• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حکومت کا پارلیمان میں غیر پارلیمانی رویہ ۔۔۔۔ظفرالاسلام سیفی

حکومت کا پارلیمان میں غیر پارلیمانی رویہ ۔۔۔۔ظفرالاسلام سیفی

ایوان بالا ہو یاایوان زیریں حکومتی وزراء واراکین کے ناشائستہ وغیر مہذبانہ رویوں نے نہ صرف پوری ریاست بلکہ عالمی دنیا کے ایوان ہائے اقتدار پر بھی حیرت واستعجاب طاری کررکھا ہے۔دنیا کی شائدیہ وہ یکتا وبے نظیر حکومت ہے جو ابھی تک گذشتہ ادوار حکومت پر اپوزیشن کا رول پلے کررہی ہے۔ریاستی ادارے تاریخ کی بدترین ناتجربہ کاری سے دوچار ہیں،ایک ایسا طبقہ جو دوسروں پر سب کچھ کہنا اپنا حق جبکہ خود پردوسروں کی جانب سے ایک حرف کو بھی روا نہیں سمجھتا۔ایوان بالا میں چیرمین سینیٹ کی رولنگ کا تناظر کچھ اور نہیں یہی ہے۔
جمعرات پندرہ نومبر کو سینیٹ میں چیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو ایوان میں آکر اپنے غیر پارلیمانی رویے پر معافی مانگنی چاہیے،وہ جب تک معافی نہیں مانگتے رواں اجلاس کے لیے ایوان میں قواعد 13(3) رول (264) کے تحت انکے داخلے پر پابندی رہے گی۔اس سے قبل کرپشن کے عنوان پر وفاقی وزیر نے انتہائی درشت وتند لہجے میں اپوزیشن کی جملہ سیاسی قیادت کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے احتساب کا اعلان کیا،وزیر موصوف نے ایسا پہلی بار کیا نہ بظاہر آخری بار لگ رہا ہے،سپریم کورٹ میں چلتے کیسز جن کے حق ناحق ہونے کا فیصلہ ہونا باقی ہے کس بنیاد پر عنوان بحث بنائے جارہے ہیں۔حکومتی رویہ بتلارہا ہے کہ وہ اپوزیشن کی جانب سے ”خاموش رہ کر کام کرنے دو“ کی پالیسی سے نالاں ہے۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان سمیت جملہ وزراء اپوزیشن کو بارہا کینٹینر واحتجاج کی دعوت دے چکے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر غیر سنجیدگی کے اس مستوی پر کھڑایہ طبقہ فکر آج تک جان کیوں نہیں پایا کہ وہ حکمران ہے اور یہ کہ ریاستی امن وسکوں اور ملکی تعمیر وترقی کی ذمہ داری اسی کے سر ہے؟کیا سوائے اسکی کوئی وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ مسائل کے لا ینحل عقدے کے سلجھاو کے لیے اپنے آپکو نااہل سمجھتے ہوئے واپسی کا محفوظ وباعزت راستہ تلاشتے پھر رہے ہیں؟
مسئلہ اگر صرف فواد چوہدری کا ہوتاتو یہ پریشان کن معاملہ ہوتا نہ حساس…… المیہ تو یہ ہے کہ یہ رویہ جملہ حکومتی وزراء واراکین تو کیابجائے خود وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کا بھی ہے،سپریم کورٹ کے آسیہ مسیح فیصلے کے خلاف ہونے والے احتجاج پر موصوف نے جو لب ولہجہ اختیار کیا وہ کسی طور ملکی سربراہ کا تھا نہ ہوسکتا ہے،غیر معمولی ملکی حالات میں جو قیادت اپنے حواس پر قابو نہ پاسکتی ہو،کارکردگی بابت کیے جانیوالے سوالات پر سیخ پا ہوکر دیدہ دلیری پر اتر آتی ہواور اپنے سوا ہر پارٹی کی قیادت کو دشنام طرازی کا نشانہ بناتی ہو اسے قیادت کہا جاتا ہے نہ ایسے لوگوں کو حق اقتدار حاصل ہے،سوال مگر یہ ہے کہ حکومتی مستقبل اس غیر پارلیمانی رویہ کے ساتھ کیا ہے؟
ماہ اگست سے چلنے والے نئے پارلیمانی سال سے فلور آف دی ہاوس جس اشتعال انگیز ماحول سے دوچار ہے اسکی نظیر پارلیمانی تاریخ میں نہیں ملتی،قومی وصوبائی اسمبلیوں میں نئے خون کی شمولیت سے جس سطح کی جذباتیت درآئی وہ اپنی مثال آپ ہے،پارلیمنٹ کا ہر اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہورہا ہے،ایوان بالا اور پنجاب اسمبلی اس حوالے سے سب سے ذیادہ متاثر ہیں،کابینہ کے سینیٹ اجلاس بائیکاٹ کی صدائے باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ملکی کیا شائد عالمی دنیا کا یہ عجوبہ ہو کہ کوئی حکومت بجائے خود کسی ایوان کا بائیکاٹ کرنے جارہی ہو،کرپشن کے عنوان پر ریاست کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے،ایک مخصوص حلقہ سیاست کرپشن الزامات کی زد میں ہے،بہتی گنگا میں بہت سے ہاتھ دھونے کے بعد نہایت خاموشی سے حلقہ بگوش اقتدار ہوگئے ہیں جنہیں اب کسی نے پوچھنا ہے نہ انہوں نے رکنا ہے۔بلا امتیاز اور منصفانہ احتساب محل اعتراض ہونا چاہیے نہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا جو ہورہا ہے وہ بلاامتیاز ومنصفانہ ہے بھی کہ نہیں؟عدالت کو ابھی طے کرنا باقی ہے کہ کس نے کیا کیا اور کون کیسا ہے مگر حکومتی وزراء کا اصرار ہے کہ اپوزیشن قیادت بہر صورت کرپٹ ہے جسے اپنے دفاع میں کچھ کہنے کا حق حاصل ہے نہ انکا بولنا درست ہے۔
جس حکومت کی ترجمانی فواد چوہدری کی زباں سے ہو رہی ہو نجانے کیوں لگتا ہے کہ انہیں اخلاق وجمہوریت کا حوالہ دینا مضحکہ ہے،یہ سوال کہ آپ نے اب تک ملک کے لیے کیا کیا پر ارشاد ہوتا ہے تم نے ستر سالوں میں کیا کیا؟حضور ارشاد فرمائیے کہ آپکا انتخابی ایجنڈا کیا تھا؟گلی کے نکر پر کھیلتے بچوں کی طرح لڑنا ہی ہے تو کسی دنگل میں تشریف لے جائیے اور بھڑاس نکال کر لڑیے مگر ایوان کا ماحول خراب کرنے کے بجائے قوم پر رحم فرمائیے۔دہشت گردی صرف معاشی ہی نہیں سیاسی وپارلیمانی بھی ناسور ہے،اگر انہوں نے کرپشن سے ملکی خزانہ کو نقصان پہنچایا توآپ بھاری قومی خزانے سے چلنے والے ایوان کے تقدس کو پامال کرکے کونسا خیر کاکام سرانجام دے رہے ہیں؟ عوام کے نام پر کون نہیں جانتا کہ اپنی ہوس بجھائی جارہی ہے اور رہا قوم کا لفظ؟ تو وہ تو ہمیشہ پارلیمنٹ کے گراونڈ میں اس فٹ بال کی مثل رہا جسے اپوزیشن وحکومت مل کر ادھر سے ادھر ٹھوکرو ں سے نوازتے رہتے ہیں۔دامن اگر انکا آلودہ ہے تو آپکے پلو سے گرتے ہوئے پانی سے بھی فرشتے نہیں وضو کررہے،چیرمین سینیٹ کو غیر جانبداری کے مشورے بہت خوب مگر فرمائیے کہ آپکی انصاف پسندی اسوقت کیا تیل لینے چلی جاتی ہے جب پنجاب اسمبلی میں اسپیکر صاحب آپکے خلاف اٹھتی آوازوں کا گلا گھونٹنے میں مصروف ہوتے ہیں؟سینیٹ اجلاس کا ضرور بائیکاٹ فرمائیے تاکہ پارلیمانی تاریخ کا کوئی تو عالمی ریکارڈ بن سکے۔
اس تناظر میں سنجیدہ حلقے ملکی مستقبل کے حوالے سے نہایت فکر مند ہیں،سعودی وچینی رویے کے بعد ایس پی طاہر داوڑ کی شہادت پر افغانی رویہ بھی مستقبل کے الارمنگ خطوط کھینچ رہا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیاہمارے حکمرانوں کی داخلی طرز سیاست پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے،آئی ایم ایف کی جانب سے سردمہری اور دوست ممالک تک کی بے توجہی بتلارہی ہے کہ وہ برسراقتدار طبقے کو ملکی نظم کی تشکیل وتعمیر کے لیے کس قدر اہل سمجھتے ہیں۔ان حالات میں حکومت وقت کے لیے ضروری ہے وہ اپنی صفوں میں سنجیدگی پیدا کرے،غیرپارلیمانی عناصر کو اپنے سے دور کرتے ہوئے ریاستی سراسیمگی کا خاتمہ کرے،اپوزیشن کوفساد واحتجاج پر مجبور نہ کرے اور اسے ملکی استحکام وتعمیر میں اپنا معاون بنائے۔وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت فیصلہ کرے کہ اسے پاکستان کے ساتھ ہونا ہے یا فواد چوہدری وفیاض الحسن چوہان کے ساتھ۔یہ فیصلہ اب آپکو کرنا ہے کہ آپ لائن کے کس پار کھڑے ہیں۔

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply