• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انسانوں میں فیملی پلاننگ کے لئے کیا طریقے ہیں؟۔۔۔سلطان محمود

انسانوں میں فیملی پلاننگ کے لئے کیا طریقے ہیں؟۔۔۔سلطان محمود

فیملی پلاننگ کے طریقے بہت سے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی طریقہ حمل نہ ٹھہرنے کی سو فیصد گارنٹی نہیں دے سکتا۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ مکمل تسلی کے لیے بیک وقت ایک سے زیادہ طریقوں سے استفادہ کیا جائے۔

1۔ بچے کی پیدائش کے بعد کافی عرصے تک خواتین کے جسم میں پروليکٹین نامی ہارمون کے لیولز بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون چھاتیوں میں دودھ کی افزائش کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اسی ہارمون کی زیادتی کی وجہ سے خواتین کے ماہانہ ایام بے قاعدگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اووری سے بیضہ خارج ہونے کے امکانات کم ہو جا تے ہیں۔ گویا فیملی پلاننگ کا پہلا طریقہ تو یہ ہوا کہ خواتین اپنے بچوں کو کم از کم دو سال تک اپنا دودھ پلائیں۔ جب تک دودھ پلا ئیں گی، حمل کے امکانات کم ہوں گے۔ یہ فیملی پلاننگ کا سب سے محفوظ لیکن سب سے کم قابل اعتبار طریقہ ہے۔

اس میں مزید اضافہ  ہارمونز والے انجکشنزکرتے ہیں ۔ یہ انجکشن فیملی پلاننگ کے مرکز کے ساتھ ساتھ بازار سے بھی آسانی سے مل جاتے ہیں اور دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک انجکشن مکمل تین مہینے کے لئے ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری قسم کا انجکشن اسی (80) دن بعد لگوانا پڑتا ہے۔ انجکشن کے استعمال سے شروع شروع میں خاتون کو ماہانہ ایّام میں بےقاعدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو بعد میں خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ہارمونز کے امپلانٹ بھی دستیاب ہیں جو جلد کے نیچے لگائے جاتے ہیں اور پانچ سال تک کام کرتے بیں۔ حاملہ ہونے کی خواہش ہونے پر کسی بھی وقت نکلوائے جا سکتے ہیں۔

2۔ دوسرا طریقہ کیلنڈر میتھڈ کہلاتا ہے۔ یعنی خاتون کو مخصوص ایّام میں خون آنے کا پہلا دن مینسیز کا پہلا دن شمار کرکے کیلنڈر پر نشان لگائیں۔ اس حساب سے نویں دن سے لیکر انیسویں دن تک ہم بستری سے اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ بیچ والے دنوں میں اووری سے ایگ ریلیز ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی مکمل طور پر بے ضرر ہے، مگر اس میں دس دن تک ہم بستری سے اجتناب کی پابندی شاید کچھ لوگوں کے لیے، جو صرف چھٹیوں پر گھر آتے ہیں، مناسب نہ ہو۔

3۔ تیسرا طریقہ کنڈوم کے استعمال کا بے۔ مرد کے علاوہ خواتین کے استعمال کے لئے بھی خصوصی کنڈوم (cap) ملتے ہیں جن سے حمل کو روکا جا سکتا ہے۔

4۔ سپرمز کو مارنے والے جیلز کا استعمال۔ ہم بستری کے بعد خاتون کے اس جیل کے استعمال سے سپرمز مر جاتے ہیں اور ان کی بارآوری کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

5۔ فرج سے باہر ڈسچارج ہونا۔ یہ طریقہ عزل یا ودڈرال بھی کہلاتا ہے۔ بے ضرر ہے، مگر اس کے لیے بہت زیادہ پریکٹس اور کنٹرول کی ضرورت پڑتی ہے۔

6۔ کاپر ٹی یا چھلے کا استعمال۔ ایک معمولی ٹرینڈ نرس یا ڈاکٹر بھی خاتون کے رحم میں دھات کا یہ چھلا رکھ سکتی ہے۔ اس سے رحم کا منہ (سرویکس) کھلا رہتا ہے اور بیضہ بارآور ہونے کے باوجود حمل نہیں ٹھہرتا۔ یہ طریقہ لمبے عرصے کے لئے کارآمد ہے۔ جب بھی خاتون چاہے، چھلا نکلوا کر دوبارہ حاملہ  ہو سکتی ہے۔

7۔ سرجیکل طریقہ کار۔
مرد کے لئے: خصیوں میں بننے والے سپرم انزال کے وقت ایک خاص نالی سے ہوتے ہوئے باہر آتے ہیں۔ اس نالی کو ایک چھوٹا سا کٹ لگا کر ایک ٹانکے سے دوبارہ بند کردیا جاتا ہے۔ اس سے سپرمز تو نبتے رہتے ہیں، مگر ہم بستری کے دوران خارج نہیں ہوتے۔ اس چھوٹے سے آپریشن پر پندرہ منٹ کا وقت لگتا ہے۔ اس کو ویزیکٹومی یا نس بندی بھی کہتے ہیں۔ مرد کے لئے بے ضرر ہے، اس سے قوت مردانگی یا ٹائمنگ وغیرہ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ اس پراسس کو واپس نہیں کیا جا سکتا۔ آپریشن کے بعد کم از کم آٹھ دفعہ ڈسچارج ہونے تک ہم بستری سے پرہیز کرنا چاہیے۔

سرجیکل طریقہ کار، خواتین کے لئے:
اس کو ٹیوبل لایگیشن یا نل بندی بھی کہتے ہیں۔ اؤوری سے رحم مادر تک آنے والی نالیوں کو کاٹ کر دوبارہ ٹانکہ لگا کر بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ بھی مستقل طریقہ علاج ہے۔ گو کہ بعد میں اس کو بھی ریورس کیا جا سکتا ہے، مگر مہنگا پڑے گا۔

8۔ سرجیکل طریقہ کار۔ بیضہ دانی نکلوانا۔ اس کو اوو فریکٹومی بھی کہتے ہیں۔ گائنا کالوجسٹ ایک آپریشن کے ذریعے دونوں بیضہ دانی کو نکال دیتی ہیں۔ مستقل طریقہ علاج ہے۔ ان خاندانوں کے لئے زیادہ موزوں ہے جن کو مزید بچے پیدا کرنے کی خواہش نہ ہو۔

سرجیکل طریقہ کار۔ بچہ دانی یا رحم مادر نکلوانا۔ اس کو ہیسٹرکٹومی بھی کہتے ہیں۔ مستقل طریقہ علاج ہے۔ جن خواتین میں یوٹرس میں کوئی اور مسلہ بھی ہو، ان کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ اس کے بعد خواتین کے ماہانہ ایّام بھی بند ہو جائے ہیں۔

9۔ ہارمونز والی دواؤں کا استعمال۔
خواتین کے لیے روزانہ استعمال کے حساب سے اکیس یا اٹھائیس گولیوں کا پیکٹ ملتا ہے۔ مینسز کے پہلے دن سے پہلے گولی کا استعمال شروع کیا جاتا ہے۔ اکیس گولیاں پوری ہونے کے بعد سات دن کا وقفہ جس میں حیض کی طرح کا خون آئے گا۔ اگر اٹھائیس گولیاں ہوں تو حیض کے دوران بھی گولیوں کا استعمال جاری رکھا جاتا ہے۔ یہ اضافی سات گولیاں آئرن فولک ایسڈ پر مشتمل ہوتی ہیں۔
آٹھویں دن، چاہے خون آتا رہے یا رک گیا ہو، نیا پیکٹ شروع کیا جاتا ہے۔
ان گولیوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان سے ایّام میں باقاعدگی پیدا ہو جاتی ہے اور حیض کے دوران خون کم نکلتا ہے۔ استعمال شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے چھاتیوں کا معائنہ ضرور کروانا چاہیے۔ چھاتیوں میں سخت گلٹی یا رسولی وغیرہ کی صورت میں ان گولیوں کا استعمال ممنوع ہے۔

10۔ ہم بستری کے بعد استعمال ہونے والی گولیاں۔ اگر کسی وجہ سے ہم بستری کے دوران مناسب تحفظ کا استعمال نہ کیا گیا ہو، تو ایسی گولیاں بھی دستیاب ہیں جو خاتون ہم بستری کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر اندر استعمال کر سکتی ہے۔ اس سے حمل ٹھہرنے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقہ ابارشن یا اسقاط حمل کی تعریف میں نہیں آتا کیونکہ حمل ابھی ٹھہرا ہی نہیں ہے۔ احتیاط کے طور پر ان شادی شدہ جوڑوں کو جو فیملی پلاننگ کرنا چاہتے ہیں، ان گولیوں کی کچھ تعداد گھر میں رکھنی چاہیے۔

اگر کسی وجہ سے مناسب پروٹیکشن نہ لی جائے اور خواہش کے برخلاف حمل ٹھہرنے کا خدشہ ہو، تو گھر والوں کو اعتماد میں لے کر قریبی فیملی پلاننگ مرکز یا مقامی ہسپتال سے رجوع کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں کہ غیر مستند، غیر تربیت یافتہ عملے سے علاج کروانے میں انفیکشن وغیرہ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پہلے سے مناسب پروٹیکشن کا اہتمام کیا جائے اور بہتر رزلٹ کے لئے فیملی پلاننگ کے ایک سے زیادہ طریقے ملا کر استعمال کیے جائیں۔

Facebook Comments

سلطان محمود
ایک مزدور مگر مزے میں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply