انصاف کا تقاضا اور ہمارے حکمراں

امام شامل رحمہ اللہ ایک ولی کامل اور بُزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاندار مسلمان اور ایک شاندار حکمران گُزرے ہیں ۔یہ رشین چیچنیا کے رہنے والے تھے۔ رُوسیوں کے خلاف جنگیں بھی لڑیں، لگ بھگ دو سو سال پہلے دنیا سے رخصت ہوئے ، اور اپنی زندگی میں اُ ن کو کچھ عرصہ حکومت کرنے کا موقع بھی ملا، بہت عادل حکمران، شیر دل مجاہد اور بہادر قسم کے آدمی تھے،حکومت ملنے پر انہوں نے پورے ملک میں اسلامی شریعتی نظام نافظ کیا۔، جب بادشاہ بنے تو ہرطرف سے مبارکباد کا سلسلہ شُروع ہوگیا۔اب ان کے گھر کے قریب رہنے والی خواتین مبارکباد دینے اُ ن کی والدہ کے پاس آتی ہیں، بہن بہت بہت مبارک ہو آپ کا بیٹا بادشاہ بن گیا ، اور اختیارات کا مالک بن گیا، پُورے ملک میں اُس کا سِکہ چلے گا، ماں جی بہت خوش ہوئیں اور اُن عورتوں کی خوب خاطر مدرات کی ۔۔۔اب اُن میں سے کچھ خواتین رخصت ہوگئیں تو پیچھے رہ جانے والی خواتین ماں جی سے کہنے لگیں ۔۔ بہن آپ کا بیٹا بادشاہ بن گیا ہے، ہمارے کچھ رشتہ دار مرد فلاں فلاں جُرم میں بادشاہ کے پاس قید ہیں، بادشاہ چونکہ آپ کا بیٹا ہے، برا ہ مہربانی آپ بادشاہ سے کہیے کہ اُن کو رہا کردے۔

رات کو جب امام شامل رحمہ اللہ اپنے گھر واپس آتے ہیں، ماں جی کی خیرخیریت پوچھتے ہیں، اور اُن کے پاؤں دابتے ہیں،ماں بیٹے میں دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ اور پھر ماں جی اُٹھ کر کھانا لاتی ہیں، امام خاموشی سے کھانا کھانے بیٹھ جاتے ہیں، اسی اثناء میں ماں جی اُن عورتوں کا نام لے کر اُن سے کہتی ہیں، پُتر شامل”آج علاقے کی عورتیں تمہارے بادشاہ بن جانے کی خوشی میں مبارکباد دینے آئی تھیں، ان میں سے فلاں فلاں عورت کے قریبی رشتہ دار مرد کسی جُرم میں تمہارے پاس قید ہیں، پُتر تُو اُن کو آزاد کردے ،وہ اپنے جاننے والی ہیں، امام نے بہت غور سے اور بہت محبت بھری نگاہوں سےاپنی ماں کی جانب دیکھا اور بالکل خاموشی سے کھانا کھایا، کوئی جواب نہ دیا، کھانے سے فارغ ہوکر وضو کیا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔ ماں جی بھی اپنے کمرے میں چلی گئیں ، اور بات آئی گئی ہوگئی۔

امام نے اپنے کمرے میں مصلی بچھایا اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔۔
اب ہوتا کیا ہے؟۔۔۔۔
امام نے صُبح سویرے اپنے گھر ہی میں ایک چھوٹی سی دعوت کا اہتمام کرڈالا اور مُلک کے جید اور نامور مفتیان کرام کے علاوہ وقت کے قاضی کو بھی اپنے گھر بُلا لیا، کچھ تواضع کے بعد امام کھڑے ہوئے اور کہنے لگے،
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں ؟
مفتیان کرام نے بیک آواز ہوکر پُوچھا ۔۔بادشاہ سلامت ایسا کیا مسئلہ درپیش آگیا جس کی وجہ سے آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہورہا ہے، آنکھیں سُوجی ہوئی اور سُرخ ہورہی ہیں، اور آپ کی زبان بھی آپ کا ساتھ نہیں دے رہی ، جلدی بتائیے ہم اُس کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،

امام یوں گویا ہوتے ہیں” ایک عادی اور ثابت شدہ مُجرم کی سفارش کرنے والے کسی بھی آدمی کی دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا سزا بنتی ہے؟
مفتیان کرام نے کہا! بادشاہ سلامت عادی اور ثابت شُدہ جرم کے مرتکب افراد کی سفارش کرنے والے شخص کو اتنے کوڑوں کی سزا بنتی ہے۔۔
امام نے کہا اگر سفارش کرنے والا شخص ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے بدنی لحاظ سے کمزور ہو تو ؟
مفتیان کرام ۔۔۔بادشاہ سلامت” سفارش کرنے والا شخص اگر ضعیف اور کمزور ہے تو ایسے شخص کی سزا اُس کے بہت قریبی رشتہ دار کو دی جائے گی”۔

یہ سُن کر امام شامل رحمہ کھڑے ہوئے اور اپنی والدہ کا سفارش کرنے والا تمام واقعہ مفتیان کرام اور قاضی کو سُنا ڈالا۔
اور پھر چشم فلک نے عجیب نظارہ دیکھا کہ وقت کا بادشاہ ایک عالم باعمل، ایک صوفی ،ایک مجاہد، ایک ولی کامل” کچھ غلط لوگوں کی انجانے اور معصومیت کی بناء پر سفارش کرنے کے جُرم پر اپنی والدہ کے بدلے کی سزا اپنی ننگی پیٹھ پر برداشت کررہا ہ تھا ”

Advertisements
julia rana solicitors

دوستو!اب آتے ہیں اپنے ملک کی طرف وقت کے بادشاہ کو اور اُس کے سارے خاندان کو ملک کی سب سے بڑی عدالت اور وقت کے قاضی نے مجرم ڈکلئیر کردیا، اور ایسا کردینے کے بعد اُن کو فرائض منصبی سے بھی روک دیا جاتا ہے ، اپنے عہدے سے معزول بھی کردیا جاتا ہے “مگر ہوتا کیا ہے؟
معاذ اللہ استغفراللہ کیا دین محمدﷺ کی تعلیمات میں ردو بدل ہوچُکا؟ کیا200 سال اور 1400 سالہ پہلے کی شریعت کے احکامات بدل گئے؟
نہیں ہرگز نہیں، بلکہ ہم دُنیا کے فریب ودَجل کا اس حد تک شکار ہو چُکے ہیں کہ ہمیں کوئی جُرم، جرم دکھائی ہی نہیں دیتا” ہمارا سفر بلندی سے پستی کی جانب تیز رفتاری سے جاری ہے ، اور ہم مانیں یا نہ مانیں ہم مذہبی اخلاقی سیاسی اور سماجی لحاظ سے گہری اور اندھی کھائی میں گر چُکے ہیں” ۔۔معاشرے اور زندگیوں میں سکون اور آسانیوں کے لیے ہمیں دینِ محمدی کی پیروی کرنا ہوگی۔۔اس کےبغیر انصاف کا تصور بھی محال ہے۔

Facebook Comments

یاسر قریشی
لکھنے لکھانے کا شوق والد سے ورثے میں منتقل ہوا۔ اپنے احساسات و جذبات کو قلم کی نوک سے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply