بس یہی ہے انجام زندگی ۔۔!

آج بھی ایک روشن اور چمکدار صبح تھی، سورج پوری آب و تاب سے ایسے آہستہ آہستہ افق سے نمودار ہو رہا تھا جیسے دنیا کی تما م تاریکیاں پل بھر میں ختم کر دے گا۔ دن یوں شروع ہوا جیسے رات کی تاریکی کبھی تھی ہی نہیں۔ میں نے بھی جوش وخروش سے دن کا آغاز کیا تھا، ایسے جیسے دنیا میں مجھ جیسا خوش اورمطمئن کوئی ہے ہی نہیں۔حسب معمول ایک دو جاننے والے اپنے کاموں کے سلسلے میں کال کرنے لگے تو مجھے برا لگا اور میں نے ان کی کال اٹینڈ نہیں کی۔ البتہ میں نے سابقہ روایات کے تحت انہیں میسج کر کے اپنے مصروف ہونے کا یقین دلایا ۔ پھر ایک دو جگہ میں نے خود کام کے سلسلے میں فون کیا، وہ جن سے مجھے کام تھے ان سے وقت لیا۔سب کچھ ویسا ہی چل رہا تھا جیسے ہر روز ہوتا ہے۔ بہرحال اس صبح میں کچھ زیادہ ہی فارم میں تھا۔ دن بھر کا پروگرام میرے سامنے تھا۔ دفتر کی مصروفیات کے علاوہ کچھ سیاسی لوگوں سے ایک خاص ملاقات متوقع تھی۔ دن کا کھانا ایک کاروباری شخصیت کے ہاں طے تھا، اس کے بعد میٹنگ اور پھر ایک مقامی چوہدری صاحب کے ساتھ رات کے کھانے کا شیڈول بن چکا تھا۔ اس قسم کے خرافات دل میں ہوں تو انسان اپنے آپ کو فرعون سمجھنے لگتا ہے، اس کا پاؤں زمیں پر کم ہی لگتا ہے۔ اچھا بھلا آدمی بھی اس لمحے اکڑ جاتا ہے اور خود کو آسمان کی بلندیوں پر محسوس کرتا ہے۔ تب ارد گرد کھڑے لوگ اسے بونے نظر آتے ہیں۔

میں نے سب سے پہلے اپنی اکڑ کا بھرم رکھنے کے لئے گھر کے نوکروں پر چِلانا شروع کیا، مالی کے لیٹ آنے پر خوب برسا، چوکیدار کو بلاوجہ دو چار سنائیں، ناشتے میں نقص نکالے اور ڈرائیور کو جلدی سے گاڑی نکالنے کا حکم دے کر خود لان میں کھڑا ہو گیا، اچانک نظرحویلی نما مکان کی خوبصورت دیواروں پر پڑی تو آس پاس کے بھدے مکان زہر لگنے لگے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آس پاس رہنے والے سب مکان گر ا دیں تو میرا مکان کتنا اچھا لگنے لگے گا۔ دفتر پہنچ کر کام میں ایسا مصروف ہوا کہ دو گھنٹے تک سر اٹھانے کی فرصت بھی نہیں ملی۔ ایک تو ٹریفک کی وجہ سے تھوڑا لیٹ ہوا تھا کیونکہ سڑکوں پر چلنے والے پیدل لوگ اور موٹر سائیکل سوار ٹریفک کی روانی متاثر کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم جیسے معزز شہریوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب اوپر سے کام کا دباؤ، دل بوجھل بوجھل سا لگنے لگا۔ دو تین مرتبہ طیش میں آ کر عملے کو خوب ڈانٹا، لاپروائی، سستی اور کام چوری کی شکایتیں سن سن کر کان پک گئے تھے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں تو کم از کم ایسا نہیں ہوں۔

ایک بجنے میں کچھ وقت باقی تھا کہ ایک ساتھی نے کمرے میں آ کر پوچھا: لنچ کرنے چلیں؟
یہ آخری الفاظ تھے جو میں نے سنے کیونکہ دل کا بوجھ دماغ پر اثر انداز ہوتا محسوس ہو رہا تھا، ساتھ ہی کسی نے میری زبان پکڑ لی اور میرے سینے میں شدید درد نے انگڑائی لی۔ میرا کندھا اور گردن ٹوٹتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے، چند لمحوں میں میرا سارا جسم پسینے سے شرابور تھا، میں فرش پر جا گرا ، ارد گرد کی چیزیں دھندلی ہو گئیں۔

ایمرجنسی وارڈکے اس سائیڈ روم میں لیٹے ہوئے احمد کو پندرہ دن ہو گئے تھے۔ وہ اپنے ہارٹ اٹیک کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا، آنسو اس کے گالوں پر پھسل رہے تھے، میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگا کہ میری زندگی میں ایک خلا سا محسوس ہونے لگا ہے، خیالات کا ایک ہجوم مجھ پر ہلہ بول دیتا ہے۔ میں اپنے بچوں کے بارے میں سوچتا ہوں، جو ابھی پڑھ رہے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں جن سے زیادتی کی، جنہیں جان بوجھ کر نقصان پہنچایا۔ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔عجب مشکل ہے۔میں ایک بار پھر زندگی میں لوٹنا چاہتا ہوں ، جہاں سورج ویسے ہی آب و تاب سے نکلے اور میں اپنی زندگی کی تاریکیوں کو دفن کر کے نئے دن کا آغاز کروں۔

میں نے اس کا ہاتھ تھاما، اسے تسلی دی، اس کے لیے دعا کی اور رخصت ہو گیا۔مگر میرے ذہن پر ایک سوال بار بار دستک دے رہا تھا کہ زندگی کی حقیقت اگر صرف اتنی ہے کہ ایک لمحے میں وقت کے بڑے بڑے شہنشاہ ڈھیر ہو جاتے ہیں تو پھر دل احساس ومحبت کے جذبات سے بھٹک کیوں جاتا ہے؟ کیوں اختتامِ زندگی کی حقیقت انسان کے دل میں دوسرے انسان کا احساس پیدا نہیں ہونے دیتی؟ کیوں یہ حقیقت دوسرے کے لیے کچھ کرنے کے جذبے پر آمادہ نہیں کرتی؟ کیوں انسان خود غرض ہو جاتا ہے؟ سامان حیات میسر ہونے کے باوجود دوسروں کے حق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے؟ قدرت نے جب ہر مخلوق کے لئے بیش بہا نعمتوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں تو انسان کیوں روٹی کے چند ٹکڑوں کی خاطر دوسروں کی جان لے لیتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

انسان اپنی ذات کے لیے بہت سے خواب دیکھتا ہے اور ان خوابوں کی تعبیر کو ہی اپنی زندگی سمجھتا ہے۔بہت سی چیزوں کو حاصل کرنے کی تمنا کرتا ہے اور ان کو پا لینے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔اس طرح زندگی سے اعتدال اور توازن اٹھ جاتا ہے۔ حقیقتاً زندگی تو اللہ کی رضا کا نام ہے، فلاح انسانیت کا نام ہے،ب امقصد معاشرے کی تعمیر کا نام ہے، زندگی کا اصل مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ہم سے جڑے لوگوں کا فائدہ ہو۔اس ملک کا، اس قوم کا اور انسانوں کا فائدہ ہو۔ زندگی کا مقصد خدا کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہے، زندگی ایسی ہونی چاہیے جس سے اللہ بھی خوش ہو، مخلوق بھی دعا دے اور ملک و قوم بھی فخر محسو س کریں۔
ہمیں ایسا مقصد اپنانا چاہیے جس کے کرنے سے ہمیں سکون و اطمینان ملے، محنت، جدوجہد کر کے کچھ بھی آسانی سے نہیں ملتا۔ اپنے آپ کو سمجھ کر، سوچ کر ایک منظم راہ حیات اپنانا ہی اصل طریقہ ہے۔ ہمیں زندگی اس لیے تو نہیں دی گئی کہ ہم لوگوں کے دل دکھائیں، گالیاں دیں، زمین پر اکڑ کر چلیں، دوسروں کو کمتر سمجھیں۔ کوئی بھی نہیں سوچتا۔ سب اپنے کام میں مگن ہیں، اس بات کا احساس ہی نہیں کہ موت سر پر منڈلا رہی ہے۔

Facebook Comments

حماد گیلانی
یکم اپریل 1991 ء میں پیدائش ہوئی۔2008ء سے کالم لکھنے شروع کیے ۔آجکل روزنامہ جموں کشمیر کے علاوہ سٹیٹ ویوز ویب سائٹ کے لیے بھی لکھ رہا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply