’’کریم ‘‘ بھائی اس جانب بھی توجہ دیں۔۔۔کے ایم خالد

کریم کی سروس ’’گو کریم ‘‘ تک تو ٹھیک گاڑیاں بھی اچھے معیار کی ہیں اور ڈرائیور بھی پڑھے لکھے ہی محسوس ہوتے ہیں اور سفر بھی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ترقی یافتہ ملک میں کسی چمچماتی سڑک پر آپ کی گاڑی رواں دواں ہے جبکہ ’’گو منی ‘‘ دو دفعہ استعمال کی اور دونوں دفعہ دو نئے تجربات ہوئے ۔’’گومنی ‘‘ میں  زیادہ تر مہران گاڑیاں ہیں جن کی ’’کریم ‘‘ میں رجسٹریشن کرتے ہوئے   گاڑی کی اوورحال چیکنگ کا کوئی شاید سلسلہ نہیں کیونکہ کمپنی نے اپنی کمائی میں اضافے کے لئے قریب المرگ گاڑیوں کو بھی سواریوں کو ذلیل کرنے کی اجازت دے دی ہے پچھلے سفر میں رات کے بارہ بجے   کا وقت تھا جب ’’کریم ‘‘ نے گاڑی کو ایک جھٹکا دیا اور ’’اوہ‘‘ کی آواز نکالی میں نے کہا
’’کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
اس نے بتایا کہ جناب گاڑی کے کلچ کا تار ٹوٹ گیا ہے اور گاڑی اب یہاں سے آگے نہیں جا سکتی آپ یہیں اتر جائیں ‘‘
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے سنسان سڑک پر دوبارہ گاڑی کی تلاش۔۔ میں نے مدد طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھا
’’بھائی جی کم از کم کسی نزدیکی سٹاپ تک تو پہنچا دو جہاں سے گاڑی مل سکے ‘‘ اس نے کہا ’’ممکن تو نہیں لیکن میں کوشش کرتا ہوں ‘‘
پھر اس نے جھٹکے دیتے ہوئے نزدیکی اسٹاپ سے تقریباً ایک کلومیٹر پیچھے گاڑی کھڑی کر دی موبائل پر سفر کے اختتام کا میسج بھیجا اور کہا تین سو روپے دے دیں ‘‘ میں بغیر کچھ کہے اس کو تین سو روپے دیئے اور پیدل اسٹاپ کی جانب بڑھ گیا جہاں پھر دو سو روپے میں ٹیکسی کرکے گھر پہنچا
اس اتوار دوبارہ ’’گو منی ‘‘ بک کر بیٹھا۔ ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی تو اس نے ہچکولے کھانے شروع کر دیئے ’’یہ کیا ہو رہا ہے بھائی ۔۔۔؟‘‘
وہ سر الائنمنٹ کا مسئلہ ہے بس اب ٹھیک کرا لوں گا ‘‘۔
ابھی اس نے تھوڑا ہی سفر کیا تھا کہ گاڑی نے جھٹکا لیا میں نے جلدی سے غور سے  ڈرائیور کے چہرے کی طرف دیکھا کہ مبادا وہی ڈرائیور تو نہیں اس نے شرمندگی سے کہا

’’وہ سر گیس ختم ہو گئی ہے ‘‘
میں کیا کہہ سکتا تھا تھوڑی دور ایک گیس اسٹیشن تھا وہاں سے اس نے پندرہ منٹ میں گیس بھروائی میں نے اپنی تسلی کے لئے پوچھا

Advertisements
julia rana solicitors london

’’ڈرائیور بھیا یہ جو پندرہ منٹ ’ویٹنگ چارجز ‘‘ کس نے ادا کرنے ہیں میں نے یا آپ نے ‘‘
’’آپ کیوں ادا کریں گے کمپنی دیکھ رہی ہے کہ گاڑی پمپ پر پندرہ منٹ کھڑی رہی سو یہ چارجز کمپنی ڈرائیور کو ڈالے گی ‘‘
چھبیس منٹ کا سفر ’’گو منی ‘‘ نے پینتالیس منٹ میں طے کیا۔ ڈرائیور نے اختتامی میسج بھیجا۔ تین سو تین روپے مانگے۔ میں نے پیسے دیئے اس نے واپسی کی راہ لی۔۔ آج ای میل پر اپنے سفر کا ’’بریک اپ ‘‘ چیک کیا تو ’’ویٹنگ چارجز‘‘ سارے کے سارے مسافر کو ہی ڈال دیئے گئے ہیں
’’کریم ‘‘ اور ’’اوبر ‘‘سروس مہیا کرنے والوں سے گزارش ہے آپ تو ’’گوگل ‘‘ پر بیٹھے ہیں پاکستان کے زمینی حقائق پر بھی نظر رکھیں صرف اپنا کمیشن کھرا نہ کریں بلکہ مسافروں کے حقوق کا تحفظ بھی آپ کی ذاتی ذمہ داری ہے جیسے ’’گو بزنس ‘‘۔’’گو پلس ‘‘ اور ’’گو ‘‘ میں اچھی گاڑیاں ہیں اسی طرح ’’گو منی ‘‘ میں صرف اچھی کنڈشن کی نہیں بلکہ  نئی گاڑیوں کو جگہ دیں ۔اور ان گاڑیوں کی گاہے بگاہے چیکنگ کو بھی یقینی بنائیں کیونکہ ’’یہ ہے پاکستان اپنا ‘‘ورنہ ابھی سے ہمارے پاکستانی ڈرائیورز کی ’’کلاس‘‘ نہ لی گئی تو کام کلچ کی تار اور گیس کے ختم ہونے سے گاڑیوں کے انجن فیل ہونے تک پہنچ  سکتا ہے ۔

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply