ٹوٹی کمر کے دہشتگرد۔۔۔شاہانہ جاوید

ٹوٹی کمر والے دہشت گرد دوبارہ اپنے کام پر لگ گئے ہیں،کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے بڑے بڑے دعوے کیے گئے، منوں ٹنوں اسلحہ کراچی کے ایک علاقے عزیز آباد سے برآمد کیا گیا اور اب بھی اسلحہ نکلتا ہی جارہا ہے ایسا لگتا ہے وہاں در و دیوار پر اسلحہ اُگ رہا ہے، اتنی کاروائیوں کے بعد بھی دہشت گرد نکل آتے ہیں پچھلے دو ماہ کے اندر قائد آباد دھماکہ چینی سفارتخانے پہ حملہ، گلستان جوہر میں ایم کیو ایم پاکستان کے میلاد میں بم دھماکہ اور قیادت کو مارنے کی سازش، لیاقت آباد میں ٹارگٹ کلنگ، دو دن پہلے پی ایس پی کے دو کارکنوں کی شہادت اور اب کراچی کے ہونہار، جوان رعنا علی رضاعابدی کو دہشت گرد ماہرانہ انداز میں نشانہ بناکر ان کے گھر کے سامنے شہید کر گئے. یہ کس طرف جارہے ہیں حالات، کراچی کو دوبارہ سے جہنم بنانے کی تیاریاں ہیں. کیا کراچی کے نوجوانوں کی قسمت میں شہادت، بے روزگاری اور بے جا گرفتاریاں لکھ دی گئیں ہیں.
موجودہ حکمران جو غیبی مدد کے زریعے کراچی سے ایک بہت بڑا مینڈیٹ لے کر کراچی کے والی وارث تو بن گئے لیکن کراچی کے مزاج کو نہ سمجھ سکے، یہ غریب پرور شہر ہے جس کی ایک بہت بڑی آبادی متوسط ہے، اس کے مسائل جوں کے توں ہیں، کراچی میں امن کی بحالی کے دعوےدار پوش علاقوں میں بڑے بڑے کنسرٹ کروا کر بتانا چاہتے سب اچھا ہے، سب اچھا تو وہاں پہلے بھی تھا. برا تو متوسط علاقوں میں ہورہا ہے، پانی کا مسئلہ ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پلوشن، غریب اسی طرح سخت سردی میں بسوں کی چھتوں پر لد کر اپنے کام پر جارہا ہے، چھوٹا کاروبار کرنے والے فاقہ کرنے پر مجبور ہیں. غریب کے بچے گلیوں میں رُل رہے ہیں ان کی تعلیم کا کچھ پتہ نہیں، ایک ہفتے کی سی این جی کی بندش نے کئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے.
کراچی کو لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے نہ اس کے رقبے کا دھیان ہے، نہ اس کی بڑھتی آبادی کا خیال، بس کراچی سے کمانا ہے اور ملک پر لگانا ہے لیکن کراچی کو وعدوں وعید پر گذارا کرنا ہوگا. گرین لائن کے منصوبے پر کام ہورہا ہے لیکن روز اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لا کر بلاوجہ تاخیر کا سبب بنایا جارہا ہے. اسی طرح تجاوزات کے نام پر بہت تیزی سے کام کیا گیا، ملبہ جات اور باقیات کو اسی طرح چھوڑ کر کراچی کو موہن جوداڑو کا  روپ دے دیا گیا. ایمپریس مارکیٹ کو ایک شو پیس کی طرح دکھایا جارہا ہے اسکے آس پاس کی اربوں کی زمین کا بھی حساب رکھا جائے کہیں اس پر کوئی دس بیس منزلہ پلازہ نہ تعمیر کردیا جائے.
ارباب اختیار کیوں نہیں سمجھتے کہ کراچی کو  امن دینا ہے تو اس کی جڑوں کی آبیاری کریں، نچلی سطح پر حالات صحیح کریں، گلی محلوں میں قائم مختلف تنظیموں کے مدراس پر نظر رکھیں، ایک مخصوص طبقے کو نشانہ کے بجائے ہر ایک پر کڑی نظر رکھی جائے چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا ہو. سیاسی طور پر ایک جماعت پہ پابندی اور اس کے سربراہ کو بین کرنے کے بعد یہاں موجود عوام کو اپنی مرضی سے جینے دیا جائے، ہر حادثے کا تانابانا لندن سے جوڑنے کے بجائے کراچی میں موجود عناصر، غیر مقامی دہشت گردوں پر بھی نظر رکھی جائے. جب یہ بات ایک عام آدمی کی سمجھ میں آسکتی ہے تو ارباب اختیار کے دماغ میں کیوں نہیں گھستی.
ایک بار پھر کراچی کا بیٹا خون میں نہلادیا گیا، بیان بازی جاری ہے، مذمتی بیان دیے جارہے ہیں، قتل کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کروانے کا اعلان کردیا گیا لیکن نتیجہ کچھ نہیں ہوگا. تین بیٹیاں ایک بیٹا باپ کے سائے سے محروم کردیے گئے. کچھ دن شور غوغا رہے گا اور پھر یہ واقعہ وقت کی گرد کی تہہ میں دب جائے گا اور پھر کسی اور کی خبر آجائے گی. جب انٹیلیجنس ایجنسیاں خبردار کر دیتی ہیں تو حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے، گارڈ کیوں نہیں مہیاکیے جاتے. ایسا کب تک چلے گا، کب تک کراچی کے جوان لاشے بوڑھے باپ کے کندھوں پر ڈھوئے جائیں گے. وزیر اعلیٰ رینجرز کے اختیار کو ہمیشہ کے لیے نافذ کردیں کیونکہ ہر دفعہ امن بحال ہو جاتا ہے اور جیسے ہی رینجرز کی مدت ختم ہونے لگتی ہے پھر وہی حالات پیدا کردیے جاتے ہیں اور دوبارہ جواز بن جاتا ہے شہر میں رینجرز کے رہنے کا. جناب اعلیٰ آپ مستقل قیام کا حکم صادر فرمادیں کراچی والے جی رہے ہیں جیتے رہیں گے لیکن کم از کم اس شہر کے جوان اس طرح مارے تو نہیں جائیں گے ویسے بھی رینجرز کو کراچی شہر کی پہچان اچھی طرح ہوگئی ہے وہ کراچی کے مزاج کو سمجھ چکے ہیں تو پلیز امن کی خاطر کراچی کے جوانوں کی خاطر، رینجرز کے مستقل قیام کی اجازت پر مہر لگادیں ہم کراچی والے گذارہ کرلیں گے. اب صرف یہ کہہ سکتے ہیں
پھولوں میں جو پلے تھے تہہ خاک سو گئے
بیٹے پہن کے خون کی پوشاک سو گئے
شکوہ نہیں ہےاہل سیاسدت جو چپ رہے
یہ غم ہے اہل دانش و ادراک سو گئے

Facebook Comments

شاہانہ جاوید
لفظوں سے کھیلتی ہوئی ایک مصنف

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply