دمہ کیا ہے؟۔۔۔ سلطان محمود/ہیلتھ بلاگ

سانس کی نالیوں کی ایک خصوصیت:

ہماری سانس کی نالیوں میں قدرتی طور پر سکڑنے اور پھیلنے کی صلاحیت ہوتی ہے تاکہ کسی بھی حالت (مثلاً آرام یا کھیل کود) میں جسم کی ضرورت کے مطابق سکڑ یا پھیل کر کم یا زیادہ آکسیجن فراہم کر سکیں۔ عام حالات میں نالیوں کے سکڑنے اور پھیلنے کے اس عمل کو ہمارا خودکار اعصابی نظام آٹو نومک نروس سسٹم کنٹرول کرتا ہے۔

دمہ (Asthma) کیا ہے؟

دمہ سانس کی نالیوں کی ایسی بیماری ہے جس میں سانس کی نالیاں، جنہیں برونکائی کہا جاتا ہے، سوزش کی وجہ سے سکڑاؤ اور اینٹھن کی حالت میں چلی جاتی ہیں جس سے مریض کو سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔ یہ حالت کبھی دوا کے ساتھ اور کبھی بغیر دوا کے خود بخود بھی نارمل ہو جاتی ہے۔ حملہ زیادہ شدید ہو (Exacerbation)، اور مریض کو وقت پر دوا نہ ملے تو سانس بند ہوجانے سے مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

دمہ کیوں ہوتا ہے؟

دمہ بنیادی طور پر امیون سسٹم کی بیماری ہے۔ جب کسی بھی عامل کی وجہ سے ہمارا مدافعتی نظام ضرورت سے زیادہ ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے، تو اس حالت کو الرجی کا نام دیا جاتا ہے۔ الرجی کی صورت میں ہمارا امیون سسٹم ہسٹامین، لیوکوٹرائین، اور بہت سارے ایسے کیمیکلز بناتا ہے جو سانس کی نالیوں میں سوزش کا باعث بنتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک ہی عامل ایک ہی وقت میں ایک انسان کے لیے نارمل اور دوسرے کے لیے شدید الرجی کا باعث ہو سکتا ہے۔

دمہ یا الرجی کے عوامل:

گردوغبار، دھواں، مختلف اقسام کے کیمیکلز، تیز پرفیوم، پالتو جانوروں اور پرندوں کے بال و پر، خوردبینی حشرات اور بیکٹیریا/فنگس، پودوں اور درختوں پر لگنے والا پاوڈر، اور پھولوں کا پولن وغیرہ

کیا دمہ ایک متعدی بیماری ہے؟

دمہ یا (Asthma) ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماری نہیں ہے، تاہم ماں باپ میں سے کسی ایک کو دمہ ہونے کی صورت میں بچوں میں بھی اس کی منتقلی کے امکانات ہوتے ہیں، دیگر ماحولیاتی عوامل کی موجودگی میں یہ امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔

دمہ کی پہچان اور علامات:

کھانسی، جو اکثر رات کو اور صبح اٹھتے وقت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ سیڑھیاں چڑھنے یا جسمانی مشقت کے بعد سانس اکھڑ جانا یا کھانسی ہونا، کسی خاص موسم مثلاً بہار یا سردی میں سانس لینے میں دشواری محسوس ہونا، سانس کے ساتھ سینے میں سے سیٹی کی سی آواز آنا، معمولی نزلہ زکام کا جلدی ٹھیک نہ ہونا اور اس کے ساتھ سينہ خراب ہوجانا۔

دمہ کا آغاز عموماً بچپن سے ہی ہوجاتا ہے اور یہ بچوں میں سکول سے غیر حاضر رہنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دمہ کے مریضوں میں الرجی کی دوسری علامات بھی پائی جاتی ہیں۔ تشخیص کے لیے ڈاکٹر صاحبان کا اسکو سینے کی دوسری بیماریوں مثلاً (COPD) سے الگ کرکے پہچاننا ضروری ہے۔

کیا دمہ کا علاج ممکن ہے؟

فی الحال دمہ کا مستقل علاج دستیاب نہیں۔ تاہم ایسی ادویات موجود ہیں جن سے دمہ کو کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔ ان ادویات کا مقصد حملے کی صورت میں مریض کو آرام پہنچانا اور آئندہ حملے کے امکانات کو کم کرنا ہوتا ہے۔ دوا کے مستقل استعمال سے دمے کے مریض نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔

کس طرح کا علاج دستیاب ہے؟

دمہ کے لئے ایک سے زیادہ قسم کی ادویات دستیاب ہیں۔ ڈاکٹر مریض کی کیفیت اور مرض کی شدت کے مطابق دوا تجویز کریگا۔ یہ ادویہ منہ کے ذریعے، انہیلر یا نیبولایزر کے ذریعے سانس کی نالی کے راستے، یا انجکشن کے ذریعے لی جا سکتی ہیں۔ ان ادویات کی مندرجہ زیل اقسام ہیں:

۱- بیٹا ریسیپٹرز کو تحریک دے کر سانس کی نالی کھولنے والی ادویات (Beta stimulants)

۲- سانس کے راستے استعمال ہونے والے سٹیرائیڈز

۳-لیوکوٹرائین ریسیپٹرز کی تحریک کو روکنے والی ادویات

۴- سانس کی نالیوں کو کھلا رکھنے والی (Anti-cholinergic) دوائیں، اور

۵- مخصوص قسم کی اینٹی باڈیز (mabs-) کے انجکشن.

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دمہ کے مریضوں کے لئے تمام عمر کم مقدار میں سٹرائیڈ کا استعمال جاری رکھنا ضروری ہے۔ سٹیرائیڈز کے بارے میں یہ عام تاثر کہ یہ بہت خطرناک دوائیاں ہیں، درست نہیں۔

کیا بچاؤ ممکن ہے؟

دمہ کے مریضوں کے لئے علاج کے ساتھ ساتھ پرہیز یا بچاؤ بھی بہت اہم ہے، خاص طور پر الرجی والے سیزن میں۔ جن عوامل کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، حتی الوسع ان سے بچنے کی صورت میں دمہ کے حملوں کی تعداد اور شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے نیز سٹیرائیڈز کے مستقل استعمال سے اس بیماری کو کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: پوسٹ میں دی گئی معلومات عام آگاہی کے لئے ہیں، یہ میڈیکل مشورے کا متبادل نہیں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply