میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟

تونسہ شریف میں حاملہ استانی منیبہ کو قتل کر دیا گیا ہے ۔کوئی ڈاکٹر شاید رپورٹ میں اس واقعہ کو قتل نہ لکھ سکے ۔ کوئی پولیس والا شاید اس قاتل کو گرفتار نہ کرسکے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو انسانی جانوں کا قتل ہوا ہے ۔ اس واقعہ پر یہ بحث چھیڑنا فضول ہے کہ مرد عورت کا دشمن ہے یا عورت ہی عورت کی دشمن ہے ۔ یہ بحث بھی بے معنی ہے کہ انسان آفیسر بنتے ہی  فرعون بن جاتا ہے یا رشوت ہمارے ہر محکمہ میں سرطان کی طرح سرایت کر چکی ہے ۔ یہ بحث بھی بے اثر ہے کہ اگر شعبہ تعلیم سے وابستہ اساتذہ ہی کو انصاف نہیں ملتا تو وہ مملکت خدا داد کے بچوں کو کیسا شہری بنائیں گے ؟۔ جنہیں خود زندہ رہنے کا حق نہیں ملتا وہ بچوں کو معاشرے میں حقوق لینے کی کیا تعلیم دیں گے ۔ مجھے اس بات سے بھی کوئی سرو کار نہیں کہ اساتذہ یونین اپنے حقوق کے لئے کیا کردار ادا کررہی ہے ۔ میر ا تو بطور انسان اتنا مشاہدہ ہے کہ ظالم سے ظالم انسان کا دل بھی کسی حاملہ عورت کی حالت دیکھ کر پسیج جاتا ہے اور ا سکی مدد کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتا کیونکہ حاملہ خاتون ایک زندگی کو جنم دینے والی ہوتی ہے ۔ وہ زندگی جو خدا کا بیش قیمت تحفہ ہے

لیکن تونسہ شریف میں ایسا نہیں ہوا ۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں کے عوام نے کچھ دن پہلے ہی جشن منایا ہے کہ انہی کے علاقے سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی منتخب ہوا ہے۔ اس علاقے میں بجلی تو نہ پہنچی لیکن انہوں نے اپنے محبوب وزیر اعلی کا استقبال کرنے کے لئے تین تین ہیلی پیڈ ضرور بنوا لئے ۔ وزیر اعلی عثمان بزدار کا خیال تھا کہ اگر وہ بمعہ فیملی ہیلی کاپٹر سے اپنے علاقے پہنچیں گے تو عوام کی پسماندگی دور ہوگی ۔ ان کے دلدر دور ہوں گے ۔ تعلیم کی روشنی پھیلے گی اور جہالت کے اندھیرے رفو چکر ہوجائیں گے ۔لیکن علم کا نور کیسے پھیلے گا جب محکمہ تعلیم میں ہی جہالت کا راج ہواوراس کے افسران کے رویوں میں فرعونیت پھن پھلائے بیٹھی ہو۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ گورنمنٹ مڈل سکول بنبھان کی معلمہ حاملہ تھی۔ لیکن اس کے باوجودوہ علم کا نور بانٹنے سکول آرہی تھیں ۔ زچگی کے دن قریب آئے تو منیبہ نے تونسہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرکو چھٹی کی درخواست دے دی ۔ ایجوکیشن آفیسر جو خود ایک خاتون ہیں اس لئے انہیں پتہ تو ہوگا ہی کہ حمل اور اس کی تکالیف کیا ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود موصوفہ نے چھٹی دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیاکہ ابھی ڈلیوری کا وقت اور تاریخ بہت دور ہے ۔

اسے آپ تونسہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زنانہ کی سختی یا ہٹ دھرمی کہہ لیں یا بدگمانی کرتے ہوئے یہ سوچ لیں کہ شاید اسے کسی قسم کی رشوت ملنے کا طمع ہوگا کہ موصوفہ کہنے لگیں کہ میں خود معائنہ کروں گی۔ اس نے اسکول آکر معلمہ کا خود معائنہ بھی کیا لیکن پھر بھی چھٹی کی درخواست منظورنہ کی ۔ ہوسکتا ہے کہ موصوفہ پارٹ ٹائم دائی بھی رہی ہوں لیکن یہاں ان کا تجربہ ناکام ہوگیا اور منیبہ کی حالت بگڑ گئی ۔ سکول کی ہیڈ مسٹرس نے ورثاءکو بلا لیا ۔ اور وہ اسے تحصیل ہسپتال لے آئے۔پاکستان میں سرکاری ہسپتال کا کام اتنا ہی ہوتا ہے کہ سریس مریضوں کو دیکھ کر کہنا کہ اس کی حالت نازک ہے اسے یہاں سے کہیں او ر لے جائیں۔منیبہ کے کیس میں بھی ہسپتال کے عملے نے ایسا ہی کیا۔ ورثا ءاسے کسی بڑے ہسپتال لے جارہے تھے کہ راستے میں ماں اور بچہ دونوں جاں بحق ہو گئے۔یہ وہ قتل ہے جو کسی رپورٹ میں درج نہیں ہو سکتا۔

ہمارے ذہن میں جب بھی عورت کا تصور آتا ہے تو ہماری دانشورانہ رائے اس کے لباس سے آگے کہیں جاتی ہی نہیں ۔کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ عورت ایک انسان اور ایک ملازمت پیشہ خاتون بھی ہوسکتی ہے اس لئے کبھی بطور ورکر اس کے حقو ق پرکھل کر بات نہیں ہوتی ۔ یورپ میں کسی بھی خاتون کے حاملہ ہونے کی صورت میں اسے پانچ مہینے کی چھٹی لازمی ہے اس کی زچگی سے دو ماہ پہلے اور بچہ پیدا ہونے کے تین ماہ بعد تک اس کی مکمل تنخواہ کے ساتھ اسے چھٹی ملتی ہے ۔ لیکن اگر کسی خاتون کو ڈاکٹر لکھ دے کہ اس کی حالت کے پیش نظر اسے پہلے چھٹی چاہیے تو کوئی مالک کوئی آفیسر کوئی ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زنانہ و مردانہ و درمیانہ اس کی چھٹی کی درخواست رد نہیں کر سکتا ۔ بچے کی پیدائش کی صورت میں نہ صرف ماں کو کام سے چھٹی لینے کی اجازت ہے بلکہ بچے کے باپ کو بھی چھٹی مل سکتی ہے ۔بلکہ بچے کی پیدائش کے بارہ سال تک بھی ماں اور باپ دونوں ایک سال کی چھٹی لے سکتے ہیں اور کوئی آفیسر انہیں ان کی جاب سے نکال نہیں سکتا۔

اٹلی میں ٹریڈ یونین کی جاب کے دوران ایک دن ایک فرم کے مالک نے مجھے دفتر بلایا اور کہنے لگا ”تم یونین والے بھی عجیب و غریب قانون بنواتے رہتے ہو “میں نے پوچھا کیا ہوا کہنے لگا ”فرم میں دو خواتین اکٹھی حاملہ ہوگئی ہیں اور ابھی ان کا پہلا مہینہ ہے اور انہوں نے ڈاکٹر کا لیٹر بھیج دیا ہے کہ وہ کام پر نہیں آسکتیں ،یہ کوئی طریقہ ہے ؟پہلے تو خواتین آخری مہینے تک کام کرتی تھیں اب انہیں کیا مسئلہ ہوگیا ہے ؟‘‘۔ میں نے پوچھا تم کیا ڈاکٹر بھی ہو ؟ کہنے لگا” کیا مطلب ہے تمہارا ؟میں نے جواب دیا کہ کسی خاتون کو کون سے مہینے تک کام کرنا چاہیے یہ صرف ڈاکٹر بتا سکتا ہے اب تم بتاﺅ کیا تم ڈاکٹر ہو ؟ کہنے لگا نہیں میں نے کہا تو پھر تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم وہی کام کرو جو تم کرنا جانتے ہو ۔ اس موضوع پر آج کے بعد مجھ سے بات بھی نہ کرنا “ اس نے معذرت کی اور واقعی اس کے بعد کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی ۔ کیوں نہیں کی ؟ کیوں کہ اس ملک کا قانون اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔اٹلی میں حمل کی نازک صورت حال میں خاتون کو چھٹی مانگنی نہیں ہوتی بلکہ ڈاکٹر کا لیٹر دے کر صرف اطلا ع دینا ہوتی ہے کہ میں فلاں دن سے کام پر نہیں آرہی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تونسہ شریف کی معلمہ منیبہ اس ظالم دنیا کو چھوڑ کر چلی گئی ۔ وہ جس زندگی کو جنم دینے والی تھی وہ بھی اس دنیا کی روشنی دیکھنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی ۔اب اس علاقے کی بچیوں کو تعلیم دینے والی ایک آواز خاموش ہوگئی۔ تختہ سیاہ پر ”علم بڑی دولت ہے “ لکھنے والا ایک ہاتھ کم ہو گیا ۔ معاشرے میں رشوت کو گناہ کہنے والی، نیکی کو اچھائی کہنے والی ، علم کو نور کہنے والی ، تکبر کوبرائی کہنے والی ایک زبان خاموش ہوگئی ۔ اچھا ہوا ایک استانی چلی گئی کہیں اس سے تعلیم حاصل کرنے والی کوئی بچی ایسی ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نہ بن جاتی جو افسربنتے ہی انسانیت بھول جاتی ۔ محکمہ تعلیم میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کی من مانیاں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔ ان پر دبے الفاظ میں مذمتیں بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن کبھی بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔ میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس واقعہ کو سنجیدگی سے لیا جائے ۔ پاکستان کی اساتذ ہ یونین کو اس واقعہ کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے ۔ اور اگر اس کیس میں رشوت کے مطالبے کا کوئی شبہ ہے تو اس بات کی مکمل تحقیق کرانی چاہیے ۔ حکومت کو ملازمت پیش حاملہ خواتین کے حقو ق کے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ کوئی او ر منیبہ ایسی ہٹ دھرمی کا نشانہ نہ بن سکے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply