ممتاز قبائیلی شخصیت۔۔۔جاوید بلوچ

ممتاز قبائلی شخصیت اور بہت سے اس طرح کے فقرے جیسے کہ ممتاز سیاسی و سماجی رہنما، نواب زادہ، سردار زادہ ،میر زادہ غرض اور بہت سے القابات نظروں کے سامنے سے گزرتے  ہیں تو کبھی کبھی ایک خوشی سی محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں ممتاز سیاسی رہنماء موجود ہیں جو واقعی اپنے نام کے ساتھ جڑے ان القابات کی قدر کرتے ہوئے  ان کی حرمت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے قبیلے کے لوگوں کو یا وہاں ہر طبقہ  فکر سے  جڑے لوگوں کی جان و مال عزت آبرو کی حفاظت کرینگے، ان کے حق کو کسی زور آور کے ہاتھ لگنے نہیں دینگے یا کم از کم ان کی آواز تو بن جائینگے۔

مگرمجھے معاملہ اس کے برعکس نظر  آیا جب میں نے آنکھوں کی دھندلی  پٹی کو اتارا ،تو عزتوں کی حفاظت کرنے والے ممتاز سردار صاحب کو عزتوں کو تار تار کرتے دیکھا،  آنکھوں کو مسل کےاور غور سے دیکھا تو سردار صاحب کے کارندوں کو (جن کے بارے میں میرے دوست ریڈیکل بلوچ کہتے ہیں کہ رہنماؤں نے معاشرے میں انسانی شکل میں باؤلے  کتے چھوڑ دیئے ہیں جو مذکورہ اشخاص میں سے کسی ایک کا نام لیتے ہی بندے پر برس پڑتے ہیں، بس اللہ بچائے ان ظالم وحشیوں سے کسی کو )جان و مال کی حفاظت کے بجائے  سر عام ،دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں بگی لوگوں کو لوٹتے دیکھا اور ایک فون کال پہ ان کے گھر سامان سے بھری  گاڑیوں کو آتے دیکھا۔

غرض ہر اس عمل میں جس سے لوگوں کی تذلیل ہو، ان کا حق مارا جا رہا ہو اور ان کی بدحالی ہو تو ہے  سارے کردار میری نظروں کے سامنے ہمیشہ سے رہے ۔یاد رہے   ان لوگوں میں بہت کم تعداد الیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے،باقی بس گزارے لائق ہی ہیں ،  مگر ان کا کردار غیر تعلیم یافتوں سے شاید کچھ بہتر ہو مگر ظلم کے یہ  ضابطے ان کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں ۔تاریخ میں ان کرداروں پر نظر  دوڑائیں تو ان میں سے اکثریت نے محکوم عوام پر رعب دکھانے اور انہیں  لوٹنے کے لیے سرکام کا ڈنڈا استعمال کیا ہے ۔اور ان کے بیٹھے ہوئے  آج بھی لوگوں کے درمیان الیکشن کے دوران اسلحے وغیرہ بانٹتے ہیں اور ان سے ووٹ کے حقدار بنتے ہیں مگر تھوڑا سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر آج کے دور میں بھی لوگوں کے درمیان اسلحہ تقسیمِ کرنا کس طرف اشارہ کرتا  ہے  کہ ان کی  نسلوں نے ہمارے آباوؤ اجداد کو استعمال کیا اور وہ غیر شعوری طور پہ  استعمال ہوتے رہے اور اب ان کی نئی  نسل نوجوانوں کو علم و دانش سے دور کرکے  ان کے ہاتھوں میں اسلحہ  تھما رہے ہیں تاکہ نوجوان بھی ان کی  حفاظت پہ  معمور ہوکے اپنی حفاظت بھول جائیں  اور پہلے سے تاریک زندگی کو اور تاریک بنا دیں ۔ان کے خلاف بولنے والے ہر شخص کو  اپنی راجدھانی میں بلا کے ان کے خلاف کیس دائر کیا جاتا ہے اور اس کیس میں یہ  خود  وکالت کرتے ہیں اور اسی لمحے خود جج بن کے فیصلہ سناتے ہیں اور پھر اس فیصلے کے خلاف دنیا  کی  کسی بھی عدالت میں اپیل دائر نہیں کی  جاسکتی  ۔ بہت سے لوگ اپنے  فیصلوں کے انتظار میں پوری زندگی ان کے   در پہ  گزارتے ہیں اور ان اوقات میں ان سے جو بھی کام لیا جائے سب کچھ جائز  ہے اور یہ  جائز  کام  کئی  دہائیوں سے ہوتے آرہے ہیں ۔اور ایک ہم ہیں کہ جو سائیں   کے پیرو کار بنے پھرتے ہیں  تو آج بھی وقت ہے کہ ہم اہلکارانِ   ستم سے تلخ گفتگو کریں اور ظلم کے ان  ضابطوں کے خلاف آواز اٹھائیں  اور قفس کی زنجیروں کو توڑ کے خود  بھی آزاد ہو جائے  اور اپنی نسلوں کو بھی آزاد کرکے ان کو ایک روشن مستقبل فراہم کرے علم و فن سے، پھر چاہے کتنے سیاہ بادل ہوں سورج کی روشنی کو چھپا نہیں سکتے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کھڑے ہیں گردن جھکا کے آقا
جو حکم ہوگا بجا کہیں گے
ہماری نسلیں تمھاری خادم تمھاری نسلیں نواب سائیں
ہماری کٹیا جلا کے پھر سے کرواجالا محل میں اپنے
خدا کا سایہ ہو تم پہ  ہم پر
تمھاری خدمت ثواب سائیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply