• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گلگت بلتستان کی غیرت بریگیڈ اور آزاد خیال طبقہ۔۔۔قمر عباس

گلگت بلتستان کی غیرت بریگیڈ اور آزاد خیال طبقہ۔۔۔قمر عباس

حالیہ دنوں گلگت بلتستان میں صنم بلوچ نےاپنے ٹی وی چینل کے لئے ایک کلچرل پروگرام کا انعقاد “سرینا ہوٹل گلگت”میں کرایا اور اس پروگرام میں گلگت بلتستان کی خوبصورتی ، ثقافت اور کلچر کو اجاگر کیا گیا۔۔اور اس پروگرام میں جس میں گلگت بلتستان کی چند لڑکیوں نے ایک گانے پر “مخلوط ڈانس” پرفارم کیا جو سوشل میڈیا اور عوام میں کافی زیر بحث رھا۔۔۔بدقسمتی سے کافی سارے لوگوں نے ان لڑکیوں کو سوشل میڈیا میں “بدکردار” کا خطاب دیا اور گلگت بلتستان کے مولوی حضرات نے بھی ان لڑکیوں کے ڈانس پر اعتراضات اٹھاۓ۔۔صرف مولوی ہی نہیں بلکہ وہاں کا ایک پریشر گروپ(عوامی ایکشن کمیٹی) بھی اس ایشو پر کود پڑا اور اس حوالے سے پوری ایک پریس کانفرنس  داغ  ڈالی اور اس “مخلوط ڈانس” کی مذمت کی گئی۔ حالانکہ اس کمیٹی کا کام گلگت بلتستان کے سیاسی و معاشی مسائل کے حوالے سے کام کرنا تھا نہ کہ ان لڑکیوں کے ڈانس کو ایشو بنا کر پریس کانفرنس کرنا تھا۔۔ اور ایک صاحب نے تو حد ہی کر دی اور اس پروگرام اور لڑکیوں کے ڈانس کے خلاف FIR بھی مقامی تھانے میں درج کرائی۔۔۔ اب مجھے اس موقع  پر مشہور فرانسیسی فلاسفر ، رائیٹر اور ہسٹورین Voltaire یاد آۓ جنہوں نے کہا تھا

Let us dance,& let us read these two amusements will never do any harm to the world

اب اس پورے معاملے کو دیکھا جاۓ تو آپ کو دو طرح کے طبقے ملیں گے۔ ایک طبقہ” غیرت بریگیڈ” کا ہے اور دوسرا طبقہ “آزاد خیال” لوگوں کا ہے۔۔ “غیرت بریگیڈ ” طبقے کا یہ موقف ہے کہ اس “مخلوط ڈانس” سے گلگت بلتستان کی ثقافت متاثر ہوئی اور ہماری ثقافت اور اسلام ہمیں اس چیز کی اجازت نہیں  دیتا اور مخلوط ڈانس حرام ہے ۔۔۔ اب اس طبقے سے میرے چند سوالات ہیں

1)اگر لڑکیاں اپنی مرضی سے ڈانس پرفارم کرے اور ان کے والدین ان کو یہ اجازت دیں دے تو پھر آپ کو ان کی غیرت کا ٹھیکا کس نے دیا ہے؟اور آپ کو اس بات کا علم ہونا چاہیۓ کہ وہاں پہ وہ لڑکیاں اپنے والدین سے اجازت لے کر آئی تھیں۔۔

2)کیا یہ بات سچ نہیں  کہ حقوق کی تلفی , سیاسی محرومی ، آزادی اظہار پر لگی پابندی , سیاسی قیدیوں کی پابند سلاسل ہونے   پر فوت ہو جانے والی “غیرت بریگیڈ” عورتوں کے ثقافتی رقص پر فورا” جاگ اٹھتی ہے؟؟؟

3)کیا ثقافت ایک “جامد” شے ہے؟؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے اور آپ کے آباؤاجداد کبھی بدھ مت تو کبھی پولی تھیسٹ تو کبھی کسی اور مذہب اور ثقافت کے زیر اثر رہے ہیں ؟ ہماری  ثقافت میں پہلے “شکا” اور”تھوٹی” پہنا جاتا تھا اب زیادہ تر لوگ جینز اور پینٹ شرٹ پہنتے ہیں؟؟ اور یہ کیا سچ نہیں  کہ ہمارے شادی بیاہ میں جو “رسومات” ہیں اب انڈین کلچر سے جا کے ملتے ہیں؟ اور رفع حاجت کے لئے پہلے “چکن” ہماری ثقافت میں شامل تھا اور اب پورے گلگت بلتستان میں باتھ روم سسٹم استعمال ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ثقافت کوئی  جامد شے نہیں  بلکہ وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی ممکن ہے۔۔۔

4)کیا یہ بات سچ نہیں  کہ ہماری ثقافت میں عورتوں پر پابندی تھی کہ وہ کوئی  بھی سرکاری اور پرائیوٹ ملازمت اختیار نہیں  کر سکتی اور گلگت بلتستان کے ہر فرقے کے لوگ اس چیز کو برا سمجھتے تھے۔۔ اللہ بھلا کرے اسماعیلی کمیونٹی کے لوگوں کا کہ جب ان کی عورتیں تعلیم حاصل کرنے لگیں اور مختلف شعبوں میں کام کرنے لگیں تو پھر ان کا دیکھا دیکھی باقی فرقوں کے لوگوں نے بھی تعلیم اور ملازمت کی اجازت دی اور اب گلگت بلتستان کے تمام لوگ بھلے ان کا lower class سے ہی تعلق کیوں نہ ہو اپنے بچیوں کو انگلش میڈیم سکولز و کالجز میں پڑھا رہے ہیں۔۔۔۔

5) کیا یہ بات سچ نہیں  کہ چند سال پہلے گلگت بلتستان میں قتل و غارت گری اور فساد کا بازار گرم تھا؟؟ اور کیا یہ بات سچ نہیں  کہ بلواسطہ یا بلا واسطہ اس کی تمام تر ذمہ داری مولویوں پر عائد ہوتی ہے اور ہماری بدقسمتی ہی یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ “مولوی” حضرات کو زمینی خدا سمجھتے ہیں اور لوگ ضرور PHD ہولڈر کی بات کو رد کریں گے لیکن “مولوی” کی بات کو حرف آخر ہی سمجھیں گے۔۔۔ تو پھر ایسے ماحول میں “غیرت بریگیڈ” کا ابھرنا اور فتوہ بازی اور گالیاں دینا کوئی  مشکل نہیں  ہے۔۔۔

6) کیا یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں  کہ kiu یونیورسٹی کے پی آر او نے پہلے دن اس “مخلوط ڈانس” کو شاندار پرفارمنس قرار دیا اور اگلے ہی دن “غیرت بریگیڈ” کی فتوہ بازی کی وجہ سے پریس ریلیز یونیورسٹی کی ویب سائیٹ سے ہی ہٹا دی گئی؟؟ اور ساتھ ساتھ پہلے دن ٹوریزم منسٹر نے بھی اسے خوش آئند قرار دیا تھا اور بات میں اپنے بیان سے مکر گۓ۔۔۔

7)کیا یہ حقیقت نہیں  کہ گلگت بلتستان کے صحافی حضرات نے تمام اخباروں میں رپورٹ کیا کہ لڑکیوں نے گلگت بلتستان کی ثقافت کو پروموٹ کیا اور اگلے ہی دن “غیرت بریگیڈ” کی وجہ سے اخباروں میں لڑکیوں کی مذمت کی گئی؟؟؟

8)کیا یہ حقیقت نھی کہ kiu یونیورسٹی میں بہت ساری لڑکیوں نے ٹیچرز کے خلاف “ہراسمنٹ” کے الزامات لگائے  اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی انکوائری ہوئی اور مزہ تو تب آتا جب “غیرت بریگیڈ” اس ہراسمنٹ کے حوالے سے Kıu یونیورسٹی میں احتجاج کرتی؟؟؟ لیکن افسوس انہوں نے ایسا نہیں کیا۔۔

9)کیا یہ سچ نہیں  کہ گلگت بلتستان کے ایک صحافی نے “سیکس سیکنڈل” کو سامنے لایا اور گلگت بلتستان کے وزراء پر الزام عائد کیا کہ یہ وزراء گلگت بلتستان سے لڑکیوں کو نوکری اور ملازمت کا جھانسہ دے کر اسلام آباد لے آتے ہیں اور ان کے ساتھ زیادتیاں کرتے ہیں؟؟؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ “غیرت بریگیڈ” اس حوالے سے احتجاج کرتی اور عوامی ایکشن کمیٹی یہاں بھی پریس کانفرنس داغ  دیتی؟؟؟

10)کیا یہ حقیقت نہیں  کہ گلگت بلتستان میں حسنین جیسے معصوم بچوں کے ساتھ rape ہوا اور اس کے بعد قتل کر دیا گیا۔۔ گلگت بلتستان میں صرف حسنین ہی  نہیں بلکہ اس جیسے دوسروں معصوم بچے اور بچیوں اور عورتوں کے ساتھ ریپ کے واقعات رونما ہوۓ؟؟؟ ان تمام واقعات میں “غیرت بریگیڈ” کہاں کھڑی تھی؟؟؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس حوالے سے یہ لوگ تب تک احتجاج کرتے جب تک حکومت کوئی ٹھوس قانون نہ بناتی اور ان “غیرت بریگیڈ” کا کوئی  رول بتا دیں جس کی وجہ سے ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا ہوئی؟؟؟

ان تمام سوالوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اب تک اس حساس معاملے کے حوالے سے “جی بی گورنمنٹ” کا کوئی  بیان سامنے نہیں  آیا حالانکہ ان کو اس واقعہ کا ازخود نوٹس لے کر اپنی پوزیشن کو واضح کر دینا چاہیۓ تھا جو کہ اب تک نہیں  ہوا۔ چونکہ ان لڑکیوں کا تعلق ” اسماعیلی کمیونٹی” سے تھا تو اس لئے ” اسماعیلی ریجنل کونسل گلگت ” کا بیان بھی حیران کن ہے جنہوں نے اس ڈانس سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ “غیرت بریگیڈ” کے خوف کی وجہ سے یہ لوگ بھی کھل کر سامنے نہ آ سکے اور ان کے سامنے “کونسل” بھی نہ ڈٹ سکی۔۔

اب دوسرا طبقہ ” آزاد خیال” لوگوں کا ہے جن کا ایمان ھے کہ عورت خود مختار ھے اپنے فیصلے خود ھی کر سکتی ھے اور جب یہ “آزاد خیال”لوگ عورت کی خود مختاری کی بات کرتے ھیں تو انھیں بھی ثقافت اور مزھب کا سہارا لے کر گالیاں بکی جاتی ھے اور اس کا ثبوت یہ ھے کہ گلگت بلتستان سے ہی تعلق رکھنے والے اسماعیلی کمیونٹی سے ہی تعلق رکھنے والے couple کو بھی نہ بخشا گیا جنہوں نے سوشل میڈیا میں اپنے ایک ویڈیو پیغام میں “غیرت بریگیڈ” کو سمجھانے کی کوشش کی کہ عورت خود مختار ھے اور اس کے ڈانس سے نہ ھی اسلام خطرے میں ھے اور نہ ہی گلگت بلتستان کے کلچر پر کوئ آنچ آۓ گی۔۔لیکن ان کی ایک نہ سنی گئ اور غلیظ غلیظ گالیاں بکی گئ اور جو آزاد خیال لوگ ھیں ان کو بھی سوشل میڈیا میں گالیاں بکی گئ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رھا ھے۔۔ کسی کو یہ حق حاصل ھی نھی کہ ایک دوسرے پر تنقید اور فتوہ بازی کریں اس سے معاشرہ انارکی کی طرف جاۓ گا ۔۔۔۔ کاش ان کو یہ سمجھ آ سکیں کہ “چند لڑکیوں کے ڈانس سے نہ ہمارے اور آپ کے اسلام کو کچھ فرق پڑے گا اور نہ ہی گلگت بلتستان کا کلچر خطرے میں آۓ گا۔۔۔ بلکہ گالیوں اور فتوؤں کی وجہ سے مزید معاملات بگڑے گے اور اس سے نہ ھی گلگت بلتستان میں بسنے والے تمام لوگ متاثر ہوں گے بلکہ ملک میں بسنے والے تمام محب وطن پاکستانی بھی زد میں آۓ گے۔۔۔لہذا ایسے ایشوز کو جب چھیرا جاتا ھے تو پھر حکومت وقت کا یہ فرض بھی بنتا ھے کہ اس چیز کو کلئرفائ کرے اور اپنی پوزیشن واضح کرے۔۔۔ لیکن افسوس حکومت وقت اب تک اس حوالے سے بلکل خاموش تماشائ بنی ہوئ ھے۔۔اور اگر ایسے واقعات کو گلگت بلتستان میں سیرئس نہ لیا گیا تو کل کو خدا نخواستہ کوئ ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ھے۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply