ولادت باسعادت احسان عظیم۔۔۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

اندھیرا،گھٹا ٹوپ اندھیرا،ہرطرف ایک بے یقینی کا سا عالم،علاقائی عصبیت،رنگ ونسل کے نام پر ایک بار جو جنگ چھڑ جاتی تو سالوں زمین خون سے رنگی رہتی،انسانیت دم توڑ چکی تھی،کبھی گھوڑا آگئے بڑھانے پر جھگڑا،تو کبھی پانی پینے پلانے پر،اقوام عالم میں قیصر وکسریٰٰٰ  نام کے دوبڑے بادشاہوں نے شرق وغرب کو اپنا باجگزار بنایا ہوا تھا،رہے اہل عرب تو ان کا حال ایسا تھا کہ کوئی باقاعدہ حکومت اور حکمران نہ تھا،مختلف چھوٹے بڑے کئی قبائل ہر مشتمل اس خطے میں بیٹی پیدا ہوتے ہی زندہ درگو کردینا معمول کی بات تھی،ایسے میں معدودے چند اہل نظر کی بصیرت یہ بھانپ چکی تھی کہ سیاہ اندھیرے کے بعد اب صبح ہونے کوہے،کیونکہ پرانے صحیفوں میں کسی ایسے آنے والے کا تذکرہ ملتا تھا جو بھٹکی ہوئی انسانیت کواس کی اصل منزل کی جانب گامزن کرے گا،بے چین نگائیں بار بار آسمان کی جانب اُٹھتی تھیں،جناب عیسی علیہ السلام کے بعد روئے زمیں اور اہل زمیں کسی نئے مسیحا کی تلاش میں تھے،جو آکر اُن کی دلجوئی کرے،اُن کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھے،یکا یک رحمت ایزدی جوش میں آئی،اور12ربیع الاول بمطابق 21اپریل 571عیسوی کو خطہ عرب کے ایک معز ز قریشی گھرانے میں وہ صبح طلوع ہوئی کہ جس کے انتظا ر میں اس کائنات کی ہر شے نجانے کب سے انتظا ر میں تھی،وہ اُجالا ہو گیا کہ جس نے قیامت تک کے لئے اس کائنات سے کفر کے اندھیروں کو مٹا دیا،زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اُٹھی،صدیوں سے بھٹکتی انسانیت کو سکون ملا،کائنات کی ہر شے نے خوشی و مسرت کے شادیانے بجائے،عبداللہ بن عبدالمطلب اور بی بی آمنہ کے ہاں انسان کامل نے جنم لیا،کفر کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا،قیصر وکسری کے محلات کے درودیوار لرز اُٹھے،اور لرزتے بھی کیوں نہ،بقول حالی نبی رحمت العالمین،غریبوں کا مراد بر لانے والا،مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا،اپنے پرائے کا غم کھانے والا،فقیروں کا ملجا،یتیموں کا والی،غلاموں کا مولی،آمنہ کے لال،اللہ کے حبیب رسالت ماب محمد ﷺ کی ولادت باسعادت جو ہو گئی تھی،مرجھائے ہوئے چہرے کھل اُٹھے،پژمردہ کلیوں پر جوبن آگیا،بے زبانوں کو زبان عطا ہوئی،بے سہاروں کو سہارا مل گیا،رب العالمین کا احسان عظیم ہے جس نے ہمیں رحمت العالمین عطا فرمایا،آپ ﷺ کی دلادت باسعادت کے وقت عالم انسان خاص طور پر خطہ عرب کے جو معروضی حالات تھے اگر اُن کا جائزہ لیا جائے تو بلاشک وشبہ آپﷺ کی دلادت باسعادت اللہ رب العزت کا ایک عظیم احسان ہے،کون سی ایسی برائی تھی جو عرب کے معاشرے میں نہ پائی جاتی ہو،نہ کوئی باقاعدہ حکومت نہ کوئی حکمران،زندگی گزارنے کا کوئی ڈھنگ نہ کوئی قانون،بس ایک قبائلی زندگی کے شب وروز،اور پھر اقوام عالم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ محض 23سال کے مختصر سے عرصے میں دنیا کی کایا پلٹ گئی،اور فتح مکہ کے بعد ایک عظیم انسانی انقلاب رونما ہوا،جس کا کریڈٹ آپﷺ کو جاتا ہے،یہ آپﷺکی ذات کامل ہی ہے،جس پر قیامت تک انسان اور انسانیت فخر کرے گئی،قلم وہ الفاظ لکھنے سے قاصر ہے،زبان وہ معطر باتیں کرنے سے معذور ہے،جو آپﷺکی سیرت پاک کے حوالے سے لکھی اور کہی جائیں،آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا ہر گوشہ لائق تحسین و تعریف ہے،آپ ﷺ کی نجی زندگی ہو یا بطور سپہ سالار جنگی و سیاسی حکمت عملی،بطور اللہ کے نبی اپنے اور غیروں سے حسن سلوک ہو یا پھر چھوٹے بچوں پر شفقت،عورتوں کا احترام ہو یا بطور تاجر ملک شام کا سفر،اور سب سے بڑھ کر فتح مکہ کے موقع پر اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ صلح رحمی،الغرض کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں جو لائق تعریف نہ ہو،کوئی کمی نہیں،کوئی بیشی نہیں،ایک متوازن حیات طیبہ،دینا کے بہترین سیاسی مدبر،بہترین قانون دان،نہایت سادہ سی زندگی،مگرلقب رحمت العالمین،کائنات کے خزانوں کے مالک مگر کل کائنات ایک مٹی کا پیالہ اور ایک کالی کملی،اور جو مقصد عظیم آپﷺ کے دست مبارک سے تشکیل پایا،اس کی تو کیا ہی بات،قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات،ایک نسخہ کیمیا،ایک مکمل ہدایت،اور ایک مکمل نصاب حیات القرآن،آپ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے،جس کا عملی مظاہرہ دور فاروقیؓ میں دیکھنے کو ملا،آج انسانیت ایک بار پھر سے کئی ایسے خطرات سے دوچار ہے،جن کے لئے تعلیمات محمدﷺ کی اشد ضرورت ہے،کیونکہ دنیا کچھ بھی کرلے،ہماری نجات اُسی اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے جس کا سبق 1400سال پہلے رحمت العالمین نے دیا،غیر مسلم تو رہے ایک جانب خود آج کا مسلمان جن حوادث کا شکا ر ہے،اس کی وجہ کچھ اور نہیں صرف عملی طور پر آپﷺ کی تعلیمات سے روگردنی ہے،ہم اب صرف نام اور زبان کے مسلمان رہ گئے ہیں،بقول اقبال کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں،ہر وہ برائی جس سے ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں باز رہنے کا حکم دیا تھا،آج ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے،اور دعوی مسلمانی کا؟کیا منہ لے کر جائیں گئے روز قیامت اپنے نبی ﷺ کے سامنے،یہ کبھی سوچنا بھی گواراہ نہیں کرتے،ہمارے ہاتھوں آج ہمارے ہی کلمہ گو بھائی محفوظ نہیں،جس بات کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے یعنی تعلیمات محمد ﷺ،اس پر عمل کرتے ہمارے پر جلتے ہیں،عملاًصفر بٹا صفر،آپﷺ کی حیات طیبہ کے کسی ایک گوشے کی معمولی سی بھی جھلک ہمارے چند فٹ کے خاکی جسم سے نہیں جھلکتی،ہماری زبانیں ہر وقت ایک دوسرے کوکافر قرار دینے سے نہیں تھکتیں،آپ ﷺ سراپا رحمت،ہم سر تا پا مجسم شیطان،آپﷺ اپنے پرائے کا غم کھانے والے،ہمارے ہاتھوں ہمارا پڑوسی بھی غیر محفوظ،آپﷺ اپنی بیٹی کے لئے رحمت کی چادر بچھانے والے،ہم اپنی بیٹی کو محض جائیداد سے شرعی حصہ دینے سے بچنے قرآن سے شادی کردینے سے بھی باز نہیں آتے،آپ ﷺ بچوں پر شفقت فرمانے والے،ہمارے ہاں زینب جیسے واقعات روز کا معمول،الغرض ہمارا ہر عمل،ہر بات اور ہر فعل خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی سیرت پاک ﷺ کے بالکل برعکس ہے،آج ولادت باسعادت کے موقع پر محض رسمی نعرے لگا دینے،گلی کوچے سجادینے اور سے بات نہیں بنے گی بلکہ عملاً ہمیں اپنی زندگیوں کو آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے عین مطابق ڈھالنا ہوگا،وگرنہ دن منا دینے سے کوئی فائدہ نہیں،اللہ کے انسانیت پر اس احسان عظیم پر لاکھوں سلام،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply