حوزے ساراماگو پرتگالی ادیب تھے۔ جن کو ۱۹۹۸ میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ نوبیل انعام کے بعد بھی ساراماگو نے اپنا کام جاری رکھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ناول لکھا جس کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول کا انگریزی نام Death with Interruptions تھا۔ اس انگریزی ترجمے کو سامنے رکھ کر مبشر احمد میر نے اس کا اُردو ترجمہ “التوائے مرگ” کے نام سے کیا ہے۔ جس کو آکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کیا ہے۔
یہ ایک غیر روایتی ناول ہے۔ جس میں کرداروں کے نام ذکر نہیں کیے گئے پھر کرداروں کے درمیان مکالمے کے لیے رموز اوقاف کا اتنا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ مترجم نے بھی اس ہی چیز کو برقرار رکھا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ناول قاری سے مسلسل توجہ کا متقاضی ہے۔ اگر قاری اس کے پڑھنے کے دوران تھوڑا سا بھی بے تکلف ہو تو ممکن ہے کہ وہ مکالمے کو سمجھ نہیں پائے گا۔
یہ ایک ملک جس کا نام مصنف نے ذکر نہیں کیا اس کی کہانی ہے۔ جہاں پر سال نو کے جشن کے بعد یکم جنوری کو ایک انہونی بات نظر آتی ہے کہ پورے ملک میں کوئی موت واقعہ نہیں ہوتی۔ موت کے یوں غائب ہو جانے پر پہلے تو پورا ملک خوشی مناتا ہے۔ اس بات کا اعلان وزیر اعظم ٹی وی پر کرتا ہے کہ پورے ملک میں ایک بھی موت واقعہ نہیں ہوئی یہ بات حیران کن ضرور ہے مگر اس پر اس وقت تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ مگر جلد ہی یہ خوشگواری ختم ہو کر پریشانی کو جنم دیتی ہے۔ جس میں مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ ذمہ داران اپنی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ جب وزیر اعظم ٹیلیویژن پر موت کے خاتمے کا اعلان کر کے واپس گھر جا رہا ہوتا ہے تو اس کو ملک کے کھتولک چرچ کے سب سے بڑے پادری کی کال آتی ہے۔ پادری وزیراعظم کی تقریر پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ دراصل اس کی پریشانی بہت گہری ہوتی ہے، کیونکہ اگر موت کا وجود ختم ہو جائے تو اس پر سب سے زیادہ کاری ضرب مذہب پر پڑتی ہے کیونکہ مذہب بالخصوص الہامی مذاہب میں حیات بعد الموت ایک بنیادی عقیدہ ہے اور اس ہی عقیدے کی بنیاد پر اکثر لوگوں کا مذہب سے تعلق ہے۔ پادری اس بات کا درست ادراک کر لیتا ہے کہ موت کی موت دراصل مذہب کی موت ہے پھر عیسائیت میں سیدنا مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حوالے سے بھی اس عقیدے پر ان کا مدار ہے اور اپنی نجات کے لیے اس سے ہی امید لگائے ہوئے ہیں تو اگر موت کا وجود ختم ہو جائے تو عیسائیت کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
ویسے دیکھا جائے تو یہ ہی معاملہ اسلام کا بھی ہے۔ اسلام میں بھی اخروی زندگی، جنت اور جہنم سب کے سب دنیاوی زندگی کے خاتمے کے بعد کے مراحل ہیں۔ ہم آخرت ہی کے خوف سے بہت سے غلط کام نہیں کرتے، بلکہ کچھ لوگوں کا مذہب سے جو واجبی سا تعلق بھی ہے تو اس کا براہ راست تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔ مصنف نے عیسائیت کو سامنے رکھ کر تقریباً تمام مذاہب کا نظریہ بیان کیا ہے۔
ایسا نہیں کہ فقط اہل مذاہب کے لیے موت کا خاتمہ پریشان کن تھا۔ گورکن اور مردے دفنانے والا عملہ بھی پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد ان کام باقی نہیں رہتا، وہ بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ اب وہ جانور دفنانے پر انحصار کریں گے کیونکہ موت نے جو رخصت لی ہے اس کا تعلق صرف انسانوں کے ساتھ ہے ، جانور، پرندوں اور پودوں کے لیے معمول میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ یہ عملہ اپنے لیے آسان اقساط پر قرضوں اور مکانات کا مطالبہ کرتا ہے اور مردہ جانوروں کو تلف کرنے پر بھی ایسی مراعات کا طالب ہے جیسے وہ انسانوں کی تدفین پر تھیں
ہسپتالوں میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی پریشانی تدفین کرنے والے عملے کے برعکس ہے۔ ان کے اوپر مریضوں کا اضافی بوجھ پڑ جاتا ہے۔ پہلے تو مریض آتے تھے اگر کوئی صحتیاب نہ ہوتا تو جان کی بازی ہار جاتا تھا مگر اب کیونکہ موت آنی نہیں تو مریض جو ناقابلِ علاج ہیں ان کا بوجھ بھی ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ حکومت کو شکایت کرتی ہے کہ اس کے پاس تو اب اتنی جگہ نہیں بچی کہ وہ مریضوں کو بستر فراہم کر سکے حتی کہ ہسپتال کی گیلریاں اور صحن بھی مریضوں کے بستر سے بھر چکے ہوتے ہیں۔ اس پر حکومت اعلان کرتی ہے کہ وہ مریض جن کے رو بصحت ہونے کا امکان نہیں ان کو ان کے گھر منتقل کیا جائے گا اور وہاں گھر کا ہی فرد ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ یہ اس گھر والوں کے لیے الگ سے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ گھر والے اپنے عزیز کو تکلیف میں دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے۔
اولڈ ہاؤسز والوں کے لیے الگ سے پریشانی کھڑی ہو جاتی ہے ان کے اوپر بھی اضافی بوجھ پڑ چکا ہے ور ان کا عملہ بھی الگ سے پریشان ہے کہ وہ بوڑھے اور بوڑھیاں جن کی شکل دیکھ کر ان کو کوفت ہوتی تھی اب وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ پھر اس کے بعد مزید بوڑھے بھی آ کر ڈیرے ڈالیں گے۔وہ بوڑھے جو زیادہ تنگ کرتے تھے ان کی موت پر ان سے متعلقہ مسائل بھی ختم ہو جاتے تھے مگر اب ناصرف ان کو رکھنا پڑے گا بلکہ نئے آنے والوں میں بھی اس طرح تنگ کرنے والے ہوئے تو یہ مزید پریشانیاں کھڑی کر دے گا
انشورنس اور بیمہ کمپنیوں کے لیے بھی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ موت کے خاتمے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ اپنی بیمہ پالیسیاں ختم کرنے کے لیے ان کے دفتروں میں امڈ آتے ہیں۔ یہ تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بیمہ کمپنیوں کے پاس ان کو واپس کرنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہوتے مگر یہ باقیوں کی نسبت ہوشیار نکلتے ہیں اور اپنی ایک نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہیں کہ جو شخص اسی سال کی حد کو پار کرے گا اس کو رقم پرمیم کے ساتھ ملے گی یوں ہی ایک سو ساٹھ سال والے کو ڈبل پرمیم ملے گا یوں یہ اپنے حالات کو اپنے حق میں موڑ لیتے ہیں۔ یہاں پر سرمایہ دارانہ سوچ کی بھی عکاسی ملتی ہے کہ کس طرح وہ بحران سے بھی اپنا مالی فائدہ نکال لیتے ہیں۔
جب موت کی رخصتی دنوں سے ہفتوں میں بدل کر طول اختیار کرتی ہے تو پورے ملک میں بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ اب ان کے پیارے جن کا صحت مند ہونے کا امکان تقریباً ختم ہو چکا ہے اب ہمیشہ اس بیماری میں رہیں گے اور ان کو موت نہیں آئے گی۔ یہ ان پیاروں کے لیے بھی تکلیف دہ ہوگا اور ساتھ ہی ان کے گھر والوں کے لیے بھی یہ تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ اس ہی وقت ایک متوسط گھرانے کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ایک بوڑھا اور اس کا ننھا نواسہ موت کے انتظار میں ایسی ہی تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہیں۔بوڑھا خود موت کا متمنی ہے جبکہ اس کا ننھے نواسے کے لیے بھی زندگی تکلیف کا باعث ہے۔ بوڑھے کی خواہش پر اس کا بیٹا اور باقی گھر والے ایک فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کو زندگی سے نجات دلائی جائے اس کا بیٹا اپنی بہن کو بھی اپنے بھانجے کے لیے رضامند کرتا ہے تو پھر یہ لوگ رات کے اندھیرے میں بوڑھے اور اس کے نواسے کو سرحد پار لیکر جاتے ہیں۔ موت کی جو رخصت ہے اس کا تعلق فقط اس ہی ملک کی سرحدوں کے ساتھ ہے دوسرے ممالک میں موت اپنے معمول کی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ تو خفیہ طور پر یہ گھرانہ اپنے دو پیاروں کو سرحد کے پار لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے جہاں یہ دونوں دم توڑتے ہیں ۔ ان کی رات کے اندھیرے میں ہی تدفین ہوتی ہے اور یہ رات کو ہی واپس آتے ہیں مگر ان کی یہ کاروائی راز نہیں رہتی جب اگلے دن بوڑھے کے بیٹے کو اس کا پڑوسی کہتا ہے کہ اس نے رات کو چھکڑے پر اس کو دیکھا اور اس نے چھکڑے پر ایک بوڑھا اور بچے کو لیٹا دیکھا۔ ناصرف وہ پڑوسی کے سامنے اعتراف کرتا ہے بلکہ علاقے کے پولیس اسٹیشن میں بھی یہ بات کرتا ہے جس کے بعد یہ خبر میڈیا کا حصہ بنتی ہے اور اس پر کئی روز لعن طعن ہوتی ہے اس کو بے رحم اور بے حسی کا ملزم ٹھہرایا جاتا ہے مگر کچھ روز بعد ہی لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو وہ ان ہی لوگوں کے کام پر غور کرتے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں کئی اور لوگ بھی اپنے پیاروں کا بوجھ اہسے ہی اتارتے ہیں۔ اس دوران ایک خفیہ تنظیم وجود میں آتی ہے جو پیسوں کے عوض لوگوں کے پیاروں کو سرحد پار لے جا کر زندگی کی اذیت سے نجات دلاتے ہیں اس دوران کئی دفعہ ان کا سرحدوں پر موجود اہلکاروں سے بھی تصادم ہوتا ہے جس میں ہمیشہ سرکاری اہلکاروں کو نقصان ہوتا ہے وہ موت کے منہ میں تو نہیں جاتے مگر زندگی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ خفیہ تنظیم اپنا نام ‘ماپیا’ رکھتی ہے اپنے آپ کو ‘مافیا’ کے نام سے بچانے کے لیے۔ حکومت پہلے تو کچھ مزاحمت کرتی ہے مگر جلد ہی اس کا خیال ہوتا ہے کہ ‘ماپیا’ کام تو ٹھیک کر رہی ہے۔ پھر ان کے درمیان معاملات طے پاتے ہیں کہ سرحدوں پر وہ اہلکار تعینات ہوں گے جو زیادہ فعال نہیں ہوں گے تاکہ ماپیا اپنا کام بآسانی کر سکے۔ یہاں سے مجھے اپنے ملک کا خیال آیا کہ کیسے ہمارے ارباب اختیار نے کچھ معاملات نان اسٹیٹ ایکٹرز کے حوالے کیے اور اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایسا ہی کچھ معاملہ یہاں ہوتا ہے کیونکہ یہ حکومت سوچتی ہے کہ بالآخر ہمارا ہی فائدہ ہو رہا ہے۔ حکومت کے اس عمل پر حزب اختلاف بھی تنقید کرتی ہے مگر اندرون خانہ وہ بھی ماپیا کی کاروائی پر مطمئن ہے۔
جیسے ہی ماپیا کی کاروائیاں بڑھتی ہیں تو پڑوسی ممالک اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور جلد ہی یہ کشیدگی میں بدل جاتی ہے جو تصادم کی صورت اختیار کرنے پر ہی ہوتی ہے تو پڑوسی ممالک کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے پاتا ہے کہ ماپیا ان کی سرحدوں میں لوگوں کو لا سکتے ہیں مگر جیسے ہی ان کی موت واقعہ ہو تو وہ مردے کو اپنے ملک میں دفن کریں۔ مگر جیسے ہی یہ سمجھوتہ طے پاتا ہے تو بہت سے لوگوں کا ارادہ بدل جاتا ہے کہ ان کے پیارے پہلے ہی کافی اذیت میں مبتلا ہیں ایک لمبا سفر جو سرحد کی جانب ہوتا ہے ان کو مزید تکلیف دیتا ہے۔ اس لیے اب وہ ان کو یہ تکلیف نہیں دیں گے۔ اس سمجھوتے کے نتیجے میں سرحدوں کے پاس کچھ ڈاکٹروں کی مانگ پیدا ہوتی ہے جو مردے کی تصدیق کریں۔
ساڑھے چھے ماہ کی رخصتی کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر جنرل کے دفتر میں ایک بنفشی رنگ کا لفافہ آتا ہے۔ یہ لفافہ لیکر کون آتا ہے ، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ مگر اس خط کے مندرجات اور پھر اس کے بھیجنے والی کے پراسرار دستخط اس کو ایک تجسس میں ڈال دیتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل اس خط کو براہ راست وزیراعظم کے پاس لیکر جاتا ہے وہ کسی اور سے اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ وزیر اعظم جب وہ خط دیکھتا ہے تو پہلے وہ اس کو مذاق سمجھتا ہے مگر بعد میں دونوں اس بات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں کہ اگر یہ سچ ہوا تو پھر کیا ہو گا۔ پھر سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل رات نو بجے کے خںرنامے میں اس کو خود پڑھے گا۔ یہ خط موت کی جانب سے ہوتا ہے جس میں وہ بتاتی ہے کہ لوگ جس طرح اس سے بیزار اور نفرت کرتے تھے امید ہے ساڑھے چھے ماہ اس کی عدم موجودگی نے ان کو احساس دلایا ہو گا کہ میں کتنی اہم اور ضروری ہو۔ موت اپنی واپسی کا اعلان کرتی ہے اور کہتی ہے کہ آج رات بارہ بجے کے بعد وہ پہلے باسٹھ ہزار پانچ سو لوگوں کو اپنی آغوش میں لے گی۔ لیکن اب اس نے اپنا طریقہ بدل لیا ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ آئندہ کے بعد کسی شخص کی جان لینے سے ہفتہ پہلے اس کو اطلاع دے گی تاکہ وہ اپنے معاملات درست کر لے۔ اس اعلان کے بعد وزیر اعظم اور ڈائریکٹر جنرل اب تک شش و پنج میں ہیں کہ یہ خط درست ہے کہ نہیں البتہ اعلان کے بعد مردے دفن کرنے والوں کا اجلاس ہوتا ہے جس میں ہنگامی طور پر ساڑھے باسٹھ ہزار مردوں کی تدفین کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہوتی ہے۔ موت کی عدم موجودگی کے باعث بڑھائیوں نے تابوت بنانے چھوڑ دئیے ہوتے ہیں لہذا موت نے ان کے کاروبار کو بھی متاثر کیا ہوتا ہے۔ فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر ابھی انتقال کرنے والے مردوں کو سادے تابوتوں میں دفنایا جائے گا۔ ابھی انجمن کا اجلاس جاری ہوتا ہے کہ بارہ بجتے ہیں اور انجمن کا صدر انتقال کر جاتا ہے۔ یوں موت کی واپسی ہو جاتی ہے۔
موت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے اور حسب وعدہ وہ اپنے ہدف کو ایک ہفتے پہلے بنفشی رنگ کا لفافہ پہنچا رہی ہوتی ہے۔ حکومت اور سیکورٹی اداروں کو موت کی تلاشی تجسّس پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ پہلے اس کا فرضی خاکہ بناتے ہیں بعد میں تین مزید ، یہ تمام خاکے خاتون کے ہوتے ہیں اور اس کی تلاش کے لیے پولیس اور دیگر ادارے بھاگ دوڑ شروع کرتے ہیں مگر موت کا ٹھکانہ معلوم ہوتا ہے اور نہ متعلقہ خاکوں تک رسائی ہوتی ہے۔ ایک دو لڑکیوں کا خاکہ ملتا ہے مگر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہ موت نہیں تو یہ بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا۔ موت کا کھیل کامیابی سے جاری ہوتا ہے کہ اس کو بھی ایک انہونی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ایک موسیقار کی موت کا پروانہ اس کو واپس وصول ہوتا ہے۔ پہلی بار تو موت کو یہ اتفاق لگتا ہے مگر جب دوسری بار اس کا لفافہ واپس آتا ہے تو موت کو اس کھٹکا لگتا ہے حتیٰ کہ تیسری دفعہ جب لفافہ واپس آتا ہے تو موت موسیقار کے گھر جاتی ہے جہاں وہ اپنے کتے کے ساتھ اکیلا رہتا ہے۔ اس جگہ مصنف نے موت کی پریشانی اور ذہنی کشمکش کا بھی بہت زبردست منظر کھینچا ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک زبردست تخیل تخلیق دیا ہے۔ جب موت سیلو نواز کے گھر جاتی ہے رات کے وقت وہ صوفے پر بیٹھی ہوتی ہے تو کتا اس کی گود میں لیٹ جاتا ہے مگر چونکہ اس کا تعلق انسانوں سے ہے اس لیے کتا موت کی آغوش میں لیٹ کر بھی زندہ رہتا ہے۔ پھر وہ موسیقار کے ریہرسل میں جاتی ہے۔ مگر موت کے لیے یہ موسیقار ایم پہیلی بن جاتا ہے۔ وہ سوچ میں پڑ جاتی ہے کہ آخر یہ موت کو چکما کیسے دے سکتا ہے۔ وہ معمولی سا سیلونواز ہے کوئی بڑا موسیقار نہیں۔ بالآخر جب اس تک اس کی موت کا لفافہ نہیں پہنچ پاتا تو موت فیصلہ کرتی ہے کہ وہ موسیقار کی موت کا لفافہ خود اس کو دے گی۔ وہ خوبصورت لڑکی کا روپ دھاڑ کر اس کے کانسرٹ میں جاتی ہے مگر وہ لفافہ نہیں دے پاتی۔ اس کی غیر معمولی خوبصورتی موسیقار کو بھی متوجہ کرتی ہے مگر جب موسیقار کی اس سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ موسیقار کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بالخصوص اس کی ابہام پیدا کرنے والی باتیں سیلو نواز کے لیے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ موت کے ایک ہفتے لیے انسانی روپ میں آئی ہوتی ہے مگر اب تک وہ سیلو نواز کو اس کی موت کا پروانہ نہیں دے پائی بالآخر ساتویں اور آخری وہ اس کے گھر جاری ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ موت خود موسیقار کی محبت میں مبتلا ہو چکی ہے۔
ناول کا اختتام بھی بڑا دلچسپ ہے جب موت موسیقار کو گلے لگاتی ہے تو پتہ چلتا ہے اگلے روز کوئی نہیں مرا۔
حوزے ساراماگو کا یہ ناول ایک عمدہ تخلیق ہے۔ یہ ان کی تخیلاتی پرواز کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ انہوں نے ایک ایسا منظر تخلیق کیا ہے جہاں ہر موت کے بغیر کاروبار زندگی کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس منظر کو ذہن میں رکھ کر جو تصویر سامنے آتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موت اس دنیا کے لیے کس قدر ضروری اور اہم عنصر ہے۔موت ہم سب کے لیے ایک ولن کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اگر یہ ولن دنیا کے منظر نامے سے غائب ہو جانے تو اس کی نتیجے میں ہونے والی مشکلات کس قدر سنگین ہوں گی۔ اس ناول کو پڑھنے کے دوران میں نے بھی ایک دو دفعہ موت کے بغیر دنیا کا تصور کیا تو مجھے مایوسی اور خوف کا سامنا کرنا پڑا۔ گو کہ بطور مسلمان یہ بات ہمارے عقیدے کا حصہ ہے کہ آخرت میں موت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ آخرت کی زندگی کے بارے میں ہم فقط قیاس ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ہم نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا مگر اس دنیا میں جہاں ہم رہ رہے ہیں اور پھر یہاں پر جس قدر ناہموار حالات ہیں۔ انسان ان کو ہموار کرنے کے لیے اپنی سی کوشش ضرور کرتا ہے مگر اس کے ساتھ یہ تسلی کہ بالآخر اس کو دنیا سے چلے جانا ہے بہت بڑا سہارا ہیں۔ پھر دنیا کے وسائل کو بھی سوچا جا سکتا ہے کہ موت نے کس قدر ان میں توازن قائم کر رکھا ہے۔ہمیں نظر آتا ہے کہ موت تلخ ضرور ہے مگر کاروبار حیات کو قائم رکھنے کے لیے لازمی بھی ہے۔
یہ ناول اصلاً پرتگیزی زبان میں لکھا گیا۔ یہ ترجمہ انگریزی ترجمے کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ میری نظر سے انگریزی ترجمہ بھی نہیں گزرا کہ اس پر کچھ کہہ سکوں مگر اُردو ترجمہ کافی رواں ہے اور میرے خیال سے مترجم نے مصنف کے اسلوب کی بھرپور ترجمانی کی کوشش کی ہے۔ اس کے مکالموں کے انداز بیاں سے نظر آتا ہے کہ میر صاحب نے ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔
یہ ناول ویسے تو دو سو سے بھی کم صفحات کا ہے مگر یہ اتنا جلدی ہضم نہیں ہوتا۔ میری پڑھنے کی رفتار تو ویسے بھی کم ہے مگر میری توقع سے بھی زیادہ اس نے وقت لیا بلکہ کئی دفعہ عدم توجہی کے باعث کچھ صفحات مجھے دوبارہ مکمل توجہ دیکر پڑھنے پڑے۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پڑھنے کے دوران اگر کہیں ذہن منتشر بھی ہو جائے تو اگلے صفحات میں جایا جا سکتا ہے مگر یہ ناول ایسی کتابوں میں سے نہیں ، ایک تو اس کا موضوع بڑا منفرد ہے دوسرا اس کا اپنا انداز جس میں رموز و اوقاف کی رعایت بھی نہیں برتی گئی تو اس وجہ سے بھی اس کے لیے یہ آسانی مہیا نہیں ہے۔
ویسے یہ ناول تو کارڈ کور پر ہے مگر اکادمی ادبیات نے اس کے لیے بہت عمدہ کاغذ رکھا ہے جس سے کتاب کو پڑھنے کا بھی لطف آتا ہے۔ گوکہ میں کتاب کے صفحات کے حوالے سے کبھی بات نہیں کرتا لیکن اس کتاب کے پڑھنے کے دوران اس کے کاغذ کا لمس مجھے بہت بھلا محسوس ہوتا رہا۔
راجہ قاسم محمود
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں