مرشد۔۔۔وکی لاہ

دنوں میں دن گزر رہے تھے جب اس کی زندگی میں تھوڑی ہلچل ہوئی کسی کے لکھے ہوے جذباتوں سے بڑھے الفاظوں میں اس نے کسی کو تلاش کر لیا تھا مانو جیسے زندگی کا رنگ ہی بدل گیا ہو رات خوابوں میں بھی اسی کا خیال دن میں بھی اسی کی باتیں اپنے تخیل میں اس کے ساتھ بیٹھی کرتی رہتی تھی۔ لوگوں سے تھوڑی بیزار یہ لڑکی اب مسکرانے لگی تھی، لگتا تھا جیسے اندھیروں میں اسے روشنی کی کرن مل گئی ہو اور وہ اندھا دھند اس ہلکی سی روشنی کے پیچھے بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی دھڑکن رکنے ہی والی تھی جب اس نے تخیل کے شہزادے کا پیغام حقیقت میں پڑھا۔ اپنے جسم کی ساری طاقت اکٹھی کر کے ایک سانس بھری اور پیغام کا جواب دیا۔ ڈرتے سہمے ہوئے  لفظوں  سے بھی بات چل ہی نکلی پھر تو جیسے دن رات کا ہوش نہ تھا۔ بننے سنورنے لگی اپنا خیال رکھنے لگی ملاقات کے  انتظار میں وقت ساکت ہی ہو گیا تھا۔ پھر وہ دن بھی آ ہی گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بڑی نزاکتوں سے انگ انگ کو سنوار کے تیار ہو کے اس کی صرف حقیقت میں جھلک دیکھنے کے لیے گھر سے نکلی، دل میں ڈر اور خوف بھی عزت و آبرو کو داؤ پر لگا کر چل ہی پڑی گھنٹوں کا سفر صدیوں پر محیط ہو گیا تھا۔
پھر وہ وقت بھی آ ہی گیا اپنی سہیلی کے ساتھ سڑک کنارے پیدل بوجھل قدموں سے چل رہی تھی جب اس کی نظر اپنے مرشد پر پڑ گئی اس نے اس کا نام مرشد ہی رکھا تھا ناجانے کیسے اسے اس کے دل کا حال پتہ چل جاتا تھا۔
نظر کیا پڑی جیسے جان ہی نکل گئی اس کی  بمشکل اس نے سنبھلا خود کو ساتھ سہیلی نہ ہوتی تو بیہوش ہی ہو جاتی۔ جس کو خوابوں میں دیکھا اس کو حقیقت میں اپنے سامنے پا کر اپنی توانائیاں برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔
زندگی کے وہ چند منٹ جس میں دیدار مرشد کرتی رہی اس کی زندگی کے حسین پل تھے اگر اس کے بس میں ہوتا تو وقت کو ٹھہرا دیتی لیکن چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
رشتوں میں بندھی عزت اور آبرو کا خیال کرنے والی ولیوں کے گھرانے کی یہ لڑکی جذبات احساسات کو قابو کرنا بخوبی جانتی تھی۔ نا چاہتے ہوئے بھی انگلی میں پہنا پیتل کا چھلا گرا دیا۔ شاید دل میں خیال آتا ہو۔
کیا ہوا جو مل نہ پائے
مل تو لیتے لیکن چھو نہ پائے
خواب کو حقیقت میں پایا
پھر بھی ملال رہا
لوگوں کے درمیاں بس اتنا ہی کر پائے
ہوتا نہ ڈر اگر عزت و آبرو کا
تم کو گلے سے لگاتے
آنکھ بڑھ کر دیکھ ہی لیتے
اپنی انگلیوں میں سجایا جس کو
اپنے ہونٹوں سے چھو کے
تیری راہ میں گرا دیا
اٹھا لینا مرشد
محسوس کرنا ہم کو
شمع کی طرح جل رہے ہیں
اگر قسمت ملائے تو اپنا لینا ہم کو
بھول نہ جانا ہم کو
کہ برسوں جلے ہیں اس دیدار کی خاطر۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply