قوم کومزاج بدلنا ہوگا۔۔۔۔۔ سہیل احمد لون

مذہب کے نام پر ہماری قوم کو بڑے آرام سے بار بار بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ہماری عوام کے جذباتی مزاج سے سیاسی اور مذہبی رہنماء بخوبی واقف ہیں اسی لیے وہ اپنا کام بڑی آسانی سے کرتے جارہے ہیں۔ اس وقت بھی انقلابی بگل بجایا جا رہا ہے اور جذباتی عوام کو ایک بار پھر ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیاجا رہا ہے۔ ویسے تو میں اس بات پر بالکل کلیئر ہوں کہ  پٹھانوں اور سکھوں کے خلاف لطیفے بنانے کا باقاعدہ سیل انگریروں نے بنایا جس کا بنیادی مقصد دو جنگجو قوموں کو مسخرہ یا کم عقل بنا کر دوسرے لوگوں کے سامنے پیش کرنا تھا لیکن غلط العام اورغلط العوام نے اس کو روایت بنا دیا ہے اور انگریروں کے جانے کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج میں تشکیل دیاجانے والابھانڈوں پر مشتمل سیل آج بھی کہیں نہ کہیں کام کر رہا ہے۔لطیفہ سننا اورسناناعام سے بات ہے۔وزیر آباد کے ایک کالم نویس کی تو جہ شہرت اورناموری ہی لطائف ہیں جن سے وہ قارئین کو مسرور اور اپنے قائدین کو مسحور رکھتا ہے۔میں اپنے اس کالم میں مجبوراًًً  یہ لطیفہ شامل کر رہا ہوں اور اس کا مقصد صرف اپنی بات سمجھنا ہے نا کہ کسی قوم یا گروہ کی تذلیل کرنا۔دوستوں کی محفل میں بیٹھے کسی ایک دوست نے لطیفہ سنایاکہ تقسیم ہند کے بعد گاندھی جی کی قائداعظم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا”جناح ہم سے کبھی پنگا نہیں لیناکیونکہ ہمارے پاس ایسی قوم ہے جو سب کچھ کرنے کے بعد سوچتی ہے کہ اس نے کیا کیا ہے“۔قائداعظم نے مسکرا کر جواب دیا”مجھے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں میرے پاس بھی ایسی قوم ہے جو سب کچھ کرنے کے بعد بھی نہیں سوچتی کہ اس نے کیا کیا ہے“۔گاندھی کا اشارہ غالبا ًًً سکھوں کی طرف تھا جبکہ قائداعظم کا پٹھانوں کی طرف……! اگر وطن عزیز کی موجودہ حالت دیکھی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری عوام میں ایسی خوبی بھی ہے جو”سکھ یا پٹھان “دونوں قوموں میں نہیں پائی جاتی۔ ہم میں یہ خاص بات ہے جو شاید کسی قوم میں نہیں کہ ہمارے ساتھ جتنا مرضی غیر انسانی رویہ رکھا جائے، جتنی مرضی زیادتیاں کی جائیں، بنیادی حقوق کے حصول کیلئے ذلیل و خوار کیا جائے،انصاف کے نام سے کھلواڑ کیا جائے، مذہب کے نام پر نفاق ڈالا جائے، آمر جمہوریت کا ڈھول بجائے، جمہوری حکومتیں آمرانہ دھمال ڈالتی نظر آئیں، غریب بے قصور لوگوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جائے اور اشرافیہ، سرمایہ دار اور جرنیل طبقہ خود بلٹ پروف گاڑیوں اور ہائی الرٹ سیکورٹی میں زندگی بسر کریں، غریب اور امیر کے بچوں میں نصاب اور نظام تعلیم کا واضح فرق رکھا جائے، مہنگائی بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، طبی سہولتوں کا فقدان ملک میں سیلابی ریلے کی طرح غریب کا ستیا ناس کرتا رہے، ڈینگی کے خاتمے کی صرف ڈینگیں ماری جائیں، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز، او جی ڈی سی سمیت تمام بڑے ادارے تباہ کر دیے جائیں، زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹا،چینی،چاول کی قلت ہو جائے،آدھا ملک تو گنوا دیا اور باقی ماندہ کے ٹکڑے کرنے کی بین ا لا قوامی سازشیں ہو رہی ہوں، جس میں ہمارے اپنے نالائق اور بد دیانت آقا بھی اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے نظر آئیں مگر پھر بھی ہماری قوم ٹس سے مس نہیں ہو تی یہ نہیں بولتی، یہ دیکھ کر بھی نہیں دیکھتی، یہ سن کر بھی نہیں سنتی، یہ سب کچھ جان کر بھی نہیں سمجھتی،ان سے جیسا مرضی سلوک کر تے جاؤ مگر مجال ہے کہ ان کے صبر کاپیمانہ چھلک جائے۔ یہ اندھے، بہرے، گونگے اور سائیں ملنگ جیسی خصوصیت شاید دنیا میں کسی قوم میں نہ ہوں۔ اس سے بہتر تھا کہ ساری قوم ہی پٹھان ہوتی ……جو کچھ بھی ہونے پریا کچھ بھی کر کے بے شک نہ سوچتی کہ اس نے کیا کیا ہے۔ بیکار سے بیگار بھلی ……یعنی کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہوتا ہے۔ وزیروں اور ان کی خود سر اولاد غریب عوام کو تھپڑ مارتی ہے جسے کیمرے کی آنکھ نے کئی بار محفوظ کیا،مگرآفرین ہے…… اس سے زیادہ ظلم سہنے کی شکتی ہے اس قوم میں ……یہ تو جوتے کھا کر بھی یہی کہیں گے قدم بڑھاؤ۔۔۔ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے ہماری قوم کا کیامزاج ہے؟؟؟ہم اگر روزمرہ کی زندگی میں دیکھیں تو بعض افراد ایک خاص مزاج کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض لوگ نہایت سخت گیر ہوتے ہیں، بعض خود پرست، بعض مغرور اور کچھ حلیم الطبع، کوئی پر سکون اور کوئی ملنسار، اور کوئی منکسر مزاج ہوتا ہے۔ اسی طرح قوموں کابھی ایک مزاج ہوتا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گاکہ قوموں کا ایک مزاج بن جاتا ہے۔قوم کے مزاج کے متعدد پہلو ہو سکتے ہیں۔ جن میں دو قابل ذکر ہوتے ہیں۔بعض قومیں مزاج کے لحاظ سے جذباتی ہوتی ہیں اوربعض عقلی لحاظ سے۔ جذباتی قومیں وہ ہوتی ہیں جن کے بیشتر افراد اہم فیصلوں میں عقل سے زیادہ جذبات کو استعمال کرتے ہیں۔ عقلی قومیں وہ ہوتی ہیں جن کے افراد جذبات سے زیادہ عقل کو استعمال کرتے ہیں۔قوموں کا مزاج چند دنوں میں نہیں بنتا بلکہ اس میں صدیاں تک لگ جاتی ہیں۔جذباتی قوم کی پہچان زیادہ مشکل نہیں ہے اس کی کچھ علامات ہیں۔مثلاً جذباتی قومیں ان فنون کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں جن کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔یعنی موسیقی، شاعری،مصوری،فن تعمیر وغیرہ اور ان علوم سے اجتناب کرتی ہیں جن کا تعلق عقل سے ہویعنی فلسفہ، ریاضی، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ریسرچ وغیرہ۔ یہ قومیں حال کی تلخ حقیقتوں کو بھولنا چاہتی ہیں اور اس کوشش میں یاتو ماضی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں یا مستقبل کی طرف۔ یاتو اپنے درخشندہ ماضی کی حکایات و روایات کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتی ہیں اور خوش رہتی ہیں یاپھر کسی آنے والے دور کی امید لگائے بیٹھی رہتی ہیں کہ سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گااور گزرا ہو ا سنہری زمانہ پھر لوٹ کر آئے گا۔پوری قوم ایک قسم کی رومانیت کا شکار ہو جاتی ہے۔آہستہ آہستہ یہی رومانیت اور جذباتیت قوم کا مزاج بن جاتی ہے۔ذہنی اور فکری حالت پست ہو جاتی ہے اور قوم معاشی مسائل کا شکار ہو نا شروع ہو جاتی ہے۔ایک عام بے چینی، الجھن اور عدم تحفظ کا شدید احساس ہوتاہے لیکن اس کا مداوا سمجھ میں نہیں آتا۔اگر سمجھ میں آجاتا ہے تو ایسے علاج سوچے جاتے ہیں جو موجودہ حالات کے لیے ناقابل عمل ہوتے ہیں۔قوم کبھی ایک سراب کی طرف بھاگتی ہے کبھی دوسرے کی طرف اور جب کبھی پیاس نہیں بجھتی تو جھنجھلا جاتی ہے۔قوم کا مزاج جب جذباتی ہو جاتا ہے تو اس کے نتائج خطرناک اور دور رس ہوتے ہیں۔سب سے خطرناک یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قوم کی فیصلے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔فیصلوں میں عقل کم اور جذبات سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔اکثر صورتوں میں یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ پہلے کر لیا جاتا ہے،معلومات اور ان کا تجزیہ بعد میں کیا جاتا ہے۔یعنی فیصلہ تو کسی جذبے کے تحت کر لیا جاتا ہے اور پھر شعوری اور غیر شعوری طور پر وہی معلومات جمع کیں جاتیں ہیں جو اس فیصلے کی تائید میں ہوں۔جو حقیقتیں ان کو پسند نہیں ہوتیں ان کو نظر انداز کر دیاجاتا ہے۔متبادل امکانات کا تجزیہ صحیح طور پر نہیں کیا جاتا۔فیصلے کی موافقت اور مخالفت میں دلائل کا معروضی طور پر جائزہ نہیں لیا جاتا۔نہ اپنی طاقت کا صحیح اندازہ لگایا جاتا ہے اور نہ ہی دشمن کی۔یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے فوری نتایج کا ردعمل کیا ہوگا۔اسکے بعد عمل او ردعمل کاسلسلہ دور تک جاتا ہے۔فیصلہ کرنے والے تو زندہ یا برسراقتدار نہیں رہتے مگر اس کا خمیازہ آنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔صحیح فیصلے کرنے صلاحیت کبھی مناسب تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔کیونکہ تعلیم و تربیت کے ذریعے صحیح معلومات فراہم کیے جا سکتی ہیں اور ان کا تجزیہ کرکے نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔اس لیے تعلیمی نظام اور نصاب موجودہ دور کے ساتھ ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے۔پیغمبر اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے، چاہے اس کے لیے چین کاسفر کیوں نہ کرنا پڑے۔تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ تعلیم ماضی کے ساتھ حال کا بھی احاطہ کرے۔زمانہ حال کے مختلف ملکوں اور قوموں کے نظریات سے متفق ہونا ضروری نہیں مگر ان سے آگاہی ہونا ضروری ہے۔ورنہ تعلیم ناقص رہ جائے گی۔اسلام نے تو تعلیم کے معاملے میں نہایت وسیع نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔بہتر تعلیمی نظام انسان میں فکری آزادی پیدا کرتا ہے جو قوموں کو بڑے فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کا مزاج عقلی کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ فکر کا مقابلہ صرف فکر سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر فکر ناقص ہے تو خود اپنی نفی کر لے گی۔ اگر انداز فکر غلط ہے تو وہ اپنی طاقت کھو دے گا اور ایک دوسرا انداز فکر پیدا ہو جائے گا۔قوم کا مزاج چند دنوں میں نہیں بدلا جا سکتا اس میں کئی نسلیں یا بعض اوقات کئی صدیاں صرف ہو جاتیں ہیں لیکن کسی قوم کے مزاج کو انقلاب کے بغیر یکسر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ انقلاب کے لیے کم از کم ایک عدد رہنماء کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کو قوم بنا کر ان کے شعور کو بیدار کرے ان کو جذباتیت سے نکال کر عقلیت کی طرف لے جائے مگر اس وقت ہماری قوم کو انقلاب اور تبدیلی کے نام پر بھی استعمال کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ہماری عوام اس وقت انہیں مسائل کا شکار ہے۔ ہماری جذباتی قوم کا ٹیلنٹ ایس ایم ایس کرنے میں صرف ہورہا ہے، قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہم کو ایسے رہنما ملے جنہوں نے ایسا ماحول دیا کہ لوگوں کا شعور بیدار نہ ہو۔ اس وقت بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے سامنے کوئی خود سوزی کررہا ہو تو ہم اس کی ویڈیو بناکر بریکنگ نیوز بنانے کی دوڑ میں اول آنے کے چکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی جان کی کیا اہمیت ہے؟ بھرے ہجوم کے سامنے نہتے اور معصوم بچوں کو چوڑاہے پر تشد اور بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کی لاشوں کی ایسی ہے حرمتی کی جاتی کہ مسلمانیت کیا اس پر تو انسانیت بھی شرمندہ ہو جاتی ہے۔ اس مکروہ عمل کے پیچھے بھی ہماری “جذباتیت”کا رفرما ہے جو تحقیق کے بغیر ہی اپنا فیصلہ کر دیتی ہے۔ ہماری اسی جذباتیت کا فائدہ ہمارے لیڈر، ملاں، جرنیل اور سرمایہ دار طبقہ اٹھا رہے ہیں۔ جب تک ہم جذباتیت کے کنویں سے نکل کر عقل کے سمندر میں غوطہ زنی کے لیے چھلانگ نہیں لگائیں گے ہم غلامی کی زنجیروں میں ایسے ہی جکڑے رہیں گے اور نتیجہ یہی برآمد ہو گا کہ نہ کرنے سے پہلے سوچیں گے اور نہ کرکے سوچنے کی ”حماقت“۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply