ہندوستانی نظامِ تعلیم میں مولانا آزاد کی معنویت: خوشنما سلیم

مولانا آزاد ؒ جیسی نابغۂ روزگار شخصیتیوں کے لئے زمیں ہمیشہ ماتم کناں رہتی ہے ، اس لئے تو ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے ۔ مولانا آازاد ؒ ،ہندستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شاید ہندوستان میں اس وقت ان کا ہم پلہ کوئی نہ تھا، اگر تھا بھی تو تاریخ میں کوئی شواہد کیوں نہیں ؟ پنڈت نہرو ان کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے تبحر علمی کے معترف تھے اور قومی وملکی رائے پر رمزشناس ہوتے تھے۔ تعلیمی میدان میں آپ کی لامحدود خدمات بکھری پڑی ہیں ، ان کے کارنامے روشن اور تابناک ہیں ، انھوں نے ہی سب سے پہلے مفت پرائمری تعلیم کا بندو بست کیا ، اعلی و معیاری تعلیم کو فروغ دیا ۔ انھوں نے بحیثیت وزیر تعلیم سائنس و ٹیکنالوجی اور انسانی مسائل کی ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام تک پہنچایا ۔ انگریزوں کے زمانہ میں عام ہندستانیوں کو بس اتنی تعلیم دی جاتی تھی کہ وہ غلامانہ مشینری کا حصہ بن سکیں۔ مولانا آزاد ؒ نے ملک کو درپیش حالات اور تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تعلیم و سائنس کے میدان میں ترجیحات پیش کیں ۔ انہی کے زمانہ میں اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ، نیشنل آرکائیوز کا قیام عمل میں آیا ۔ تکنیکی تعلیم کا ادارہ (IIT)وجود میں آیا ، سائنسی و ٹیکنالوجی خصوصا خلائی سائنس ، جوہری توانائی کے میدانوں میں پیش رفت ہوئی ، گویا کہ سائنس اور ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا گیا ۔ ان کے زمانے میں فنون لطیفہ کو بھی خوب ترقی دی گئی ۔ ساہتیہ اکیڈمی ، للت کلا اکادمی اور نانک اکادمی کی بنیادیں ڈالی گئیں ۔ان سے جڑے فنکاروں کو قدر و منزلت اور باعزت مقام عطا کیا گیا ۔ اس طرح ملک سائنس ، ٹیکنالوجی ، آبی توانائی ، خلائی کھوج ، جوہری توانائی ، ماحولیاتی مطالعے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھتا گیا۔ آج ہمارے ملک کو جو عالمی شہرت و مقبولیت حاصل ہے ان سب کا سہرا مولانا ابو الکلام آزادؒ کے سر جاتا ہے ۔

اگرچہ مولانا آزاد ؒ مشرقی اور اسلامی علوم کے پروردہ تھے اور ان کی تعلیم اسی نہج پر ہوئی تھی ، مگران کا مزاج فلسفیانہ تھا۔ وہ قومی حمیت سے لبریز تھے ، رہ رہ کردرد ملت میں مبتلا ہوجاتے تھے ۔ وہ تقسیم کے مخالف تھے ۔لیکن جب مسلمان ملک پاکستان بن جانے کے بعد جوق در جوق پاکستان جانے لگے تو انھوں نے ۲۴/اکتوبر ۱۹۴۷ کو جامع مسجد کے منبر پر ایک پر تقریر کی ۔مولانا اس تقریر میں فرماتے ہیں کہ ’’عزیزو! تبدیلیوں کے ساتھ چلو ، یہ نہ کہو کہ ہم اس تغیر کے لئے تیار نہیں تھے ، بلکہ اب تیار ہو جاؤ ، ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے ، اس سے کرنیں مانگ لو ۔ اور ان اندھیری راہوں میں بچھا دو ، جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے ،میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کے مدرسہ سے وفاداری کا سرٹیفکٹ حاصل کرو ۔ یا پردیسی کی وہی زندگی اختیار کرو ، جو غیر ملکی حاکموں کے عہد میں تمہارا شعار رہاہے ۔ میں کہتا ہوں جو اجلے نقش و نگار تمھیں اس ہندستان میں ماضی کی یادگارکے طور پر نظر آرہے ہیں وہ تمھارا ہی قافلہ لایا تھا ۔ انھیں بھلاؤ نہیں ، انھیں چھوڑو نہیں ۔ ان کے وارث بن کر رہو اور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لئے تیار نہیں تو پھر تمھیں کوئی طاقت بھگا نہیں سکتی ۔ آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے ، ہم اس کے لئے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے‘‘ ۔

مولانا آگے فرماتے ہیں :’’ آج زلزلوں سے ڈرتے ہو ، کبھی تم خود زلزلہ تھے ، آج اندھیرے سے کانپتے ہو ، کیا یاد نہیں ! کہ تمہارا وجود ایک اجالاتھا ۔ یہ بادلوں کے پانی کی سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگنے کے خوف سے پائیجامہ اوپر چڑھا لیا، کیا یا د نہیں کہ تمہارے اسلاف ہی تھے جوسمندر وں میں اتر گئے، پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئی تو اس پر مسکرادیئے ، بادل گرجے تو اس پر قہقہوں سے جواب دیا ، صرصراٹھی تو رخ پھیر دیا ، آندھیاں آئیں تو ان سے کہا کہ یہ تمہارا راستہ نہیں‘‘ ۔

آخر یہ سب کیوں تھا ؟قومی درد محو آشنا کیوں تھا، یہ سب اسلئے تھا کہ اپنی قوم کو وہ بٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے ، اپنی تعلیمی و تہذیبی ثقافتوں کے میراث حصوں میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے ، اگر علامہ شبلی نعمانی نے محققین و مصنفین تیار کرنے کے لئے دارلمصنفین قائم کیا تو سرسید احمد خاں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی تو مولانا آزاد نے بحیثیت پہلے وزیر تعلیم علوم و فنون کی ترویج وسیع پیمانے پر داغ بیل ڈالی اور یونیور سٹی گرانٹس کمیشن ، سکنڈری ایجوکیشن کمیشن ، انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ سینٹر ، سینٹر کونسل فار فیزیکل ریسرچ سینٹر ، سینٹر کونسل فار کلچرل سینٹر جیسے اداروں کو قائم کیا۔مولانا آزاد ہمیشہ ایسی تعلیم کے لئے کوشاں رہے جس سے طلبہ کا ذہن کشادہ ہواور وہ تنگ نظری کی نحوست کا شکار نہ ہو ں، مولانا آزاد کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہندستان میں آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن قائم کیا ، ملک میں جو آج انجینئرنگ کالج اور ٹیکنیکل کالجوں کا وسیع جال نظر آرہا ہے ، وہ اسی کونسل کی دین ہے اور اسی کونسل کی کوششوں کاثمرہ ہے ، ملک کا سب سے پہلا انسیٹیوٹ آف ہائر ٹیکنا لوجی، ۱۹۵۱؁ء میں کھڑکپور انسیٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کے نام سے کھولا گیا تھا جس کی بنیاد مولانا ابو الکلام نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ میرا پہلا کام ٹیکینیکل تعلیم کی طرف توجہ دینا ہے تاکہ ہم خود کفیل ہو سکیں ، ہمارے بہت سے نوجوان اس تعلیم کو حاصل کرنے کے لئے غیر ممالک سفر کرتے ہیں، میں اس دن کا انتظار کررہا ہوں جس دن غیر ممالک کا نوجوان اس میں آکر تعلیم حاصل کرے ‘‘۔

مولانا آزاد مذہبی علوم اور عصری علوم کا حسین امتزاج تھے۔ اس لئے انھیں مذہبی علوم کی ضرورت کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی ضرورت کا بھی احساس تھا۔ ٹیکنالوجی و سائنس کی ترقیوں کو بھی وہ چشم کشا سے دیکھ رہے تھے ۔ انھوں نے اسی لئے سائنس کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے نمایاں کام کئے اور شانتی سروپ بھٹنا گر کی سربراہی میں اس کی شروعات کی۔ ہندستان ایک زرعی ملک ہے اس لئے زراعت کو جدید طرز پر ڈھالنے کے لئے انھوں نے انڈین کونسل فار ایگریکلچر اینڈ سائنٹفک سینٹر قائم کیا تھا ، طبی اور علاج و معالجہ کی ضرورتوں کے لئے اندین کونسل فار میڈیکل ریسرچ سینٹر کی بنیاد ڈالی۔

مولانا ابو الکلام آزاد ؒ نے روز اول ہی سے اپنے لئے نہایت غور فکر کے ساتھ ایک راستہ اختیار کیا تھا اوروہ راستہ تھا قوم کو تنزل و انحطاط کی کھائی سے نکالنا ۔ وہ زندگی کے سفر میں تاریخ کی کیسی کیسی آزمائشوں سے گزرے ۔ پرائے تو پرائے تھے، ان کا اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑدیا ، وہ ملت کی رہنمائی کے لئے اٹھے تھے۔ ایک ایسی ملت جو مذہبی رنگ میں رنگی نہ ہو ، جو وقت اور حالات سے بے قابو ہوکر زندگی کے نشیب و فراز میں گرفتار نہ ہو ، جو اعلی تعلیمی کردار سے آشنا ہو ، جو کہ ایک صدی سے زوال و انتشار میں مبتلا تھی ، وہ ایسی قوم کو آگے بڑھانے کی طرف گامزن تھے ، اس ملت کے لئے انھوں نے ایک خواب دیکھا تھا ۔ ایک روشن مستقبل کا خواب ۔ باوقار ، خوشحال اور تمام سعادتوں کی حامل زندگی کا خواب ۔ وہ ابھی چند ہی قدم چلے تھے کہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو خود کو تنہا پایا ۔ اس وقت انھوں نے آگے بڑھنا چاہا تو قوم نے ان کے آگے کانٹے پچھا دیئے ۔ انھوں نے تاریخ اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی تلقین کی لیکن قوم نے اپنی عقل و خرد کو مقفل کر لیا ، انھوں نے گم کردہ راہوں کو آواز دی ، مگر سننے والا کوئی نہ تھا ۔ان کی آواز ریگزاروں نے سنیں اور شاید آج بھی ہندستان کی فضاؤں میں گونج رہی ہے۔ ابو الکلام اپنا فرض نبھاتے رہے ۔ اس راہ پر چلتے رہے جس کو اپنے روز اول ہی سے منتخب کیا تھا ۔ وہ اپنے ہی قدموں کی آہٹ کو جرس کارواں سمجھتے رہے ۔ قوم کی آنکھیں کھلیں مگر اس وقت جب ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی زندگی کا ہر پہلو سے مطالعہ کریں اور پھر اس پر آج ہی سے قوم کے لئے ، ملک میں اپنی شناخت کو برقرار کھنے کے لئے از سر نو عمل پیرا ہوجائیں ، ان کے افکار و نظریات سے اہلیان ہند کو روشناس کرائیں اور خود بھی اس کو اپنی زندگی میں لائیں ، جس سے ہماری دنیا روشن ہو اور آخرت بھی تابناک ۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply