حکایتِ نجم شاہ: قصہ ایک گاؤں کا۔۔ معاذ محمود

اس کا نام نجم شاہ تھا۔ خدا نے اس کے ہاتھ میں ہنر رکھا تھا۔ وہ باورچی تھا اور قریب ہر قسم کا پکوان بخوبی پکا لیتا تھا۔ گاؤں میں ہوٹل نہ ہونے کے برابر تھے لہزا ہنرمند ہونے سے قطع نظر اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق وہ جو پکاتا، بیچنے میں کامیاب ہوجاتا۔ وہ خود تو مسلمان تھا مگر گاؤں میں تمام مذاہب کے لوگ رہا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسے کبھی سوچنا نہ پڑا کہ میں حرام پکا رہا ہوں یا حلال۔ وہ بس پکا دیتا اور کھانے والے کھا لیتے۔ سب اچھا چل رہا تھا۔

پھر گاؤں میں تین نئے ہوٹل کھل گئے۔ ایک کٹر اسلامی نام تھا جس کا “منطق خداداد ریسٹورنٹ”، ایک نہایت آزاد خیال جس کا نام “میں تم تمام ہوٹل” اور ایک جو ایک دن اسلامی تو دوسرے دن آزاد خیال گاؤں والوں سے پوچھ کر پکوان کا انتخاب کرتا، جس کا نام “گفتگو کیجیے فاسٹ فوڈ” تھا۔ ایک ڈھابہ، “جاوید کی جلن کیفے” بھی کھلا جس پر “یا علی مدد” اور سیاہ جھنڈا گڑا رہتا۔ فقہ جعفریہ کا واحد ترجمان ہونے کا دعوی کرنے کے باعث دو چار سیاہ پوش یہاں بھی مل ہی جاتے جنہیں چائے کے ساتھ مسلک فروشی کا باسی اوت سستا بسکٹ خوب بھاتا۔ یہاں کا باورچی باتوں میں گاؤں کے نائی کو مات دیتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کسی زمانے میں حاکم وقت نے اس باورچی کی چرب زبانی کے باعث مہمان نوازی کا ذمہ بذات خود اٹھایا تھا جو چند دن میں بوجہ ہاتھ پیر رگڑنے کے اختتام پذیر کر دیا گیا۔

خیر تو کہانی جاری تھی نجم شاہ کی۔ جب تک دیگر ہوٹل نہ کھلے تھے نجم شاہ کا دھندہ خوب چلا۔ ہوٹل کھلے تو مقابلے کا رحجان شروع ہوا اور نجم شاہ کئی مشہور باورچیوں کے مقابلے میں چت ہو پڑا۔ نجم شاہ کے ہوٹل کا کاروبار ٹھپ ہوا اور اسے کاروبار بند کرنا پڑا۔ نجم شاہ کو سب سے بڑا جھٹکا تب پہنچا جب ماضی میں اس کی واہ واہ کرنے والے اب باقی تین ہوٹلوں کی تعریف کرتے نہ تھکتے۔ اسے روزگار سے زیادہ عوامی مقبولیت کھونے کا غصہ تھا۔ پہلے پہل نجم شاہ نے رسوئی کا چوکہ چھوڑ فیشن اپنانے کی ٹھانی۔ اس چکر میں نجم عوام میں مقبول بیل باٹم اور ٹائٹ شرٹ پہنے محلے میں پھرا کرتا جو اس وقت کی ایک کھوکھلی سیاسی تنظیم کا نشان بھی تھی۔ محلے کے اسلامی ذہنیت رکھنے والے جوان اس کا ٹھٹھہ اڑاتے جبکہ آزاد خیال تعریف کے پل باندھتے۔ نجم شاہ کو کچھ حوصلہ ملا کہ چلو کچھ تو بات بنی لیکن ضمیر میں ایک کچوکہ تھا کہ تماش بین صرف ایک جانب سے کھنچے ہیں، کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ دوسری جانب سے بھی تالیاں بجنے لگیں۔

محلے میں مذہب پسندوں اور آزاد خیالوں کے درمیان ایک خلیج تھا جو کافی گہرائی پکڑ چکا تھا۔ نجم شاہ کے دماغ نے کام کیا اور اس نے آزاد منش گاؤں والوں کے پسندیدہ مطعم “میں تم تمام ہوٹل” پہ حرام پکانے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ اب حالات یہ ہوگئے کہ نجم شاہ ایک جانب بیل باٹم پہنے آزاد منش لبرلز کا ترجمان بننے کی کوشش کرتا اور دوسری جانب ان پہ حرام بیچنے کے فتوے لگاتا۔ جس وقت لبرل پسند کام کرتا مذہبی دوست یار تبرہ کرتے، اور جس وقت مذہب پسندوں کے ساتھ مل کر لبرلز پہ پھبتی کستا تو آزاد طبع لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نتیجہ حکایت: پیارے بچوں، نجم شاہ اگر اپنے ہنر پہ توجہ مرکوز رکھتا تو آج اسے کسی کے خلاف بات کرنے یا کسی کی مارکیٹنگ کرنے کی نوبت نہ آتی۔ نجم شاہ نے اپنے ہنر کو تماش بینوں کے سامنے قربان کر ڈالا اور نتیجتاً نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply