• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی معاشرہ شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور انکا تدارک۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عمران آفتاب/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستانی معاشرہ شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور انکا تدارک۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عمران آفتاب/مقابلہ مضمون نویسی

اسلام جب جزیرۂ عرب سے نکلا تو فارس اور وسط ایشیا کے بعد جس خطے میں اسلام کو سب سے زیادہ زرخیز علمی ماحول میں ترویج حاصل ہوئی وہ یہیں بر صغیر میں ہوئی۔ سلاطین دہلی اور مغلیہ سلطنت کے علاوہ مختلف ریاستوں کے حکمران بھی علما و مشائخ کی سرپرستی کرتے رہے۔ اختلافی مسائل اس وقت بھی موجود تھے تاہم ان پر انتشار کا اثر موجود نہیں تھا۔ مگر 1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد یہ مسلکی تفریق نمایاں ہو کر سامنے آ گئی۔ علمی اختلافات نے باقاعدہ فرقہ واریت کی شکل اختیار کر لی۔ کچھ غیر محتاط اور متشدد فتاوی نے ایسی تقسیم کی بنیاد رکھ دی جو آج تک قائم ہے۔ اسی زمانے میں مکالمہ کی بجائے مناظرہ کی ریت پڑی جو کم تعلیم یافتہ عوام کے لیے ایک دلچسپی کا باعث بن گئی۔ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان علمائے دین غیر مسلم مذاہب کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد مناظرہ کی یہ روایت محض مسالک کے درمیان ایک پنجہ آزمائی کی صورت اختیار کر گئی. اپنے مسلک کا علم بلند کرتے کرتے اسلام کی محبت اور رواداری کی روح کہیں پیچھے رہ گئی۔ آج بھی یہ روائت دیہات میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ شہروں میں دنیاوی تعلیم آئی تو مذہبی شعور بھی بلند ہوا ۔ اب مناظرہ کے مناظر عموماً دیکھنے میں نہیں آتے لیکن برا ہو سوشل میڈیا کا، وہ باتیں جو ڈرائنگ روم سے نکل گئی تھیں وہ فیس بک کے چوراہے پر چسپاں ہو گئیں ۔ ماضی میں جہاں اکا دکا مناظرہ باز ہوتے تھے وہاں اب ایک پوسٹ یا کمنٹ پر سینکڑوں کی تعداد میں شمشیر بکف فیس بکی مناظرین و مجاہدین نظر آتے ہیں ۔ بنیادی طور پر برصغیر کے مسلمان کا مزاج مناظرانہ ہے اور ایک چھوٹی سی چنگاری کو آگ میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پاکستان کے قیام کے بعد مذہبی بنیادوں پر پہلی تحریک ، تحفظ ختم نبوت کے نام پر شروع ہوئی جس کا اختتام متشدد طریقے پر ہوا۔ 1954 میں عارضی طور پر مارشل لا کے نفاذ کے بعد یہ تحریک دبا دی گئی تاہم لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا۔ اسی دوران پاکستان میں ایوب خان نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ ادھر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک شروع ہو گئی۔ بنگال میں پر تشدد واقعات کا اختتام پلٹن کے میدان میں دسمبر کی ایک تاریک 16 تاریخ کو ہوا۔
لسانی بنیادوں پر ہونے والے سقوط ڈھاکہ کے بعد مذہبی بنیاد پر ایک بار پھر احمدی مسئلہ اٹھا ۔ پورے ملک میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں 1973 میں قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ مذہبی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کایہ عمل اس وقت خطرناک شکل اختیار کرگیا جب عالمی قوتیں پاکستان میں کود پڑیں۔ شیعہ سنی فسادات کا راستہ کھل گیا اور معاشرے میں مناظرہ کے بعد بات مباہلہ اور پھر مجادلہ تک پہنچ گئی۔ ایک جانب روس افغانستان میں گھس آیا اور دوسری سرحد پر انقلاب ایران برپا ہو گیا۔ افغان جہاد نے جہاں جنرل ضیاءالحق کے اقتدار کو دوام بخشا وہیں ملک کے اندر اسلحے اور منشیات کی ریل پیل ہو گئی۔ ملک میں جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں جنگلی کھمبیوں کی طرح اگنا شروع ہو گئیں۔ غیر ملکی ڈالروں سے مسلکی جنگ کا ایک خونی کھیل شروع ہو گیا۔ 80 اور 90 کی دہائی میں یہ انتشار اور تشدد اتنا بڑھ گیا کہ شیعہ سنی ایک دوسرے کو بر سر عام کافر قرار دینے لگے۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں دہشت گردی کا عفریت داخل ہو گیا۔
1989 میں افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے دوران ہی جہاد کشمیر اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ پاکستان میں کئی جہادی تنظیموں نے اپنے بیس کیمپ بنا لیے۔ دنیا میں دہشت گردی کے واقعات کا تعلق پاکستان میں موجود ان تنظیموں کےساتھ جوڑا جانے لگا۔ ان تنظیموں کا نیٹ ورک مشرف دور تک قائم رہا ۔ یہاں تک کہ ایک ہندوستانی طیارہ ہائی جیک ہو کر طالبان کے زیر انتظام کابل پہنچ گیا اور ہائی جیکرز نے یرغمال بنائے گئے مسافروں کے بدلے میں بھارتی قید میں موجود جہادی کمانڈروں کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔ ان دنوں پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اپنی آمریت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے میں کوشاں تھے۔ عالمی برادری چونکہ انہیں کارگل جنگ کا ذمہ دار سمجھتی تھی اور ساتھ ہی پاکستان میں جمہوریت کا سفر روکنے کا مجرم بھی قرار دیتی تھی ۔ لہذا ان کی آمریت کو جواز حاصل کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا تھا۔ لیکن اسی اثنا میں ادھر امریکہ میں نائین الیون ہو گیا۔ عرب نژاد اسامہ بن لادن کی القاعدہ اور افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف ایک کثیر الملکی اتحاد وجود میں آیا ۔ جس نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے مشرف سے مدد مانگی جو فوری طور پر مل گئی۔ یوں پاکستان کو اپنے جیو اسٹریٹجک محل وقوع کی بنا پر ایک مرتبہ پھر پرائی جنگ کا حصہ بننا پڑا ۔ کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد قرار پائے ۔ جہاد کشمیر اور افغانستان دونوں سے لاتعلقی کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر ریاستی عناصر یا نان سٹیٹ ایکٹرز نے پاکستان کے اندر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔
2005 سے 2014 تک پاکستان نے دہشت گردی کے خوفناک ترین حملوں کا سامنا کیا۔ آرمی پبلک سکول میں سو سے زائد معصوم بچوں کا وحشیانہ قتل، بربریت کا وہ بد ترین واقعہ تھا جس کے بعد دہشت گردی کے خلاف شروع کئے جانے والے جامع اور منظم آپریشن ضرب عضب میں تیزی آ گئی اور امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ۔ لیکن اسی دوران سیاسی میدان میں احتجاج کے لیے بار بار دھرنا دینے کی ریت پڑی جو بعد ازاں عدم برداشت کی ایک نئی صورت میں متشکل ہوئی۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی کاروائ ابتدا میں پر امن احتجاج تک محدود تھی۔ مگر ماڈل ٹاؤن واقعے سے اس میں حدت زیادہ ہو گئی۔ کینیڈا سے آئے طاہر القادری اور ان کے سیاسی کزن موجودہ وزیر اعظم کی جانب سے دھرنے میں غیر محتاط لہجے کے استعمال نے عدم برداشت کے ایک ایسے کلچر کو فروغ دیا جس کا مظاہرہ آج کل خادم رضوی اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے عمومی طور پر ہونے لگا ہے۔ سڑکوں کو بند کرنے سے جو کام شروع ہوا تھا وہ اب گاڑیوں اور املاک کی توڑ پھوڑ تک پہنچ چکا ہے ۔
کسی بھی قومی یا بین الاقوامی واقعے پر اپنے پیروکاروں کو اسلام کے نام پر اکسا کر کاروبار حکومت مفلوج کر دیا جاتا ہے۔ جس کے آگے بعض اوقات ریاستی ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔
معروضی حالات میں شورش کے علاوہ پاکستان میں عدم برداشت کی ایک اور اہم وجہ اس کی انتہائ حساس جغرافیائی حدود ہیں۔ اس وقت پاکستان کو تین اطراف سے خطرات کا سامنا ہے۔ ایران ، افغانستان اور بھارتی سرحد کی جانب سے مختلف اوقات میں انفلٹریشن جاری رہتی ہے۔
جس سے ملک دشمنوں کے لیے معاشرے میں انتشار پیدا کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غریب نوجوانوں کو مذہب ،زبان اور قومیت کے نام پر ورغلانا بہت آسان ہے۔ غربت ہی در حقیقت اکثر اوقات تمام برائیوں اور جرائم کی جڑ بنتی ہے۔
معاشرتی عدم مساوات ، لسانی بنیادوں پر تقسیم، کوٹہ سسٹم ، سہولیات اور تعلیم کی کمی، بیروزگاری میں اضافہ، اور سوشل میڈیا پر غیر محتاط رویے ، یہ عوامل بھی معاشرے کے پس ماندہ طبقات میں بے چینی کا باعث ہیں۔
کرپشن اور نا مساعد معاشی حالات میں غریب نوجوان با آسانی عدم برداشت کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں ۔مواقع کی کمیابی اکثر شارٹ کٹ کا راستہ دکھاتی ہے ۔ اور نوجوان کسی نا کسی ملک دشمن سرگرمی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ معاشرے سے عدم برداشت اور تشدد کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام عوامل کا خاتمہ کیا جائے۔ بات اب کمیٹیوں اور کانفرنسوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اتحاد امت یا مختلف قومیتوں کی وحدت کے نام پر کئے جانے والے سیمینار محض ہوٹلوں کا بوفے انجوائے کرنے کا ذریعہ تو ہو سکتے ہیں مگر عملی طور پر ان کا تاثر صفر ہے۔ جس اتحاد کا درس سٹیج پر علما کی جانب سے یا لسانی قائدین کی جانب سے دیا جاتا ہے، اب عملی طور پر اس کا اثر نظر آنا چاہیے۔ مدارس کے نصاب میں دوسرے فرقوں کے مسلمان کو نیچا دکھانے والے ابواب کہنے کو تعداد میں کم ہوں گے ۔ لیکن اپنی اثر انگیزی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ ان کا تدارک کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان سب کا ہے تو اس میں تعلیم و ترقی کے مواقع بھی ہر قومیت کو یکساں میسر ہونے چاہئیں ۔ کرپشن کا خاتمہ محض اپنے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کا نعرہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑیں پالنے والے حکمرانوں تک بھی اس مہم کے اثرات پہنچنے چاہئیں۔ بین الاقوامی سطح پر ملک کا ایک سافٹ امیج کھیلوں ، سیاحت اور فلموں کے ذریعے پہنچنا چاہیے۔
امن سے خوش حالی آتی ہے اور خوش حالی سے امن

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply