کپاس (44) ۔ ٹیکنالوجی کی آمد/وہاراامباکر

ہندوستان میں ایک قصبہ خام گاوٗں کے نام سے تھا جو اچھی کپاس کے لئے شہرت رکھتا تھا۔ انگریزوں کی آمد سے دہائیوں قبل سے یہاں سے کپاس کو بیل گاڑیوں پر مرزاپور لے جایا جاتا تھا۔ مرزاپور سے اسے کشتی پر لاد کر دریائے گنگا سے کلکتہ لایا جاتا تھا۔
یہاں کے کسان کپاس کے علاوہ دیگر فصلیں بھی اگاتے تھے اور یہاں کے کئی لوگ دھاگہ بھی خود بنتے تھے۔ 1825 میں یہاں پارسی تاجر پستن جی نے اپنی کمپنی سیٹ کی تھی جو کپاس کو ممبئی لے جاتی تھی۔
برطانوی کالونیل انتظامیہ نے دیکھا کہ یہ کپاس اگانے کا اہم علاقہ بن سکتا ہے۔ کالونیل ریاست نے 1870 میں خام گاوٗں تک ریل کی پٹڑی بچھا دی۔ یہاں کے نو ہزار رہائشی ٹرین سے منسلک ہو گئے۔
جب ٹرین کا افتتاح ہوا تو وائسرائے خود آئے اور تقریر میں کہا، “ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ میں جاری مشکلات کی وجہ سے دنیا میں کپاس کا قحط ہے۔ آپ کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے۔ آپ کی حکومت آپ کی پوری مدد کر رہی ہے۔ ترقیاتی کام کئے جا رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف آپ کو بلکہ پورے ہندوستان کو خوشحال بنانے میں مدد ملے گی۔ غربت اور مشکلات کا خاتمہ ہو گا”۔
وائسرائے اس کے بعد کپاس منڈی گئے جہاں پر اس موقع کی یادگار میں محراب بنائی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلوے کے بعد ٹیلی گراف آیا اور برار برطانیہ سے براہِ راست لِنک ہو گیا۔ لیورپول سے آرڈر ڈائریکٹ بھیجے جا سکتے تھے۔ سویز نہر کھل چکی تھی۔ سٹیمر سے ممبئی اور لیورپول کا فاصلہ سمٹ کر صرف اکیس دن کا رہ گیا تھا۔
لنکاشائر کے صنعتکاروں اور لیورپول سے ممبئی تک پھیلے تاجروں کے اصرار پر ریاست کی طرف سے یہ بڑے پراجیکٹ برٹش انڈیا کی لچکدار عملیت پسندی تھی۔ ان کا اثر جلد ہوا۔ برار کا علاقہ بڑے برآمدی علاقہ بن گیا۔
بنجارے، (بیل گاڑیوں کے مالکان جو کپاس ٹرانسپورٹ کرتے تھے)، جولاہے اور کاتنے والے بے روزگار ہو گئے۔ کسانوں کی چاندی ہو گئی۔
اس علاقے کی شکل ہی بدل گئی۔
برار میں پیداوار 1880 کی دہائی کے آخر میں ریل آنے سے پہلے سے چار گنا ہو چکی تھی۔ اور بیسویں صدی کے آغاز میں یہ علاقہ پورے ہندوستان کی کپاس کا ایک چوتھائی پیدا کرتا تھا۔ یہ پیداوار پورے مصر کی پیداوار سے زیادہ تھی۔
برار کپاس کا ایک پرفیکٹ باغ بن چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان میں ایک اور پراجیکٹ کی ضرورت تھی۔ یہ زمین کے ملکیتی حقوق کا ٹھیک تعین اور ریکارڈ کا تھا۔ ہندوستان میں زمین کا کوئی ایک سسٹم نہیں تھا۔ مثلاً، برار میں سوشل سٹرکچر ایک سخت ہائیرارکی والا تھا۔ زمین کمیونیٹی کی تھی۔ اس کی پیداوار تقسیم کی جاتی تھی اور یہ سماجی رتبے کی بنا پر تھی۔ (یہ تقسیم جاگیردار کرتا تھا اور اونچی ذات والوں کو زیادہ حصہ ملتا تھا)۔ اور ایسے نظام ایکسپورٹ کلچر بنانے میں رکاوٹ تھے۔
برٹش راج نے زمینی سروے کئے، جاگیروں کے درمیان حدِ فاصل کھینچی گئی۔ زمین کا سرکاری ریکارڈ رکھنے کے سسٹم بنے۔
اس سے ایک طبقہ پیدا ہوا جو کھاتے دار تھا۔ ان کے پاس زمین تھی اور ٹیکس ادا کرنے کی ذمہ داری تھی۔ کھاتے دار کے پاس زمین تھی لیکن سرمایہ نہیں اور ان کا انحصار قرض پر تھا۔
زمین پر کام کرنے کے لئے مزارعے لائے جاتے تھے۔ سرمایہ ساہوکار سے ملتا تھا اور فصل بیچے جانے پر قرض واپس ہوتا تھا۔
زرعی پیداوار کے انقلاب سے سب سے زیادہ فائدہ پورے ہندوستان میں بڑے جاگیرداروں نے کمایا یا پھر ساہوکاروں نے۔ چھوٹے زمیندار اور مزراعوں کے لئے قرض اور غربت باقی رہی۔ یہ قرض بیج، اوزار اور فصل کی کٹائی تک اپنے لئے اناج کے لئے درکار تھا۔ ساہوکار کا نظام انگریز کی آمد سے بہت پہلے سے جاری تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نجی ملکیت کے ساتھ ملک بھر میں زراعت اور جاگیر پر ٹیکس کا نظام بنایا جا سکتا تھا۔ یہ ٹیکس کیش کی صورت میں وصول کیا جاتا تھا۔ اس سے پہلے لگان کی ذمہ داری افراد کی نہیں بلکہ پورے گاوٗں کی مشترک ہوا کرتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکاری مرکزی منصوبہ بندی کے تحت زرعی اصلاحات کی وجہ سے امریکی خانہ جنگی کے برس ہندوستان کے لئے خوشحالی کے رہے لیکن خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد عالمی منڈیوں میں کپاس کی قیمت گرنے لگی اور اگلے تیس برس تک واپس پہلے کی سطح پر نہ آ سکی۔ جس قیمت کی بنیاد پر حساب لگا کر منصوبہ بندی کی گئی تھی، وہ نہ ملنے کا مطلب یہ ہوا کہ فصل کافی نہیں تھی۔ اور چونکہ یہ کیش کی فصل تھی نہ کہ کھانے کی، اس لئے چھوٹے زمیندار قرض کے چکر میں پھنس گئے۔ ہندوستان میں 1890 کی دہائی میں کپاس کاشت کرنے والے علاقوں میں بڑے قحط آئے اور بڑی اموات ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاست کی طرف سے آنے والی زرعی اصلاحات ایک نیا طریقہ تھا۔ نیا انفراسٹرکچر، نئے قوانین، نیا ملکیتی نظام وہ تبدیلیاں لایا جن کا کچھ دہائیوں پہلے تصور مشکل تھا۔
ریاستی مداخلت کئی دوسرے طریقے سے بھی ہوئی۔ یہ انفارمیشن کی تھی۔ موسم اور مٹی کی کنڈیشنز کی سٹڈی کے بڑے ریکارڈ بنے، پیداوار کے ٹرینڈ اکٹھے ہوئے، بیج کی کوالٹی، زمین کے سرکاری ریکارڈ اور لیبر سسٹم جیسی چیزوں نے سرکاری دفاتر کی فائلیں بھر دیں۔ مقامی نالج اکٹھا کرنا اور متعلقہ نالج کو مقامی لوگوں میں تقسیم کرنے کا طریقہ وضع ہوا۔
سماجی اور قدرتی دنیا کی شماریات کا سٹاک لینا، اسے شئیر کرنا اور اس کی مدد سے پالیسی فیصلے لینا۔ یہ سب درکار تھا اور اسی وقت میں شروع ہوا۔
برٹش راج نے وسطی صوبوں اور برار کے لئے “کاٹن کمشنر” کے نام سے عہدہ 1866 میں شروع کیا جس کا کام کپاس کی پیداوار کی انفارمیشن اکٹھی کرنا تھا اور منصوبہ بندی تھا۔ ہیری ریوٹ کارناک کے نام سے ایک برٹش نے یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کی یادداشتوں سے “ میں گھوڑا گاڑی پر گاوٗں گاوٗں پھرتا رہتا۔ کہاں پر کاشت بہتر بنانے کے لئے کیا درکار ہے۔ کہاں پر مدد کیسے کی جا سکتی ہے”۔ کارنک کی طرح کے سرکاری اہلکاروں کے کاندھوں پر ہندوستان کے دیہی علاقوں کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری عائد تھی۔ 1873 تک اس کا دائرہ کار پورے ہندوستان میں اور دوسرے ریشوں تک بڑھا کر فائبر اینڈ سلک برانچ قائم کر دی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے ممالک نے برٹش راج سے راہنمائی لی۔ امریکہ نے وزارتِ زراعت قائم کی جس کا کام پہلے شماریات اکٹھا کرنا تھا۔ اس میں زرعی بیماریوں کی سٹڈی بھی شامل کر لی گئی۔ یہ سٹڈی بھی کہ مختلف اقسام کے ماحول میں کونسے پودے پر کیا اثر ہوتا ہے اور کیا خطرات ہوتے ہیں۔ نئے علاقوں میں پیداوار کو کیسے لے جایا جا سکتا ہے۔
مصر میں وزارتِ زراعت کا قیام 1919 میں ہوا۔ اور اسی ماڈل پر بلجیم نے کانگو میں یہ وزارت قائم کی۔ مصر نے ماڈل فارم بنائے۔
حکومتوں کے یہ پراجیکٹ ہمیشہ کامیاب نہیں رہے۔ مغربی ہندوستان میں دھاور میں کسانوں نے حکومت کے فراہم کردہ بیج کاشت کرنے سے انکار کر دیا۔ سوڈان میں 1877 کی خرطوم رپورٹ کے مطابق، “یہاں پر کوئی بھی کسان کپاس کی کاشت کو تیار نہیں”۔ برما اور آسٹریلیا میں برٹش پراجیکٹ ناکام رہے۔ آسٹریلیا میں ناکامی کی وجہ سستی لیبر کی قلت تھی۔ 1917 میں سڈنی ایوننگ میں مضمون، “جب تک چینی مزدور آسٹریلیا نہیں منگوائے جاتے، یہاں کاٹن کی پیداوار نہیں کی جا سکے گی”۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ تصویر میں پاکستان کا ریاستی نشان ہے جو 1954 میں اختیار کیا گیا۔ پاکستان کی زرعی شناخت دکھانے کے لئے اس میں چار زرعی اجناس کی تصویر ہے جو اس وقت اہم ترین تھیں۔ یہ کپاس، گندم، پٹ سن اور چائے ہیں۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان میں پٹ سن کا ریشہ اور چائے بڑی پیداوار تھیں جبکہ مغربی پاکستان میں کپاس کا ریشہ اور گندم۔ مشرقی پاکستان میں چائے اور مغربی پاکستان میں امریکی کپاس برٹش راج کی انیسویں صدی میں متعارف کردہ فصلیں تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply