کینسر (15) ۔ ریڈیکل سرجری/وہاراامباکر

“نئے ڈاکٹر کی حیثیت سے میں عہد کرتا ہوں کہ میں انسانیت کی خدمت کی پوری کوشش کروں گا۔ بیماروں کی دیکھ بھال کروں گا۔ ان کو تکلیف اور مصیبت سے نجات دلاوں گا”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔بقراط کا حلف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالسٹیڈ نے ریڈیکل سرجری کی روایت شروع کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سرجری بلوغت کو پہنچ رہی تھی۔ آپریشن تھیٹر کی سیڑھیوں پر تماشائی سرجن کی مہارت کو دیکھتے تھے۔ ایک تماشائی نے 1898 میں لکھا تھا۔ “ہالسٹیڈ کو کام کرتے دیکھنا ویسا تھا جیسے آپ کسی آرٹسٹ کی پرفارمنس دیکھ رہے ہوں۔ یہ کسی ماسٹر کے کمال ہاتھ تھے”۔ ہالسٹیڈ مشکل آپریشن سے گھبراتے نہیں تھے۔ ان کی نظر میں یہ چاقو بمقابلہ کینسر کا مقابلہ تھا۔
لیکن ٹیکنیکل کامیابی طویل مدت کامیابی کی ضمانت نہیں تھی۔ اس کے لئے شماریات کی ضرورت تھی۔ مریض کی پانچ یا دس ماہ تک ہی نہیں، پانچ یا دس سال بعد کی حالت کو ریکارڈ کرنے کی ضرورت تھی۔
ہالسٹیڈ نے طویل مدتی شماریات اکٹھے کرنا شروع کیا۔ ان کے پاس اب ڈیٹا اکٹھا ہونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالسٹیڈ کی تھیوری ٹھیک تھی۔ چھوٹے کینسر پر جارحانہ حملہ کینسر کے علاج کا درست طریقہ تھا۔ لیکن ایک اور گہری تصوراتی غلطی تھی۔
ٹیومر خود بہت ہی متنوع رویوں کے حامل تھے۔ کچھ خواتین میں جب تشخیص ہوتی تھی تو یہ دور تک پھیل چکا ہوتا تھا۔ میٹاسٹیٹک کینسر ہڈیوں، پھیپھڑوں اور جگر تک پنجے جما چکا ہوتا تھا۔ کچھ میں یہ صرف ایک عضو تک محدود ہوتا تھا۔ کچھ میں اس سے بھی بہت کم۔ چند نوڈز تک محدود یہ مقامی بیماری تھی۔
ہالسٹیڈ کے لئے ریڈیکل سرجری ہی واحد حل تھا۔ کون ٹھیک ہو گا اور کون نہیں؟ اس کا تعلق اس سے تھا کہ مریضہ کا کینسر کس سٹیج کا ہے۔ جن کا میٹاسٹیٹک ہے، ان کو اس آپریشن کا فائدہ نہیں تھا، خواہ جتنا مرضی جارحانہ آپریشن کر لیا جائے۔ اور جن کا بالکل مقامی نوعیت کا تھا، ان کا علاج تو ہو جاتا تھا لیکن اس سے بہت کم کاٹنے پر بھی یہ علاج ہو جاتا۔ ان دونوں حالتوں میں ہالسٹیڈ کا پروسیجر ٹھیک فِٹ نہیں تھا۔ ان دونوں میں خواتین کو ایسے پروسیجر سے گزرنا پڑتا تھا جو ان کی شکل و صورت خراب کر دینے والی تکلیف دہ حالت تھی۔
انیس اپریل 1898 کو سالانہ کانفرنس میں ہالسٹیڈ نے اعداد و شمار دکھائے۔ سننے والے بہت انتظار میں تھے۔ ان کے طریقے سے حاصل کردہ نتائج کسی بھی اور طریقے سے بہتر رہے تھے۔ کینسر کی واپسی کے کیس چند فیصد تھے۔ انہوں نے اپنے دعوے کے مطابق کینسر جڑ سے اکھاڑ دیا تھا۔ لیکن ان میں مسائل تھے۔ 76 مریضاوٗں میں سے تین سال تک زندہ رہنے والوں کی تعداد 46 تھی۔ یعنی تقریباً نصف کے قریب تین سال تک زندہ نہیں رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اگلا ڈیٹا 1907 میں دکھایا۔ ہالسٹیڈ نے مریضوں کو تین گروپس میں تقسیم کیا تھا۔ اس بنیاد پر کہ کینسر کتنا پھیلا ہوا تھا۔ اب پیٹرن نمایاں ہو گیا۔ جن میں گردن میں لمف نوڈ تک کینسر نہیں پھیلا تھا، ان میں بچنے کی شرح زیادہ تھی۔ جبکہ چالیس مریض، جن میں پھیل چکا تھا، ان میں سے پانچ سال میں صرف تین زندہ بچی تھیں۔
اہم فیکٹر یہ تھا کہ سرجری سے پہلے کینسر کتنا پھیل چکا تھا۔
یہ چھاتی کے کینسر پر ہالسٹیڈ کا آخری پیپر تھا۔ وہ دوسرے اعضاء جیسے گلے، شریانوں اور سینے پر کام شروع کر چکے تھے جہاں زبردست جدتیں لائے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلسٹڈ کے کام کے سولہ سالوں میں کینسر کے علاج کی تلاش نے اہم قدم لئے تھے۔ کچھ بڑے قدم آگے کی طرف اور کچھ پیچھے کی طرف۔ انہوں نے یہ دکھا دیا تھا کہ بڑے پیمانے پر ریڈیکل سرجری کرنا ممکن ہے۔ اور اس سے کینسر کے واپس آنے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ لیکن جو وہ نہیں دکھا سکے تھے، وہ اس سے زیادہ اہم ہے۔ بیس سال سے اکٹھے ہونے والے ڈیٹا کے بعد بھی کینسر کا علاج اس طریقے سے حاصل نہیں کیا جا سکا تھا۔ زیادہ سرجری کا مطلب ہمیشہ مریض کی زندگی بہتر کرنے میں نہیں نکلتا تھا۔
لیکن ان کی تکنیک اپنا لی گئی تھی۔ “جڑ سے اکھاڑ دئے جانا” پرکشش اصطلاح تھی۔ اصلاحات سے تصورات بنتے ہیں اور تصورات سے فیصلے۔ کیا کینسر کا سامنا کرنے والا کوئی بھی جان کر یہ انتخاب کرے گا کہ اس کے عارضے کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جا رہا؟
بالٹی مور میں 1931 میں ہونے والی کانفرنس میں ایک سرجن نے کہا تھا کہ “سرجن کی ذمہ داری تکنیکی طور پر پرفیکٹ آپریشن کرنے کی ہے۔ علاج اس کے ہاتھ میں نہیں ہے”۔
یہی تکنیک کئی قسم کے کینسر کے لئے استعمال ہو رہی تھی۔ اموات کی شرح بلند تھی۔ کئی مریض آپریٹنگ ٹیبل سے واپس نہیں آتے تھے۔
بقراط کا حلف الٹا دیا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے پاس شواہد نہیں تھے کہ یہ طریقہ کام کرتا ہے لیکن کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ ٹرائل کرنا ممکن نہیں تھا۔ اچھی نیت کی بنیاد پر ریڈیکل سرجری تقریباً ایک صدی تک کی جاتی رہی۔
ہیو ہیمپٹن ینگ نے یورولوجی میں تکنیک ڈویلپ کرنے میں اہم کام کیا۔ گردے، پروسٹیٹ اور بلیڈر نکالنے کا کام کیا گیا۔ پروسٹیٹ کا پہلا کامیاب آپریشن 1904 میں ہوا۔ (کچھ تبدیلیوں کے ساتھ یہ تکنیک آج بھی استعمال ہوتی ہے)۔ الیگزینڈر برونشوگک نے سرویکل کینسر نکالنے کی تکنیک بنائی۔ جارج پیک نے معدے کی۔
ہالسٹیڈ کے شاگرد ہاروے کشنگ نے دماغ کے ٹیومر نکالنے کے اچھوتے طریقے نکالے جس میں گلائیوبلاسٹوما بھی شامل تھے۔ یہ خون کی شریانوں سے اس قدر زیادہ الجھے ہوئے ٹیومر ہوتے ہیں کہ کسی بھی منٹ میں ہیمرج ہو سکتا ہے۔
پھیپھڑا نکالنے کی تکنیک کے موجد ایوارٹس گراہم تھے جنہوں نے 1933 میں پہلا ایسا آپریشن کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو ریڈیکل نہ ہو، ایسی تکنیک کو میڈیکل دنیا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اس کو عارضی آپریشن کہا جاتا تھا۔ یہ “غلط مہربانی” تھی جس کو سرجنوں کی اس نسل نے بڑی کوششوں سے ختم کیا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply