باپ بیٹے کی پریس کانفرنس اور سیاسی حکمت عملی

طاہر یاسین طاہر
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو شدید سیاسی نقصان پہنچا،اگرچہ محترمہ کی شہادت کے بعد وفاق میں پیپلز پارٹی اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔جنرل مشرف کو رخصت کیا۔لیکن کئی مسائل سر اٹھائے کھڑے تھے،جن میں سے توانائی کا بحران سب سے اہم تھا۔اس بحران کو حل کرنے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ناکام رہی۔دہشت گردی کا عفریت منہ کھولے ہوئے تھا اور تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ملک بھر میں خود کش حملے ہو رہے تھے۔لوڈشیڈنگ 18 سے 20 گھنٹے تک ہو رہی تھی جبکہ سی این جی کی لوڈشیڈنگ ہفتہ میں 3 دن ہوتی تھی۔آصف علی زرداری صد مملکت تھے اور ان کی ساری توجہ آئینی مدت پوری کرنے پر لگی ہوئی تھی۔
اسی دوران میمو گیٹ سکینڈل،اور پھر افتخار محمد چودھدری کی عدالت سے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی پیپلز پارٹی کی سیاست کے لیے کڑا امتحان تھا۔نون لیگ نے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی مبینہ کرپشن کہانیاں سنانا شروع کر دی تھیں۔اگرچہ سابق صدر زرداری نے اپنی سیاسی مفاہمتی پالیسی کے ذریعے پیپلز پارٹی کی حکومت کی آئینی مدت تو پوری کرا دی مگر اس مفاہمی سیاست نے پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو سخت مایوس کیا۔کیونکہ پیپلز پارٹی کے کارکن اورووٹر کی سیاسی تربیت مزاحمتی سیاست کی ہے۔2013 کے انتخابات میں سوائے نون لیگ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام و پی ٹی آئی ،کےدہشت گردوں نے پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے این پی کو عوامی جلسے نہ کرنے دیے۔ یعنی بائیں بازو کی مذکورہ تینوں جماعتوں کے عوامی جلسوں پر خود کش حملوں کی دھمکیاں دی گئی تھیں، حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کو اس وقت ملتان سے اغوا کر لیا گیا جب وہ ایک کارنر میٹنگ میں شریک تھے۔اپنی سیاسی غلطیوں،مفاہمتی پالیسیوں،توانائی بحران پہ عدم توجہ وغیرہ کے باعث پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن جیتنا ممکن نہ تھا۔
نون لیگ نے اپنا الیکشن لڑا ہی دو نکتوں پر۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور دہشت گردوں سے مذاکرات۔اس امر میں کلام نہیں کہ نون لیگ نے اپنے انتخابی ایجنڈے پہ آتے ہی کام شروع کر دیا تھا۔لوڈشیڈنگ بلا شبہ نون لیگ کے دور میں کم ہے۔ اگرچہ بحران موجود ہے اور شنید ہے کہ2018 کے آخر میں بھی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو سکے گی۔نون لیگ نے لوڈشیڈنگ کیسے کم کی؟بجلی کی پیداواری کمپنیوں کو ادائیگیاں کر کے۔جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا۔نون لیگ کا دوسرا ایجنڈا دہشت گردوں سے مذاکرات تھا اور یہ مذاکرات شروع بھی کر دیے گئے تھے کہ دہشت گردوں نے پاک فوج کے جوانوں کے گلے کاٹنے اور پھر کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا۔اسی دوران میں اے پی ایس پشاور کا المناک واقعہ بھی پیش آگیا اور نون لیگ و اس کی فکری و نظریاتی جماعتوں کو اس آپریشن کی حمایت کرنا پڑی۔2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب میں بری طرح ناکام ہوئی۔اس کے باوجود پارلیمان میں اپنا اپوزیشن لیڈر بنانے میں کامیاب رہی۔
اس عرصے میں جب بھی نون لیگ کی حکومت پہ کڑا وقت آیا ۔آصف علی زرداری صاحب اپنی مفاہمتی پالیسی کے ساتھ میدان میں نظر آئے۔بالخصوص جب اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور طاہر القادری صاحب نے دھرنا دیا تھا تو اس وقت پیپلز پارٹی نے ہی نون لیگ کی حکومت کو گرنے سے بچایا تھا۔جمہوریت کی حفاظت کے نام پر آصف علی زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی کو جیالوں نے ہمیشہ نا پسند کیا،جسے اب زرداری صاحب بھی اچھی طرح بھانپ چکے ہیں۔شاید وہ کسی مناسب وقت کے انتظار میں تھے کہ نئی صف بندی کریں۔بلاول کے ساتھ سابق صدر کی پریس کانفرنس اس امر کی غماز ہے کہ وہ افواہیں اپنی موت آپ مرچکی ہیں،جن کے مطابق بلاول اور زرداری میں پارٹی پالیسی کے حوالے سے سیاسی اختلافات ہیں۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے کسی حکومت کا کبھی ساتھ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ پارلیمنٹ کا ساتھ دیا،ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، ہم جمہوریت کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے پہلے بھی نواز شریف کا نہیں جمہوریت کا ساتھ دیا، لیکن 4 سال کی حکومت میں کوئی جمہوری قدر نہیں اپنائی گئی۔ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ شریف خاندان کا اب سیاست میں کوئی مستقبل نہیں۔اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ سب کا احتساب ہو، ایسا لگتا ہے کہ احتساب کا قانون صرف پیپلز پارٹی کے لیے بنایا گیا، اسے سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’وہ معصوم نہیں مجرم ہیں اور سپریم کورٹ نے انہیں نااہل کرکے نکالا ہے۔اس پریس کانفرنس سے پیپلز پارٹی کی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کا اندازہ ہوتا ہے۔جس طرح گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی نے چنیوٹ میں کامیاب اور بڑا جلسہ کیا وہ اشارہ ہے ایک نئی مگر جارحانہ صف بندی کا، یہی بلاول بھی چاہتے ہیں اور پیپلز پارٹی کا عام ورکر بھی۔پیپلز پارٹی کی بقا اسی میں ہے کہ اپنے منشور کی طرف نہ صرف رجوع کرے بلکہ نیا منشور بھی ترتیب دے اور آمدہ انتخابات کے لیے ایک جارحانہ سیاسی حکمت عملی بھی بنائے۔ پیپلز پارٹی کا ورکر چاہتا ہے کہ اس کی پارٹی مفاہمتی پالیسیوں اور جمہوریت کے نام پر ہونے والے سیاسی گیم پلان سے باہر نکل آئے اورعام آدمی کی بہبود کی سیاست کرے۔وہی سیاست جو پیپلز پارٹی کی پہچان ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply