• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت لقمان کون تھے۔ قرآن نے ان کا ذکر کیوں کیا؟۔۔۔۔انجینئر عمران مسعود

حضرت لقمان کون تھے۔ قرآن نے ان کا ذکر کیوں کیا؟۔۔۔۔انجینئر عمران مسعود

حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں؟ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمان نبی تھے یا نہ تھے؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے ۔ حضرت جابر سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے ۔ سعد بن مسیب فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے ۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور رسالت پناہ کے غلام تھے ۔ حضرت مجع جو جناب فاروق اعظم کے غلام تھے اور حضرت لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے ۔ حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سبب سے بد تر بھی یہی ہیں ۔

حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے ۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے ۔ ایک اور قول ہے کہ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے ۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جر میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایاکرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا ؟ فرمایا سچ بولنے اور بیکار کلام نہ کرنے سے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بےنفع کاموں کو چھوڑ دینا ۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے ۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے ۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہوا کرتے تھے ۔ اسی لئے جمہور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے ۔ ہاں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا یہی کہ پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ۔

آپ نے فرمایا سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے ۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو ۔ زبان بیہودہ باتوں سے روک لو ۔ مال حلال کھایاکرو ۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو ۔ زبان سے سچ بات بولا کرو ۔ وعدے کو پورا کیا کرو ۔ مہمان کی عزت کرو ۔ پڑوسی کا خیال رکھو ۔ بےفائدہ کاموں کو چھوڑ دو ۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے ۔ ابو داؤد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے ۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں ۔ وہ خوش اخلاق خاموش غور و فکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے ۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے ۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غور و فکر اور عبرت ونصیحت حاصل کریں ۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی ۔ حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پُر حکمت برسادی گئی اور رگ وپے میں حکمت بھر دی گئی ۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں ۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنادیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھاجاتا ۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں ۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا ۔ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں حکمت سے مراد اسلام کی سمجھ ہے ۔ حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے ۔ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے ۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر ۔ شکر گذار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلاکرتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ 44؀ۙ ) 30- الروم:44 ) نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بےپرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بےنیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ہم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہیں کرتے ۔

لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی ۔ شعرائے جاہلیت ، مثلاً امراؤ القیس ، لَبِید ، اَعْشیٰ ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا ۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اولین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا ۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوت اسلام دیتے پھر رہے تھے ۔ اس سلسلہ میں سُوید نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے ۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا ۔ یہ بہت اچھا کلام ہے ، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے ( سیر ۃ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ٦۷ ۔ ٦۹ ۔ اُسُد الغابہ ، ج ۲ ، صفحہ ۳۷۸ ) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت ) مدینہ میں اپنی لیاقت ، بہادری ، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر کامل کے لقب سے پکارا جاتا تھا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدت بعد جنگ بعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا ۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا ۔ تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں ۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی ۔

معلومات کا انحصار ان سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں ۔ ان روایات کی رو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض القرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قوم عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ بچ رہے تھے ، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی ، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا ۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا ۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ ، مُجاہِد ، عکْرِمَہ اور خالد الربعی کا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا ۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا ۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں ۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے ، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے ۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری ، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے ، پھر روض الانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں ۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُوبی تھا ، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ ( موجودہ عَقَبہ ) کے علاقے کا تھا ۔ اسی وجہ سے اسکی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی ۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں ۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے ( روض الانف ، ج۱ ، ص۲٦٦ ۔ مسعودی ، ج۱ ۔ ص۵۷ ) ۔ یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ ( Derenbours ) نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو امثال لقمان الحکیم ( Fables De Loqman Le Sage ) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے ۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں ۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے اپنی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھہرا دیا جائے ۔ جو شخص بھی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں لقمان کے عنوان پر ہیلر ( B. Heller ) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا ۔

بحوالہ  1۔تفسیر ابن کثیر

Advertisements
julia rana solicitors

2۔تفسیر مودودی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply