ملازمت پیشہ خواتین اور انکے مسائل

مرد عورت کسی بھی معاشرے کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں.اور دونوں میں سے کسی ایک کے کردار کو آپ معاشرے سے نکال کر نہیں پھینک سکتے۔ اگر ہمیں ایک صحتمند اور اچھا معاشرہ بنانا ہے تو ہمیں لازمی طور پر دونوں کو برابری کے حقوق دینے ہونگے۔ پوری دنیا میں آج منفی امتیاز کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں خواتین کو معاشرے میں آگے لایا جا رہا ہے اور انکو اونچے منصب نواز کے دنیا کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کے معاشرے میں صنفی امتیاز ختم ہو رہا ہے لیکن کیا آیا کہ واقعی ایسا ہو رہا ہے؟

آج ہم صرف خواتین کی ملازمت میں پیش آ نے والی مشکلات کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جب سے پاکستان بنا ہے یہی بات سننے کو ملی کے ہمارا معاشرہ “مردوں کا معاشرہ ہے”۔ یہ تو نہیں پتا کے پہلے پہل یہ کس نے کہا تھا؟ لیکن اگر ہم شروع سے لیکر آج تک اس نام نہاد مشرقی معاشرے کا جائزہ لیں تو بالکل ٹھیک کہا گیا ہے، کیونکہ یہاں کے مردوں کو عورت پر خوامخواہ اپنی برتری جتا نے کی عادت ہے، چاہے وہ گھر میں جتائے یا گھر سے باہر۔

کہتے ہیں کہ جب ایک مرد کمانے کے قابل ہوتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کے آسائشیں اور سہولیات گھر میں قدم رکھ دیتی ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم مشکلوں کا خاتمہ ضرور ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو آسائشیں اور سہولیات آئیں نہ آئیں لیکن مشکلوں کا آغاز ضرور ہو جاتا ہے، گھر والوں کے لیے نہیں بلکہ اس عورت کیلئے۔ پہلے تو اس ضمن میں یہ بات سن لیں کے یہ جو نام نہاد تنظیمیں عورت کواس بات پر اکساتی ہیں کہ عورت کو لازمی گھرسے باہر جا کہ مردوں کے برابر کام کرنا چاہیے تو یہ بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے۔ کیونکہ اگر آپکا شوہر اتنا کما لیتا ہے کہ آپکا گھر چل سکے اور آپکی ضروریات پوری ہو رہی ہوں تو کوئی ضرورت نہیں کہ آپ بلاوجہ گھریلو ذمہ داریوں سے دور ہوں۔ یہ سچ ہے کہ عورت کو اپنی بقاء کی جنگ گھر میں لڑنا اتنا مشکل نہیں جتنا مگرمچھوں کی دنیا میں رہنا اور وہ بھی ان سے بیر پالے بغیر رہنا.

یہ ٹھیک ہے کے ہمارے معاشرے میں اب صنفی امتیاز عام ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں اب کلاس فیکٹر بھی عام ہو گیا ہے اور خواتین کی ملازمت کے حوالے سے بھی یہ کلاس فیکٹر بڑی اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔ جسکا جتنا مضبوط بیک گراونڈ، اسے اتنی ہی عزت دی جاتی ہےاور جو خواتین نچلے درجے سے اٹھ کر گھر کے حالات سنوارنے کی کوشش کرتی ہیں، اسکی وجہ سے انہیں کیسے ذہنی اور جسمانی ٹراما (Trauma)سے گزرنا پڑتا ہے صرف وہی جانتی ہیں. یہ ٹراما چاہے ایگزیکٹو سے لیکر مینجر کی سیٹ سے ہوتا ہوا ان تک آئے یا پھر ساتھی کولیگز کے زریعے.

کچھ مرد عورتوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور ان پر بےجا پابندیاں لگاتے ہیں۔ دراصل وہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور نہیں چاہتے کے عورت کبھی بھی انکی برابری کرے. اکثر ریسٹورنٹ اور فاسٹ فوڈ والی جگہوں پر کام کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ ہمہ وقت ایک خوف سا محسوس کرتی ہیں کیونکہ انکی عام طور پر ڈیلینگ مرد حضرات سے ہوتی ہے اور ایسے میں وہ اپنا پروفیشنل انداز مسکرانے کے ساتھ برقرار نہیں رکھ سکتی ہیں۔ ایسے میں انہیں آسان ہدف سمجھ جانا ایک عام سی بات ہے جو کہ بالکل غلط ہے. ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اگر کوئی بھی خاتون گھر سے آفس تک یا آفس میں کسی بھی طرح ہراساں کی جاتی ہے تووہ پولیس کے پاس جانے اور شکایت درج کروانے میں بھی خوفزدہ رہتی ہےکیونکہ انکا خیال ہے کہ پولیس اسٹیشن کا ماحول انکے کام کرنےوالی جگہ سے بھی زیادہ جاہلانہ اور غیر مہذبانہ ہوتا ہے اور دوسرے لوگوں سے بھی زیادہ پھر پولیس انہیں تنگ کرنے لگ جائیگی۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ آفس سے لیکر پبلک ٹرانسپورٹ اور پولیس سٹیشن تک ہر جگہ مردوں کےاس معاشرے میں مردوں کا راج نظر آتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلئے ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں کہ مردوں کا یہ معاشرہ دراصل مگرمچھوں سے بھری دنیا ہے جہاں اگر آپ رہنا چاہتی ہیں تو بجاۓ ڈرنے اور ہراساں ہونے کے آپ میں اتنی ہمت ہونی چاہیے کے غلط کو غلط کہ سکیں اور غلط بات کو برداشت کرنا خود اپنے ساتھ نا انصافی کرنا ہے۔ اگر آپ ایک مرتبہ برداشت کرینگی تو آپکو دوسری دفعہ، بلکہ ہمیشہ کے لیے خوفزدگی کا سامنا کرنا پڑیگا. اگر آپکو آفس یا باہر کہی بھی کسی بھی قسم کی ذہنی یا جسمانی خوفزدگی سے گزرنا پڑتا ہے تو اسکا ذکر اپنے گھر والوں یا کسی دوست سے ضرور کریں تاکہ آپکو اچھا مشورہ اور رہنمائی ضرور مل سکے اور ہو سکتا ہے آپکی مشکل کا کوئی حل نکل آئے.
جہاں تک ہو سکے دوسرں پر اعتبار مت کریں کیونکہ کسی کے چہرے پر کچھ نہیں لکھا ہوتاکہ وہ کیسا ہے۔

Facebook Comments

صبا ء فہیم
نہ میں مومن وچ مسیتاں نہ میں وچ کفر دی ریت آں نہ میں پاکاں وچ،پلیت آ ں نہ میں موسیٰ نہ فرعون کیہ جاناں میں کون ؟؟؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply