• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بزنجو صاحب کی بصیرتیں ہمارے ضمیر و خمیر کو روشن کرتی رہیں گی!

بزنجو صاحب کی بصیرتیں ہمارے ضمیر و خمیر کو روشن کرتی رہیں گی!

کسی بھی نظریہ پر ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن اپنے نظریے کے خلاف زندگی گزارنا ایک مکروہ عمل ہے۔مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ آج کے دور میں چیزیں،جذبے،سوچیں اتنی گڈ مڈ،الٹ پلٹ اور اتھل پتھل ہو گئی ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج مجھے میر غوث بخش بزنجو شدت سے یاد آرہے ہیں۔ ہر سال گیارہ اگست کے دن میرا دھیان میر غوث بخش کی طرف جاتا ہے۔ اس نام کے ساتھ ہی ذہن میں ایک طویل جدوجہد ابھرتی ہے۔پہاڑوں،ساحلی چٹانوں اور سبزہ زاروں کی سیاست کے رزمیہ نغموں کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔آج اصل نقل میں امتیاز کرنا مشکل تر ہو گیا ہے،اور آج پاکستان و پاکستانیوں کو اپنی بصارت اور بلاغت میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔اتنے جھگڑے،اتنے ہیر پھیر اورا تنے ول چھل پڑ گئے ہیں کہ سیاست ہو یا ادب،سماجیات ہو یا صحافت،آرٹ ہو یا ثقافت کہ جسے سب حالتوں کی حالت کہنا چاہیے،بے یارومددگار اور مخدوش الصفات رہ گئی ہے،ان حالات میں غوث بخش بزنجو کی یادیں دامنِ گیر ہو جاتی ہیں ۔

کہتے ہیں علم کے ساتھ تھوڑا سا عمل زیادہ نفع دیتا ہے جبکہ جہل کے ساتھ زیادہ عمل بھی کچھ منافع نہیں دیتا۔ گیارہ اگست 1989کو جب مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو میرے ذہن میں دھماکہ نہیں بلکہ دھماکے کے بعد جو سناٹا سا پیدا ہو جاتا ہے اس نے میری سوچ کو گھیر لیا،کتنا کرب تھا اس سناٹے میں جس نے ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ ہر سسکی اپنا مفہوم کھو چکی تھی،اور ہر چیخ غیر ضروری ہو گئی تھی۔بزنجو صاحب کو کیا معلوم کہ وہ اب ہم میں نہیں ہیں ان کے لیے تو دکھ یا پریشانی کی کوئی بات نہیں مگر ہم۔۔۔۔میر غوث بخش بزنجو سے میری واقفیت کا آغاز نیشنل عوامی پارٹی سے ہوا،یہ واقفیت ذاتی نہ تھی،بلکہ پارٹی کے حوالے سے تھی،انہی دنوں وہ لاہور آئے تو پروفیسر امین مغل اور ملک شمیم اشرف نے میرا ان سے تعارف کرایا،اس شناسائی نے مجھ پر ایسا انمٹ نقوش چھوڑا جو پارٹی میں میرے تمام تر کام کے دوران محو نہ ہوسکا۔ولی خان،عطا اللہ مینگل،خیر بخش اجمل خٹک۔۔۔لیکن جب میں میر صاحب کی سادگی،سچائی،جمہوریت پسندی،انقلابی خیالات اور سرگرمیوں سے واقف ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ بزنجو ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔

میری نگاہ میں وہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے محض رہنما ہی نہ تھے بلکہ اس کے حقیقی بانی بھی تھے۔اس لیے کہ وہی ہماری پارٹی کے عوامی نظریات،پارٹی کی عوامی ماہیت اور اس کے فوری تقاضوں سے واقف تھے۔جب کبھی میں نے ان کا موازنہ پارٹی کے دوسرے رہنماؤں سے کیا تو ہر بار دوسروں کے مقابلے میں بزنجو صاحب نہ صرف ایک راہنما بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کے راہنما معلوم ہوئے،گویا ایک شاہین تھے،جنہیں پلٹنا،جھپٹنا،جھپٹ کر پلٹنے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوتا ہو،جو پاکستان میں انقلاب کے ان دیکھے راستے پر پارٹی کی جرات مندانہ انداز میں راہنمائی کیا کرتے تھے۔بزنجو صاحب سے میری پہلی ملاقات لاہور میں پارٹی کے دفتر میں ہوئی تھی،میں اپنی پارٹی کے اس راہنما سے ملنے کا مشتا ق تھا،اس عظیم انسان سے جو نہ صرف سیاسی اعتبار سے عظیم تھا بلکہ خود کو ذہنی طور پر بھی ان سے بہت قریب پاتا تھا۔

ان دنوں بھی اسلام پسند،یا رجعت پسند،یا دائیں بازو یا کچھ بھی کہہ لیجئے ۔۔صحافی،نیشنل عوامی پاڑتی کی تمام تر لیڈر شپ میں زیادہ تر بزنجو صاحب کی انقلابی سوچ کے خلاف زہر اگلتے تھے،جن میں نوائے وقت،مشرق اور اردو ڈائجسٹ وغیرہ پیش پیش تھے،ان نام نہاد صحافیوں نے حکومت وقت سے مل کر بزنجو صاحب اور ان کی عوامی سیاست کے ساتھ وہ سلوک کیا جیسا کہ روائتی طور پر ایک جن نے اپنے مہمانوں کے ساتھ روارکھا تھا۔وہ بظاہر بڑے خلوص سے اجنبی مسافروں کو اپنے ہاں قیام کرنے کی دعوت دیتا،پر جو اس کی چارپائی سے چھوٹا ہوتا وہ اس کے پیٹ کا ایندھن بن جاتا۔ اور جس کا قد چارپائی سے بڑا ہوتا وہ بھی اس پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا،یوں کسی کو کھا جانا اس جن کی فطرت بن گئی تھی اور بہانہ یہ بنا رکھا تھا کہ آدمی یا تو چارپائی سے بڑا نکلا یا پھر چھوٹا ،یعنی چارپائی کو پیمانے کی حیثیت دے دی گئی تھی،اور بدقسمتی سے نیشنل عوامی پارٹی اس چارپائی پر فٹ نہ بیٹھتی تھی۔

نیشنل عوامی پارٹی میں باچا خان،میاں افتخار الدین، جی ایم سید،حیدر بخش جتوئی،خان عبدالصمد اچکزئی،غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، عطا اللہ مینگل،ولی خان خیر بخش مری، اور دوسرے بہت سے ترقی پسند اور انگریز (کالے اور سفید)استعمار کے خلاف سینہ سپر ہونے والے سیاستدان شامل تھے،نیشنل عوامی پارٹی سے قبل “باچا خان کی خدائی خدمتگار”،”جی ایم سید کی سندھی محاذ”،”میاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی”،” حیدر بخش جتائی کی ہاری تحریک”،”عبدالصمد اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی”، اور” غوث بخش بزنجو کی استمان گل”، الگ الگ جماعتیں تھیں،پھر سب لوگوں نے مل کر ایک پارٹی تشکیل دی جس کا نام پاکستان نیشنل پارٹی رکھا گیا،بعد میں مولانہ بھاشانی کی شمولیت پر یہی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کہلائی،جس کا منشور غوث بخش بزنجو کی ذہنی عرق ریزی کا نتیجہ تھا کہ انہیں یقین کامل تھا کہ مصائب و آلام،دکھ درد اور غم انسانی زندگی کے لیے ناگزیر نہیں ہے بلکہ ایسی مکروہ چیزیں ہیں جن سے انسان کو”مصلتاً” چھٹکارہ حاصل کرنا چاہیے۔

بزنجو صاحب کے ساتھ کسی بھی مسئلے پر بحث کی جا سکتی تھی،اور ایسی بحثیں اکثر ہوتی تھیں،نہ صرف پاکستان بلکہ لندن اور میرے گھر ایمسٹر ڈیم میں بھی،وہ یہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ان کے خیالا ت سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ،اور بڑی توجہ سے دوسروں کے خیالات سنتے تھے لیکن وہ ایسی کسی چیز کو،کسی بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے تھے۔جو بنیادی اور منطقی طور پر غلط ہو۔اصول کے معاملے میں وہ کوئی رعائیت نہ برتتے تھے،مجھے کل کی طرح آج بھی یاد ہے،ایمسٹر ڈیم میں میرے گھر پر ایک بار فیض احمد فیض کے بارے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا”اگر فیض جیسا شخص پیدا نہ ہوتا تو ہم انقلاب کے لیے اسے پیدا کرتے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بزنجو صاحب اپنے بیٹے بزن بزنجو کے ساتھ میرے گھر آئے ہوئے تھے،ہم چند دوست رات گئے تک ان کی دلچسپ باتیں اور سیاسی تبصرے سنتے رہے۔ سفر کی وجہ سے وہ کافی تھکے ہوئے تھے،کہنے لگے،مفتی!مجھے میرا کمرہ دکھاؤ،نیند آرہی ہے۔
میں انہیں ان کے کمرے میں لے گیا، ضرورت کی تمام اشیا پہلے ہی سے کمرے میں رکھ دی گئیں تھیں،پھر بھی احتیاطاً میں نے کہا۔۔
اب آپ آرام کیجئے،رات کے کسی پہر کسی چیز کی ضرورت پیش آئے تو بلا تکلف مجھے آواز دیجئے گا۔
کہنے لگے نہیں،اب میں سوؤں گا،او رصبح تک سوتا رہو ں گا،بس تم یہ کرنا کہ سویرا ہو تو مجھے جگا دینا،
میں ہولے سے قدم واپس لیتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔
بزنجو صاحب! ابھی آپ آرام سے سوئیے،جب سویرا ہوگا تو میں یا میرے بچے آپ کو جگا دیں گے!!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply