ٹیلی کام انجینئرکی مفلوک الحالی اور حکومتی کردار (حصہ اول)

2000 کے بعد جس طرح ٹیلی کام انڈسٹری نے ترقی کی، اس کے بعد عوامی رحجان ٹیلی کام انجینئرنگ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ پرائیوٹ یونیورسٹیز نے تھوک کے لحاظ سے اتنے انجینئرز نکالے کہ مارکیٹ میں ایک نئے انجنیئر کے لئے قدم جمانا مشکل سے مشکل ہوتا گیا۔ ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی اور مین پاور مزید سے مزید کم ہوتی گئی اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ بڑھتا گیا۔ حکومت کے پاس جس طرح باقی مسائل کے لئے کوئی پلاننگ نہیں تھی اسی طرح ٹیلی کام سیکڑکا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

صورت حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ چند کمپنیز کی اجارہ داری ہے اور کسی میرٹ کے بغیر ذاتی پسند نا پسند پر عہدوں کی بندر بانٹ ہوتی ہے۔ جو اچھی کمپنیز تھیں انکو چائنا کی کمپنیز نے ایشیاء، بالخصوص پاکستان سے ناک آؤٹ کردیا۔ انکو سستے سے سستے مجبور اور پریشان حال ملازمین آسانی سے مل جاتے ہیں جنکی بنیاد پر وہ ٹیلی کام آپریٹرز کو ایک ہینڈ سم پیکج دیتے ہیں، جس میں بظاہر فائد ہ ہی فائد ہ ہوتا ہے، لیکن دراصل وہ اپنی پیشہ وارانہ چالاکیوں سے انہیں استعمال کرکے دوگنا چوگنا منافع کما لیتے ہیں۔ پانچ سال یا دس سال مفت ٹیلی کام آلات مہیا کر کے ایک تو وہ اس آپریٹر کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ مستقبل قریب میں صرف انکا ہی گاہک ہو گا اور طے شدہ سالوں کے بعد جو ادائیگی ہو گی وہ کئی گنا شرح سود کے ساتھ واپس ہوگی ۔

ٹیلی کام ملازمین شاید دنیا کے مظلوم ترین ملازمین ہیں جن پر کسی لیبر لاء کا بھی کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔ انکی داد رسی کے لئے حکومت وقت، این جی اوز اور بین الاقوامی اداروں کا کوئی کردار نظرنہیں آتا۔ ٹیلی کام انجینئرز ایک خواب دیکھ کر اس سیکٹر کو جوائن کرتے ہیں، وہی خواب جو ہر عام آدمی کے ادھورے ارمان اور خواہشیں ہوتی ہیں؛ اچھا گھر ، گاڑی ، بچوں کے لئے عمدہ تعلیم ، روشن مستقبل کی ضمانت، میڈیکل انشورنس وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اس انڈسٹری میں برسوں وقت گذارنے کے بعد بھی اسکی معاشی حالت اسے یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ان خوابوں کو تکمیل کر سکے۔ اسکی بنیادی وجہ کمپنیزکی پالیسیاں ، حکومت کی بے توجہگی اور ٹیلی کام انجینئرز کی بہتات ہے۔ یہ اونٹ کس کروٹ بٹھانا ہے اس پر حکومت وقت کو واضح پالیسی بنانی ہوگی ورنہ یہ سیکٹر تو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے 6 جی تک تو پہنج جائے گا، لیکن ملازمین واپس پتھر جی کے دور میں پہنچ جائیں گے۔

بنیادی طور پر ٹیلی کام میں تین طرح کی کمپنیز کی تقسیم ہے۔ آپریٹر ، وینڈر، کنٹریکٹر۔
وارد، یوفو ن، زونگ اور ٹیلی نار کا شمار آپریٹرز میں ہوتاہے۔ آپریٹر کے مستقل ملازمین عمدہ پیکج کے ساتھ نسبتا اچھی گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں البتہ مستقل ملازمین کی شرح دس سے بیس فیصد ہوتی ہے اور باقی ملازمین تھرڈ پارٹی کے ذریعہ اس کمپنی کواپنی سروسز تو دیتے ہیں لیکن انکا نام استعمال نہیں کرسکتے اور نہ ہی انہیں کمپنی کے سالانہ منافع میں انکی کوئی حصہ داری ہوتی ہے۔ یعنی کام تو ان سے ہی لیا جاتا ہے لیکن جب کیک تیار ہو جاتا ہے تو اسکی رسم کٹائی مستقل ملازمین سے ہی کرائی جاتی ہے اور سارا کریڈٹ بھی انکوہی دیا جاتاہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کریڈٹ لینے کی اس طرح کی دوڑ میں آپریٹر ، وینڈر اور کنٹریکٹر کمپنیز میں یکساں ہی صورت حال ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ صرف ٹیلی کام کمپنیز ہی نہیں پاکستان میں موجود تمام کمپنیز میں یہ صورتحال ایک سی ہے۔ (جاری ہے )

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ٹیلی کام انجینئرکی مفلوک الحالی اور حکومتی کردار (حصہ اول)

Leave a Reply