتیں شامل کرنے کا حق بھی ٹھوس بنیادوں پر ان فکری راہنماؤں کا میسر ہوا جنہوں نے کارل مارکس کو اپنا رہبر و راہنما تسلیم کیا۔ انہوں نے انسانی تاریخ کے بہت بڑے انقلاب کی فکری اور عملی بنیادوں پر قیادت کی۔ آج بھی تاریخ مارکس کی عظیم تخلیق کے بغیر دنیا کا درست تجزیہ کرنا ناممکن بن جاتا ہے، تمام عالم پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ بہت سے انسانوں نے اپنی زندگیا،مال و ملکیت انسانی بقا کے اس عظیم نظریے کی حیات پر لٹا دی۔ ا ن کی خدمات کو، مارکسی فکر کے فروغ میں اہم تعمیری دور سمجھا جاتا ہے۔دنیا کے مختلف ممالک جس میں علم، ادب اوسیاست کے میدان بہت سے نام گنوائے جاتے ہیں، وہاں  پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں مارکس کے نظریات کی تحریک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں ان نظریات کی بنیا د عوام دوست اُس بولشویک پارٹی کے ہاتھوں رکھی گئی، جس کے بانیانن اور انقلابی راہنماؤں کو ہمارے خطے میں بڑے احترام سے دیکھا جاتا ہے۔
پاکستانی سماج جس میں انقلابی روایات اور محنت کش طبقے کی سیاست کو جن عوام دوست راہنما ؤں نے پروان چڑھایا، ان میں کامریڈ مخدوم رشید احمد مخدوم کی انقلابی سیاست کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔60 ء کی دہائی میں جنم لینے والے مخدوم رشید 29 ء دسمبر2010 ء کو ہم سے بچھڑ گئے۔آپ کا تعلق سندھ کے اس ضلع نوشہروفیروز سے تھا جس نے بائیں بازور کے وطن پرست راہنماؤں گوبند مالھی،حشوکیولرامانی، ہاشم گھانگھرو، اور قاضی فیض محمد جیسی بہت سے ترقی پسند شخصیات کو جنم دیا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی کے کچھ دہایوں کو نظر میں رکھتے ہوئے سندھ کی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی طور پر یہاں بہت بڑی علمی نرسری پیدا ہوئی، یہ وہ لوگ تھے جو اس دھرتی کو فرسودوہ نظام سے نجات دلاناچاہتے تھے۔ انہوں نے علمی اور عملی بنیادوں پر نظریاتی و فکری سیاست کی جو بنیادیں مرتب کی ان کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ پاکستا ن کی سیاسی و سماجی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس ملک میں محنت کشوں اور کسانوں کی جدوجہد کی ایک بہت بڑی تاریخ ہے۔ ان عوامی تحریکوں نے ہمارے اس سماج پر بہت ہی گہرے اثرات مرتب کیئے، اگر اندازہ لگایا جائے تو سماج میں بورزو ا، اور سوڈو دانشوروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔علمی سطح پر ان کو اگر تراشا جائے، اور اس بنیادوں پر دیکھا جائے کہ وہ اس سماج کا تجزیہ حقیقی بنیادوں پر کرپاتے ہیں؟ تو پھر بہت بڑا فقدان نظر آتا۔ ایسے دانشور و کہ جنہوں نے اپنے وجود اور ذات سے زیادہ انسانی بقا کے نظریات کو اولین ترجیح دی۔
کامریڈ مخدوم رشید احمد جیسے عوامی انقابی راہنماؤں نے اس معاشرے میں ہونے والی سیاست کو کو جدید فکر اور سائنسی اصولوں میں ڈھالنے کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کی۔ان عوامی داشوروں نے اداروں کی صورت میں نظریاتی روایات کی بنیادیں ڈالیں۔کامریڈ مخدوم محنت کش نظریے کے فروغ کے لیے ساری زندگی کوشاں رہے۔سندھ میں وہ بائیں بازوکی سیاست کے لیے ایک خاص طور پر شگر ملز کے محنت کشوں کے لیے درسگاہ کی اہمیت رکھتے تھے۔ آج بھی ملک میں درجنوں بائیں بازو کی پارٹیاں سرگرم ہیں، لیکن مخدوم صاحب کے حلقے کی سیاست کا انداز ہی اپنا تھا۔ اس بات کا ثبوت اس عمل سے لگایا جا سکتا ہے کہ عوام دشمن عناصر ے مخدوم صاحب کے حلقے کو اپنی انا اور جھوٹی دانشوری سے ختم کرنے کی بارہا کوشش کرتے رہے، ایسے ہتھکنڈوں کوہر بار ناکامی نصیب ہوئی لیکن مخدوم صاحب کی سیاست ہمیشہ محنت کشوں میں اپنے علمی اور عملی جدوجہد سے عوام دوست فکر کی بنیادیں مظبوط کرتی رہی۔ مخدوم رشید احمد کی عمی قابلیت کا اندازہ ان کی طرف سے سال2000 ء کے دوران بیرون ملک تھائی لینڈ اور فراس میں کیے جانے عالمی وزٹ سے لگایاجا سکتا ہے۔یہ دورہ کوئی موجود وقت میں ہونے والے این جی او ٹا ئپ کی طرح نہیں تھے۔ بلکہ یہ ایک محنت کش ٹریڈ یونین کی تقاریب تھی جہاں انہوں اکستان کے محنت کشوں کی نمائندگی کی۔جو ایک حقیقی مزدور راہنما اور شگر ملز یونیں فیڈریش کے لیڈر کی علمی مان و مرتبے کی دلیل تھے۔آج جب عالمی دورے کیے بغیر بہت سے محنت کش لیڈر مزدوروں کی سیاسی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ایسے وقت میں مخدوم صاحب ان کے لیے مثا ل ہیں۔آپ کی تربیت میں کبھی بھی نسل پرستی نظر نہیں آئی۔آپ کی علمی اور نظریاتی قابلیت مزید اس بات پر پرکھی جاسکتی ہے کہ ملک میں اس وقت بھی مشکل سے ایسی مزدور یونینز ہوں گی جن کا چندہ باقاعدگی سے جمع ہوتا ہو،مخدوم صاحب کی جانب سے النور شرملز (شاہپور جہایاں، نواب شاہ) میں محنت کش لیبر یونین کی بنیاد 1984 ء ان کے اپنے اتھوں سے رکھی گئی۔ اور وہ اس کے 16 سال جنرل سیکریٹری رہے۔ انہوں نے تنظیم کا چندہ جمع کرنے کی جو روایات ڈالی آج ان کے بچھڑنے کے8 سال بعد آج بھی النور شگرمل یونین کا چندہ ذمہ داری سے جمع ہوتا ہے۔محنت کشوں کے فلاح و بہبو د پر خرچ ہوتاہے۔مخدوم صاحب کو اگر ٹریڈ یونین سیاست کا دانشو رکہا جائے تو بجہ طور پر درست ہی ہوگا۔مخدوم صاحب وطن دوست انقلابی پارٹی، وطن دوست مزدور فیڈریشن اور لیبر پارٹی کے مرکزی بانیکار عہدہ دار بھی رہے۔
آج 29 دسمبر 2018ء کی شب مخدوم رشید احمد کی برسی اس کے سیاسی نشوونما والے شہر مورو میں منائی جارہی ہے۔ جہاں آج ان کے بہت سے شاگرد اور سیاسی رفیق ان کی سیاسی اور مزدور جدوجہد پر انہیں خراج پیش کریں گے۔وہاں ہم ان صرف نام کے مزدور لیڈران کو یہ ضرور یاد دلائیں گے، مارکس کی جانب سے محنت فکر میں کسی طرح کی کوئی بھی نسل پرستی موجود نہیں ہے، ہم قوم کے حقوق کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن ان کا حل سوشلسٹ فکر کی روشنی میں تراشتے ہیں۔مارکسزم پر جدوجہد اس طرح کی جائے جس طرح سے مخدوم رشید کی پکار پر پنجابی، اردو، سندھی، پختون اور دیگران برادری کے محنت کش آواز بلند کیا کرتے تھے۔رشید مخدوم جیسے انقلابیوں کے خواب کو پایا تکمیل تک تب ہی پہنچایا جا سکتا کہ جب ہم عوامی سیاست کو حقیقی انقلابی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ طبقاتی جدوجہد کے ساتھ محنت کشوں اور کسانوں جوڑتے ہوئے اپنی صفیں مضبوط کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply